اخبارات پر حملہ قومی وقار پر حملہ ہے
روزنامہ جنگ بدھ 3 فروری 1988ء
تحریر و تقریر کی آزادی سے محروم کوئی بھی معاشرہ آزاد، جمہودی، مہذب اور باعزت معاشرہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تحریر کے ذریعے ہی لوگوں کے جذبات و احساسات کا پتہ چلتا ہے اور ان کے اظہار کا سب سے مؤثر ذریعہ اخبارات و رسائل ہوتے ہیں، اس طرح اخبارات اور رسائل معاشرے کے عکاس قرار پائے ہیں۔ عکس میں داغ اور دھبے منظر کو بدصورت بلکہ کریہہہ بنادیتے ہیں۔ جو لوگ ان کی آزادی کو ختم یا کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل معاشرہ کا حلیہ بگاڑ کر اس کے باعزت مقام سے اسے گرانا چاہتے ہیں ایسا کرنے والے صاحبان اقتدار بھی ہوسکتے ہیں جو نازیبا قانون بناکر اخبارات پر بے جا پابندیاں لگاتے ہیں اور سیاسی ، غیر سیاسی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی ہوسکتی ہیں جو اپنے محدود مفادات کی خاطر تشدد کے ذریعے ان کا اپنی مرضی کا پابند بنانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں ، ایسے ہی لوگ ہیں جو دراصل معاشرہ کی بنیادوں کو ڈھا کر اور منظم اداروں کو کمزور بنا کر دانستہ یا نادانستہ دشمن کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے سب سے بڑے اور مؤقر اخبار جنگ کے دفتر اور پریس پر حملہ اور آتشزدگی اور اس کے پشاور بیورو آفس پر حملہ اور کارکنوں کو زدوکوب کرنے کے واقعات کے ذمہ دار لوگوں کی مذموم حرکت سے پوری قوم کا سر ندامت سےجھک گیا۔ اس قسم کے واقعات ماضی میں بھی ملک کی بدنامی کا باعث بنے ہیں اور آج بھی آزاد دنیا میں ہماری سبکی ہوئی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اخبارات کو پابند بنانے کی کوشش کرنے والوں کو ہمیشہ ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
اخبارات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہی ہوجاتا ہے کہ ان کو چوتھی مملکت یا مملکت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ کسی بھی مضبوط اور مکمل عمارت کا تصور چوتھے ستون کے بغیر ممکن نہیں۔ مشہور مغربی مصنف کے مطابق اب سے ڈیڑھ صدی سے بھی زیادہ پہلے برک نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں تین طبقے موجود ہیں لیکن نامہ نگاروں کی گیلری میں چوتھا طبقہ بیٹھا ہے جو ان تینوں طبقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ بات بتانے کی تو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ قرون وسطٰی میں غیر مسلم معاشرہ تین بڑے طبقوں میں تقسیم تھا ایک پادریوں یا مذہبی پیشواؤں کا طبقہ تھا جس میں بادشاہ کو بھی اس لئے شمار کیا جاتا تھا کہ وہ مذہبی پیشوا بھی ہوتا تھا۔ دوسرا طبقہ شرفاء کا تھا جو امراء و رؤسا، بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں پر مشتمل تھا۔ عام لوگوں کا شمار تیسرے طبقہ میں ہوتا تھا بالفاظ دیگر یہ طبقے ہی مملکت کے ستون سمجھے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ پادری اور مذہبی پیشوا اپنا اثر کھو کر تقریباً معدوم ہوگئے اور بادشاہت نے بھی مختلف شکلیں اختیار کرلیں۔ اخبارات اور رسائل کے اجراء کے ساتھہ ہی ایک زیادہ مؤثر طبقہ ابھر کر سامنے آیا اور اس کی گہرائی اور گیرائی کا سبب اسے چوتھا ستون قرار دیا گیا۔ انگلستان میں گزشتہ صدی کے آخری ربع میں بھی "ٹائمز" مملکت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا تھا۔
آزاد اور جمہوری ممالک میں ووٹ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ووٹ کے ذریعے عوام مقررہ مدت کے لئے اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں اور کسی پارٹی کو حکمرانی کا حق تفویض کردیتے ہیں ، گزرے ہوئے وقت کی طرح کسی کے حق میں ڈالا گیا ووٹ واپس نہیں لیا جاسکتا یعنی جو امیدوار منتخب ہوگیا اسے ووٹ کے ذریعے قبل از وقت ہٹایا نہیں جاسکتا لیکن اخبارات کے ہاتھہ میں اتنی قوت ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے کئے گئے فیصلوں کو بھی کالعدم یا غیر مؤثر بنا سکتے ہیں حالیہ برسوں میں اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ کی ہے جہاں کے ایک منتخب صدر کو اپنی معیاد صدارت پوری کئے بغیر ہی ایوان صدر سے رخصت ہونا پڑا تھا اور یہ کارنامہ واٹر گیٹ اسکینڈل کا کھوج لگا کر اخبارات نے سرانجام دیا تھا۔ خود ہمارے ملک میں بھی ایک صبح کراچی کے اخبارات میں ایک اداریہ شائع ہوا وار شام ہونے سے پہلے پہلے صوبائی حکومت تبدیل کردی گئی۔
آزاد اور غیر جماعتی اخبارات کے دو چہرے اور چار آنکھیں ہوتی ہیں ایک چہرہ حکومت کا ہوتا ہے اور دوسرا چہرہ عوام کا۔ اسی طرح دو آنکھیں حکومت کی اور دو عوام کی۔ چہرہ ہر شخص کے جذبات و احساسات اور کردار کا عکس ہوتا ہے اور آنکھہ ہر شے کی حقیقت کو دیکھتی ہے۔ عوام اخبارات کے ذریعے حکومت کی حکمت عملیوں کے خدوخال اور ان کے مضمرات کا پتہ لگاتے ہیں اور چشم بینا رکھنے والی حکومتیں اخبارات ہی کے وسیلے سے عوام کے جذبات اور ان کے رجحانات کا اندازہ لگا کر اپنے رویے کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن اخبارات کے ہاتھہ میں بلکہ یوں کہئے کہ صحافیوں کے ہاتھہ میں ایک چھڑی بھی ہوتی ہے ۔ یہ چھڑی کسی پر ضرب لگانے کے لئے نہیں بلکہ وہ راستہ اور منزل کی نشاندہی کے لئے استعمال کی جاتی ہے گویا یہ چھڑی حکومت اور عوام یعنی بحیثیت مجموعی پوری قوم کے لئے "رہنما" کا کام دیتی ہے۔ اخبارات حکومتی پالیسیوں کی خوبیوں اور خرابیوں کو سامنے لا کر ان کو درست کرنے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں اور دوسری طرف عوام کی غلط روش یا غلط توقعات پر انہیں ٹوکتے اور صحیح طرز عمل اختیار کرنے کے لئے راہ دکھاتے ہیں۔ یہ چھڑی اخبارات کے اداریئے اور ان میں شائع ہونے والے تجریئے اور تبصرے ہوتے ہیں جو مختلف شعبوں کے ماہرین کی طرف سے آتے ہیں۔ اخبارات کا دوسرا حصہ خبروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ خبریں "جیسی بھی ہوں ویسی ہی" دی جانی چاہئیں اگر ان کا رخ موڑنے یا کسی کی حمایت میں یا کسی کی موافقت میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے گی تو پھر وہ خبر نہیں بلکہ "پروپیگینڈہ" بن جاتی ہے اور لوگ پروپیگینڈہ کو پسند نہیں کرتے اس طرح اخبار اپنی افادیت کھودیتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنے "انجام" کو پہنچتا ہے۔ اس لئے اخبارات کو مخصوص مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش آنکھوں پر پٹی باندھ کر چلنے کی کوشش کے مترادف ہوگی۔ اسی طرح اخبارات کو جانبداری، تعصب اور محدود یا گروہی مفادات کے دبیز پردوں میں دبا دیا جائے تو معاشرہ کی بنیادیں کمزور پڑجائیں گی اور ایسا معاشرہ زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔ آج جس معاشرت میں جتنے زیادہ اور بڑے اخبارات ہیں وہ معاشرہ اتنا ہی زیادہ مستحکم اور محترم شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے آزاد معاشروں میں آزادیٔ صحافت پر جو آزادیٔ تقریر کا دوسرا نام ہے سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے بلکہ جہاں اخبارات آزاد نہیں ہیں وہ بھی یہ دعویٰ کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کے اخبارات کی آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت، معاشرہ اور خود صحافیوں پر عائد ہوتی ہے۔
اخبارات کو تین طریقوں یا تین فریقین کی طرف سے پابند کیا جاسکتا ہے ایک حکومت کی طرف سے بیجا قوانین اور سنسر شپ وغیرہ کے نفاذ کے ذریعے اور دوسرے کالی بھیڑوں پر مشتمل گروہوں کی جانب سے تشدد کے ذریعے یہ دونوں طریقے غیر مہذب اور قابل مذمت بلکہ قابل مزاحمت ہیں تیسرا طریقہ البتہ مستحسن اور لازمی ہے اور وہ معاشرے کی مروجہ روایات اور ملکی مفاد کے پیش نظر خود صحافی حضرات کی طرف سے پابندیاں ہیں ان پابندیوں میں مذہب کے خلاف لکھنے ، معاشرے کی روایات کی توہین کرنے ، فحاشی اور عریانیت کو فروغ دینے، افراد کے ذاتی معاملات کا کھوج لگا کر ان کے افشاء کرنے، کسی کی تضحیک کرنے اور ملک و ملت کے خلاف اس طرح لکھنا کہ دشمن کو فائدہ پہنچے جیسے معاملات ہیں۔
تشدد ، بغیر دلیل کے کوئی بات منوانے کا واحد ذریعہ ہے اگر اس طریقے کی برداشت کیا گیا تو کل ہمارے یہاں " جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کا اصول مروج ہوجائے گا اور پھر تمام چھوٹے طبقوں کو کوئی بڑا یا طاقتور طبقہ ہضم کرجائے گا اور ہم جہالت کے تاریک دور میں واپس چلے جائیں گے۔ اس لئے ہمیں تشدد کے بجائے دلیل اور افہام و تفہیم کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اخبارات کسی چھوٹے طبقے یا منافرت کی بنیاد پر قائمن کسی گروہ کی ہدایت یا مرضی پر چلنے کے متحمل نہیں ہوسکتے انہیں اپنا قومی تشخص برقرار رکھنا ہوتا ہے ۔ یہ بات سیاسی لیڈروں، کارکنوں کو خوب اچھی طرح سمجھہ لینی چاہئے پھر جو جتنا بڑا اخبار ہوگا اس کی ذمہ داریاں اسی لحاظ سے ہمہ گیر ہوں گی۔
صحافی حضرات ہمارے معاشرے کے اور ہماری ہی طرح کے انسان ہیں ان کو تشدد کا نشانہ بنانا یا اخبارات کی املاک کو نقصان پہنچانا خود قومی وقار کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اس ضمن میں عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرکوبی کے لئے منظم ہو کر عملی کاروائی کریں۔ اخبارات کی آزادی کے بغیر ملک اور قوم کی آزادی نامکمل رہتی ہے۔ ان کا احترام قوم کا احترام ہے، اس لئے چند کالی بھیڑوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اخبارات کی پالیسیاں بنانے کے لئے پرتشدد کاروائی کریں۔ اس ضمن میں ملک کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ان کے کارکنوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ آزادیٔ تحریر و تقریر کے بلند و بانگ دعوؤں کے بجائے عملی مظاہرہ کرکے ایسے مفسدوں کا سر کچل دینے کے لئے ایک آوازہوجائیں جو اخبارات پر غیر سرکاری طور پر بابندیاں لگانے کے در پے ہیں۔ تمام جماعتوں اور تنظیموں کو چائیے کہ وہ آئندہ کسی بھی اخبار کے دفتر پر کسی قسم کے مظاہرہ نہ کریں اور ایسا کرنے والوں کے خلاف اٹھہ کھڑی ہوں۔ صحافیوں کو یہ عہد کرلینا چاہئے کہ اخبارات کے خلاف تشدد کرنے والوں کی خبروں اور بیانات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا اس سلسلے میں حکومت پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرے تاکہ کسی بھی گروہ کو تحریر کی اس آزادی کو ختم کرنے کی جرأت نہ ہو جس کے لئے مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، مولانا ابو الکلام آزاد اور شورش کا شمیری نے عظیم دی ہیں اور اب جنگ بھی انہی آزمائشوں سے دو چار ہے۔
No comments:
Post a Comment