لیا قت نہرو پیکٹ اور سرکاری ترجمان کی غلط فہمی

روزنامہ جنگ منگل 16 جون 1987ء

بھارت میں ہونے والے حالیہ مسلم کش فسادات پر اظہار تشویش کرتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے 3 جون کو اپنے بیان میں لیاقت نہرو معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ " اس (معاہدہ) کا تعلق بنیادی طور پر مشرقی پاکستان اور مغربی بنگالی میں صورتحال سے تھا۔" ترجمان نے دوسری بات یہ کہی ہے کہ " بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ پاک بھارت تعلقات سے اس معاہدہ کا اب کوئی تعلق نہیں رہا " بیان کی گئیں ان دونوں باتوں سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ خود ترجمان بھی غالباً بھارت کے خیال سے پوری طرح متفق ہے۔ اسلئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وزارت خارجہ کی " رہنمائی" کے لئے لیاقت نہرو معاہدے کا مختصراً پس منظر بیان کردیا جائے۔

1950ء کے ابتدائی مہینوں میں کلکتہ اور قرب و جوار کے وسیع علاقہ میں شدید نوعیت کے مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے تھے جس کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کو مشرقی پاکستان ہجرت کرکے جانا پڑا جب مشرقی پاکستان کے باشندوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی حالت زار کو دیکھا تو ان کے لئے خاموشی کے ساتھہ یہ سب کچھہ برداشت کرنا ممکن نہیں رہا اور مغربی بنگال میں ہونے والے مسلم کش فسادات کا ردعمل مشرقی پاکستان میں بھی ہوا۔ نتیجہ بنگالی ہندو مغربی بنگال جانے لگے جو بھارت کی اس حکمت عملی کے خلاف بات تھی کہ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کا زور برقرار رکھا جائے۔ لیکن جب صورتحال بدلتی نظر آئی تو ولبھہ بھائی پٹیل اور پنڈت نہرو کے پیٹ میں بھی انسانی ہمدردی کا درد اٹھنے لگا اور دیوانگی کی حالت میں انہوں نے کھلم کھلا جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان تدبر اور بلند حوصلہ شخصیت کے مالک تھے انہیں علاقہ میں امن کی اہمیت کا اندازہ پوری طرح تھا اس لئے ہندوستانی وزیر اعظم سے طے کرکے اپریل 1950ء میں آپ نئی دہلی گئے تاکہ حالات میں بہتری لائی جاسکے اور اقلیتوں کے تحفظ کے لئے کوئی ٹھوس اور پائیدار معاہدہ کیا جاسکے۔

دونوں حکومتوں کے مابینم مذاکرات پاکستان کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی اور بھارت کی امور خارجہ کی وزارت کے سیکریٹری جنرل گرجا شنکر باجپائی کے درمیان ہوئے۔ پاکستان کی طرف سے گفتگو کے آغاز ہی میں یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے لئے بھارت جو تجویز بھی پیش کریگا وہ بلاچوں چرا منظور کرلی جائے گی بشرطیکہ بھارت میں مسلم اقلیتوں کے تحفظ کے لئے بھی انہی تجاویز کو اختیار کیا جائے لیکن بھارت معاملہ کو صرف مشرقی پاکستان اور مغربی بنگال تک محدود رکھنے پر مصر تھا جب بات آگے نہیں بڑھی تو دونوں وزرائے اعظم سے رجوع کیا گیا لیکن خان لیاقت علی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کو اپنے ملک اور قوم کے جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود رہنا چاہئے نہ کہ وہ بھارت کے ترجمان کی حیثیت اختیار کرکے قوم کو بتائے کہ اس مسئلہ پر بھارت کا کیا خیال ہے۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ ہندوستان کی نظر میں کسی بھی معاہدہ کا کسی بھی معاملے سے اس وقت تک کوئی تعلق نہیں رہتا جب تک وہ تعلق خود اس کے اپنے مفادات میں یا اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔ اگر بھارت کا یہ خیال ہے تو کیا ترجمان یہ بات واضح کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان کو بھارت کے خیال سے قطعی اتفاق نہیں ہے پھر لیاقت ، نہرو معاہدہ میں ہر حکومت کی " اپنی حدود" سے مراد کیا صرف مشرقی پاکستان اور مغربی بنگال ہی تھے؟ اس خیال کو تسلیم کرنا کم ظرفی تھی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے۔

ان حالات کی روشنی میں وزارت خارجہ کو مزید مستعدی کا مظاہرہ کرنے اور اپنے فرائض منصبی کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس انداز کے بیان جاری نہیں کئے جانے چاہئیں جس سے معلوم ہو کہ گویا سنی سنائی باتوں کو دہرادیا ہے۔ وزارت خارجہ کو یہ باور دلانا بھی شاید مفید ہو کہ اقلیتوں کے بارے میں فیروز خان نون اور پنڈت نہرو کے مابین بھی ایک معاہدہ ہوا تھا۔ بہتر ہے کہ اس معاہدہ کا مطالعہ بھی وہ کرلیں۔

حکومت پاکستان کے ذمہ دار عوامی نمائندوں اور وزارت خارجہ کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم کے خلاف نیم دلانہ بیانات سے مترشح ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں حقیقت کچھہ اور ہے جس کی پردہ داری مقصود ہے۔ اگر اس ضمن میں دونوں ملکوں کے مابین کوئی خفیہ معاہدہ ہوچکا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ اسے سامنے لائے تاکہ قوم کو اپنی اصل حیثیت کا اندازہ ہوسکے۔

No comments:

Post a Comment