کون سندھی ، کون مہاجر

روزنامہ جسارت پیر 7 جولائی 1986 ء

آج کل سندھ میں ایک طرف تو شہری آبادی کے حقوق اور "مہاجرین" کے مفادات کے تحفظ کے نام پر چند تنظیمیں اور تحریکیں بڑی سرگرم عمل نظر آرہی ہیں اور دوسری طرف "سندھیوں" پر مظالم کے خلاف تحریک چلائی جارہی ہے جس کی زد خود " سندھیوں" ہی کے ایک طبقہ پر پڑرہی ہے۔ ان تنظیموں اور تحریکوں کے وجود کو قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ قومی اخبارات اور بڑے شہروں کی دیواریں ہیں جو ایسی تنظیموں کے نعروں اور ان کے قائدین کے جلسے جلوسوں اور استقبال کی اپیلوں سے اٹی پڑی ہیں ۔ یہ تنظیمیں بڑے بڑے اور رنگین پوسٹر شائع کرکے شہروں کی دیواروں ہر کا حلیہ نہیں بگاڑ رہے ہیں بلکہ سندھ کے ماحول میں ارتعاش پیدا کرکے صورت حال کو اور بھی خراب کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔

سب سے پہلے " مہاجرین" کے حقوق کے علمبردار ان تنظیموں اور تحریکوں کا ذکر جو صرف کوٹہ سسٹم کے خلاف شور مچاتی ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم سے مہاجرین کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ کہ سندھی ان کے حقوق غصب کررہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں بہتر یہ ہے کہ حقائق پر ٹھنڈے دل سے غور کرلیا جائے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ اصل میں کون کس کے حقوق غصب کررہا ہے، جو حضرات " مہاجر" کے نام پر اپنی لیڈری چمکانے کی کوشش کررہے ہیں وہ خود کسی پہلو سے بھی مہاجر نہیں ہیں یا تو یہ بات ان کی انتہائی سادگی کا نتیجہ ہے یا پھر وہ کسی ایسے طبقہ کے آلۂ کار ہیں جو خود سامنے آنے سے شرماتا ہے، یا پھر وہ اپنی اصلیت کو چھپاکر مہاجر کا لبادہ اوڑھے منظر عام پر آرہا ہے اور اپنی دانستہ یا نادانستہ حرکتوں سے سندھ کے باشندوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کررہا ہے۔

اگر تعصب کا چشمہ اتار کر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو مہاجرین کی حقیقت اور ان کی سندھ میں صحیح تعداد کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہمیں خود مہاجر کا تعین کرنا ہوگا کہ حقیقت میں یہ ہیں کون؟ دینی نقطہ نگاہ سے مہاجر وہ ہے جو اپنے دین و ایمان کو کافروں کے ظلم و ستم سے بچانے کےلئے اپنے گھربار کو چھوڑ کر دوسری جائے پناہ میں چلا جائے اس سلسلہ کی سب سے بڑی اور تاریخی مثال مکہ مکرمہ سے مسلمانوں کی مدینہ منورہ کو ہجرت ہے بعض حالات میں ہجرت کو دینی فریضہ کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح کسی شخص پر کسی مرحلہ پر حج فرض ہوجاتا ہے۔

یعنی جب کسی شخص کے پاس اتنی رقم ہوجائے کہ وہ حج کے تمام خراجات پورے کرسکے تو اس کے لئے حج کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ جو شخص حج کا فریضہ ادا کرلیتا ہے اسے " حاجی " کہا جاتا ہے حج کی طرح ہجرت ایک ایسا فریضہ ہے جو نماز اور روزہ کی طرح فرض نہیں ہے ۔ بلکہ حالات اسے فرض کا درجہ دے دیتے ہیں جن حالات میں ہجرت فرض ہوئی اور جس شخص نے یہ فرض ادا کیا وہ مہاجر ہوا اور اسے مہاجر کہا جاسکتا ہے۔

لیکن جس طرح حاجی کو اولاد کو ہم حاجی نہیں کہتے مہاجر کی اولاد کو بھی یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ خود کو ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد کویعنی حقیقی مہاجر کے پوتے پوتیوں تک کو مہاجر کہتا پھرے یہی نہیں بلکہ مہاجر کے نام پر اپنی لیڈری کا محل بھی تعمیر کرنے کی کوشش کرے۔

جو بچہ پاکستان میں پیدا ہوا وہ کسی لحاظ سے بھی مہاجر نہیں ہوسکتا۔ وطنیت کے لحاظ سے وہ پاکستانی اور علاقائی نسبت سے سندھی ہوا۔ اس طرح آج جو سندھ کے مدارس یا جامعات میں زیر تعلیم ہیں اور ان کی پیدائش بھی یہیں کی ہے۔ وہ سب کچھہ تو ہوسکتے ہیں لیکن مہاجر ہر گز نہیں ہو سکتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ کون ہیں؟ ہندوستان سے ہجرت کرکے جو لوگ سندھ میں آباد ہوگئے اور انہوں نے صوبہ سندھ سے اپنی قسمت اور اپنا حال اور مستقبل وابستہ کرلیا وہ اور ان کی اولاد سندھی اور پاکستانی ہیں۔ یہ لوگ یہیں آباد ہیں ان کے کاروبار ان کی جائیدادیں، سب کچھہ یہیں ہیں ، یہ اپنے مردوں کو بھی یہیں دفن کرتے ہیں۔ اپنی کمائی یہیں خرچ کرتے ہیں اور یہیں جمع کرتے ہیں ۔ یہی لوگ سندھی ہیں ان کو نیا سندھی کہا بھی قانونی یا اخلاقی کسی لحاظ سے جائز نہیں ، یہ صرف سندھی ہیں نہ نئے نہ پرانے ۔ ہاں اوپر دی گئی تعریف کے مطابق مہاجرین کو تو نیا سندھی کہا جاسکتا ہے۔ سندھ میں آباد سندھیوں میں صرف ایک فرق ہے اور وہ ہے زبان کا یعنی وہ سندھی جنکی مادری زبان زندھی ہے اور دوسرے وہ سندھی جنکی مادری زبان آردو ہے ۔ اب وہ چاہے شہر میں رہتے ہوں یا دیہاتوں میں ہیں تو وہ سب ہی سندھی۔ اردو بولنے والے سندھیوں اور سندھی بولنے والے سندھیوں، دونوں ہی کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے لیکن سندھ کے مفادات کے لئے مل کر جدوجہد نہ کرنا یا ایک خاص طبقہ کے مفادات کے نعرے لگانا بحیثیت مجموعی اپنےصوبہ سے وفاداری قرار نہیں دی جاسکتی۔ مختلف گروہوں یا طبقوں میں الگ الگ بٹ کر محدود مفادات کی بات کرنے سے سندھ کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جاسکتا۔

کوٹہ سسٹم اور دیہی اور شہری کی تقسیم عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے اور یہ امر ہر فرد کے لئے مساوی مواقع مہیا کرنے کے مسلمہ اصولوں اور بنیادی تقاضوں کے منافی ہے اور اس سسٹم کو نافذ کرکے ہم "اہل" کے مقابلہ میں "نااہل" کو ترجیح دینے کے قومی جرم کا ارتکاب کررہے ہیں لیکن اس مسئلہ کو دیہی آبادی کے خلاف نفرت پیدا کرنے یا سندھی بولنے والے سندھیوں کے خلاف تعصب پھیلانے کا ذریعہ بنانا بھی متعصبانہ بات ہے۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو کوٹہ سسٹم صرف شہری آبادی ہی کے خلاف نہیں بلکہ یہ خود صوبہ سندھ کے خلاف بھی ایک گہری سازش ہے۔ سائنس ، ٹیکنالوجی اور دیگر اعلٰی پیشہ ورانہ شعبوں میں کم اہلیت کے حامل افراد کو آگے بڑھانے کا منطقی نتیجہ قومی سطح کے مقابلوں میں ہمیں پیچھے رکھنا ہے۔ اس لئے کوٹہ سسٹم کے خلاف جدوجہد تمام سندھیوں کے لئے ضروری ہے ۔ اس سسٹم کے ضرر رساں ہونے کا سب سے بڑا اور نمایاں ثبوت یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم اور اس کے ذریعہ دیہی اور شہری آبادی میں امتیاز صرف سندھ ہی میں ہے ۔ یقین کیجئے یہ سسٹم اگر فی الحقیقت مفید ہوتا تو سندھ میں تو اسے نافذ ہر گز نہیں کیا جاتا یا پھر دوسرے صوبوں کے باشندے بھی کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے لئے تحریکیں چلاتے لیکن کسی اور صوبہ میں لوگوں نے کوٹہ سسٹم نافذ کرنے کا نہ تو مطالبہ کیا اور نہ ہی کوئی تحریک چلائی۔ پس ثابت ہوا کہ کوٹہ سسٹم کا نفاذ بدنیتی پر مبنی ہے اور اس کا واحد مقصد سندھ کے دیہی اور شہری باشندوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنا ہے تاکہ یہ اجتماعی اور مشترکہ مفادات کے لئے متحد ہوکر جدوجہد نہ کرسکیں۔

کچھہ عرصہ کے لئے کوٹہ سسٹم کو نظرانداز کرکے اہل سندھ کو ایک اواز ہوکر یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ سندھ میں قائم تمام صنعتی اداروں اور تمام صوبائی محکموں بشمول پولیس ، کے ڈی اے، کے ای ایس سی، کے پی ٹی اور سندھ میں قائم تمام اسامیوں پر سندھیوں کا تقرر کیا جائے اس مطالبہ کی بنیاد کسی قسم کا تعصب نہیں بلکہ دوسرے صوبوں کے لوگوں کے خلاف موجود تعصب کو ہم صرف اسی طریقہ سے ختم کرسکتے ہیں اس اصولوں پر عمل کرکے ہم نہ صرف سندھ کے اندر جنم لینے والے آپس کے تعصب کا خاتمہ بھی کرسکیں گے بلکہ دوسرے صوبوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔ ہم سندھ ہی میں نہیں بلکہ پنجاب کے لئے بھی پہلے مقامی پھر پڑوسی کے اصول کی حمایت کریں گے اور سرحد اور بلوچستان کے لئے بھی ایسا ہی جائیں گے۔

یہ سراسر زیادتی ہے کہ روزگار کے وسیع مواقع موجود ہونے کے باوجود بھی مقامی آبادی بے روزگاری کی لعنت کا شکار ہے ۔ سندھ میں الحمدللہ روزگار کی فراوانی ہے لیکن سب سے زیادہ بے روزگار بھی بدقسمتی سے اسی صوبہ میں موجود ہیں ایسی صورت میں احساس محرومی، تعصب، نفرت اور لاقانونیت کے فروغ کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ سندھ میں اس قدر ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں کہ تمام مقامی آبادی کو ملازمتیں دینے کے بعد بھی بڑی تعداد میں دوسرے صوبوں کے لوگوں کے لئے اسامیاں بچ رہیں گی۔ ان اسامیوں پر بلاتکلف غیر مقامی لوگوں کو بھرتی کیجئے پھر آپ دیکھیں گے کہ سندھ کے لوگ دوسرے صوبوں کے لوگوں کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرتے ہیں۔ سندھ کے لوگ عربوں کی طرح انتہائی مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ ہندوستان کے ہر صوبہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں نے اسی صوبہ کو اپنا گھر بنایا اور اب بھی وہ مل جل کررہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسرا ثبوت یہ ہے کہ آج سندھ میں دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے افراد کی بہت بڑی تعداد آباد ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ مقامی لوگ ملازمتوں کے لئے آواز بلند کرتے ہیں تو ان کی متعصب اور بعض اوقات مصلحت وطن دشمن تک قرار دے دیا جاتا ہے۔

یہ کیسا انصاف ہے کہ سندھ کا بے زمیں ہاری تو بے زمین ہی رہے اور یہاں کی فاضل اراضی نیلام یا انعام کے ذریعہ مستحق لوگوں کو دے دی جائے یہاں کے نوجوان حصول روزگار کے لئے مارے مارے سے پھرتے رہیں اور یہاں کی ملازمتیں دوسرے صوبوں سے آنے والے افراد کو بخش دی جائیں اور ان حالات کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو متعصب اور وطن دشمن قرار دیا جائے۔

ارباب حل و عقد کو چاہئے کے سندھ کے لوگوں کی جائز شکایات کے فوری ازالہ کا اہتمام کریں اس لئے کہ جو بات کل بعد از خرابیٔ بسیار تسلیم کرنی ہے تو وہ آج کے بہتر اور مناسب حالات ہی میں تسلیم کرلیں ورنہ ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ پہلے تو بنگالی کو سرکاری زبان ماننے سے انکار کیا گیا اور پھر اسے قومی زبان کا درجہ تک دینا پڑگیا۔

ون یونٹ کے نام پر اس کے مخالفین کی پکڑ دھکڑ کے علاوہ ان میں غدّاری کے سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کئے گئے اور پھر ون یونٹ کو توڑنا بھی پڑا۔ 1977ء کے انتخابات کو ایک طبقہ نے ماننے سے انکار کیا ور حکومت اس کو منوانے پر بضد رہی تو قوم کو نو سال تک انتخابات کے ذریعہ اپنی حکومت کےنے کے حق ہی سے محروم رہنا پڑا۔

سندھی بولنے والے سندھیوں کا اردو بولنے والے سندھیوں سے یہ مطالبہ درست ہے کہ وہ سندھ کے ساتھہ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف جدوجہد میں ان کا ساتھہ دیں۔ اسی طرح اردو بولنے والے سندھیوں کا سندھی بولنے والے سندھیوں سے بھی یہ مطالبہ جائز ہے کہ دیہی اور شہری آبادی کے درمیان تصادم اور نفرت پیدا کرنے کی غرض سے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کے خلاف مہم میں ان کا ساتھہ دیں ۔ تاکہ تمام سندھیوں کو روزگار کے یکساں مواقع میسر آسکیں۔ اس کے ساتھہ ہی سندھی اور مہاجر کے نام پر قائم تنظیموں اور تحریکوں کو ختم کرکے ایک دوسرے کے لئے خیر سگالی کا اظہار کرنا چاہئے اور سندھ کے حقوق اور اس کے مفادات کے لئے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے اور اس مقصد کے لئے سندھ یا پاکستان کے نام پر تنظیمیں قائم کی جائیں ۔ کسی طبقہ کے نام پر تنظیمیں اور تحریکوں سے لوگ صرف منتشر ہوتے ہیں متحد نہیں لیکن ہمیں سندھ اور پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور عظمت کے لئے ایک ہوکر کام کرنا ہے۔ اس کے بغیر ہمارا کوئی حقیر مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکے گا۔

No comments:

Post a Comment