پیر صاحب پگارہ کی ناقابل فہم ناراضگی

روزنامہ جسارت ہفتہ 26 جولائی 1986 ء

پیر صاحب پگارا ٹھنڈے دل و دماغ کے مالک ایک ایسے سیاستداں ہیں جو کبھی کسی کی دل آزاری پسند نہیں کرتے وہ اظہار خیال کا ایک مخصوص انداز رکھتے ہیں جس سے اخبارات اور ان کے قائدین کے لئے تفریح طبع کا سامان بھی فراہم ہوتا ہے لیکن بین السطور آپ کے بیانات میں کام کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ پیر صاحب سخت سے سخت بات بھی ایسے ہلکے پھلکے انداز میں کہہ دیتے ہیں کہ لاٹھی محفوظ رہتی ہے۔ لیکن اس ماہ کےشروع میں ان کے رویہ میں اچانک اور بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی اور وہ یہ کہ آپ نے ملک میں نفاذ شریعت کے خلاف بڑے سنجیدہ اور تند و تیز لہجہ میں بیانات جاری کئے ۔ کہیں نفاذ شریعت کے خلاف " ملائیت" کا نام لے کر اور کہیں اسے " مودودی ازم" قرار دے کر بات کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان میں کوئی بھی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پیر صاحب پگارا شریف ملک میں شریعت کے نفاذ کی مخالفت کرسکتے ہیں اسی کا ردعمل تھا کہ نفاذ شریعت پر زور دینے کے لئے اسلام آباد میں جو تاریخی مظاہرہ کیا گیا اس میں نوجوانوں نے پیر صاحب موصوف کے اس رویہ کے خلاف نعرے بلند کئے۔ چند منچلوں نے پیر صاحب کا ایک پتلا بھی بنالیا لیکن مظاہرہ کے قائدین نے اس پتلے کو ہٹوادیا اس لئے اسے جلانے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں اور ویسے بھی مظاہرہ کے وقت اسلام آباد میں زور دار بارش ہورہی تھی اس لئے کسی بھگے ہوئے پتلے کو جلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اخباری نمائندوں نے جیسے ہی یہ باتیں پیر صاحب کو پہنچائیں انہوں نے اپنے عادت کے برخلاف جلد بازی سے کام لیتے ہوئے اعلان کردیا کہ اب جماعت اسلامی سے ان کی مفاہمت ختم ہوچکی ہے۔

ہر جمہوری ملک کا باشندہ جانتا ہے کہ حمایت اور مخالفت میں نعرے لگانا میدان سیاست کی پہلی شق ہے جو اس اکھاڑے میں کودے گا اسے تو پٹخیاں کھانے کے لئے تیار رہنا ہی ہوگا پھر نفاذ شریعت کے خلاف بیانات دے کر اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ پاکستان میں اسکے خلاف کوئی بھی ایک لفظ نہیں کہے گا تو یہ غلط فہمی ہے نفاذ شریعت کے لئے جدوجہد کرنے والے تو اپنے راستے میں رکاوٹ بننے والی بڑی طاقت کو ہٹانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم محمد خاں جونیجو نے واشنگٹن میں پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بالکل صحیح کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی حکومت یا کوئی جماعت اسلام سے انحراف کرے گی تو اسکا تختہ الٹ دیا جائے گا۔

نفاذ شریعت کے سلسلے میں ہونے والے مظاہرہ کا اہتمام کرنے والوں میں سنیوں کے تمام مسالک اور مکتب فکر کے علماء و سیاستداں ہی نہیں بلکہ شیعہ عالم بھی شامل تھے۔ ایسے میں تنقید کا ہدف محض جماعت اسلامی کو بنانا اور " مودودی ازم" کی مخالفت کا اعادہ کرنا ناقابل فہم بات ہے۔ ملک کے تمام علمائے کرام اور سیاسی قائدین اگر "مودودی ازم" پر ہی متفق ہیں تو پھر کون ہے جو ان کی راہ میں آئے ۔ ویسے پیر صاحب سے بہتر اور کون جانتا ہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے دنیا کے سامنے صحیح اور سچے اسلام کو سادہ اور عام فہم زبان میں پیش کرنیکا عظیم اور تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے مرحوم نے " مودودی ازم" نہیں بلکہ اسلام کے لئے ایک ایسا ہر اول دستہ تیار کرنے کی کوشش کی کہ اس کی موجودگی میں کسی بھی " ازم" کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور الحمدللہ کہ سید مودودی اپنی کوشش میں کامیاب رہے۔ اب " مودودی " ازم کا طعنہ دے کر اس قافلے کو آگے بڑھنے سے روکنا محال ہے۔ اس ضمن میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں 10 اپریل کے بعد سے " بھٹو ازم" کی تبلیغ و تشہیر کی جارہی ہے لیکن پیر صاحب نے اسکے خلاف کچھہ نہیں کہا حالانکہ " بھٹو ازم" اس ملک کے دو لخت ہونے کی علامت ہے۔

اسلام آباد کے مظاہرہ میں مبینہ طور پر پیر صاحب پگارا کو دی گئی "گالیوں" کے خلاف دو ایک مقامات پر ہڑتال کئے جانے کی خبریں اور جماعت کے خلاف مذمتی بیانات جاری کئے گئے ہیں اور پیر صاحب خود بھی ان " گالیوں" کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں لیکن دوسری طرف 10 اپریل سے اب تک مسلسل ملک کے ہر شہر اور شہر کی گلی میں جلسے اور جلوسوں میں ایک پارٹی کے کارکن اور لیڈر پیر صاحب کی شان میں ناقابل بیان حد تک گستاخی کرتے رہتے ہیں لیکن نہ تو پیر صاحب کی شان میں ناقابل بیان حد تک گستاخی کرتے رہتے ہیں لیکن نہ تو پیر صاحب ہی نے ان کا نوٹس لیا اور نہ کسی قصبہ یا دیہات سے پیر صاحب کے خلاف اس "فحش گوئی" کی مذمت میں ہڑتال ہوئی اور نہ کسی کی طرف سے بیان ہی جاری کیا گیا تو پھر نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والوں ہی کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے؟

یہ سچ ہے کہ ملک کے تقریباً تمام ہی طبقے اور سیاستداں پر صاحب پگارا کے احترام کرتے ہیں لیکن یہ اس سے بڑی سچائی ہے کہ ملک میں نفاذ شریعت یا نفاذ اسلام کے خلاف کوئی بھی شخص بولے گا تو اس ملک کا رمضانی بھی ایسے شخص کو ٹوکے بغیر نہیں رہے گا اس لئے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام ہی تو ایک " جرم" ہے جس کی پاداش میں آج بھی ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں آئے دن " احمد آباد کی قربان گاہیں آباد کی جاتی ہیں اور ان قربان گاہوں سے گزرنے والوں کی منزل ملک میں مکمل نفاذ اسلام ہے۔ اس راستے پر چلنے والوں کو کوئی " ملائیت " کا طعنہ دے یا "مودودی ازم" کو گالی کے طور پر استعمال کرے وہ تو اپنی راہ پر آگے ہی بڑھتے رہیں گے۔ اس لئے راستہ سے دور کھڑے تماشا دیکھنے والوں کو بھی چاہئے کہ نفاذ شریعت کے اس قافلہ میں شامل ہوجائیں کہ اسی میں قوم کی نجات اور ملک کی ترقی و استحکام کا راز مضمر ہے۔

No comments:

Post a Comment