صاحب صدر کا سیاسی کردار
روزنامہ جنگ ہفتہ 12 جولائی 1986ء
صدر جنرل ضیاء الحق نے پچھلے دنوں ایک غیر ملکی صحافی سے ملاقات کے دوران اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ 1990ء کے بعد وہ سیاسی کردار ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اس مطلب یہ ہوا کہ جب جنرل ضیاء الحق کے موجودہ عہدۂ صدارت کی مدت ختم ہوجائے گی تو وہ پھر صدر کے عہدہ کے امیدوار نہیں ہوں گے اسی بیان کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ صاحب صدر 1990ء تک بہرحال سیاسی کردار ادا کرتے رہیں گے۔ موصوف کے بیان کے دونوں ہی پہلو ایسے ہیں کہ جن سے ملک میں ہر وہ شخص اختلاف کرے گا جو یہاں اسلام کے تابع مکمل جمہوریت کے قیام اور اس کے فروغ اور استحکام سے دلچسپی رکھتا ہے۔
کوئی کتنے ہی دعوے کرے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کا تمام تر سہرا جنرل صیاء الحق کے سر ہے۔ کسی بھی پارٹی یا کسی بھی گروہ کا یہ دعویٰ کہ ملک میں جو کچھہ بھی جمہوریت آئی ہے وہ ان کی وجہ سے ہے تو یہ محض خوش فہمی اور عوام کو بے وقوف بنانے کی بھونڈی لیکن ناکام کوشش ہے۔ صدر ضیاء الحق نے ملک میں انتخابات کے انعقاد اور جمہوریت کی بحالی کے جس ٹائم ٹیبل کا اعلان کیا تھا کسی بھی تحریک اور کسی کے بھی مطالبوں سے بحالیٔ جمہوریت کے پروگرام میں ایک دن کا فرق نہیں پڑا۔ صدر صاحب نے اسی منصوبہ پر عمل کیا جس کا انہوں نے اس سلسلہ میں قوم سے وعدہ کیا تھا۔ 77ء اور 79ء میں انتخابات کا التوا ایک الگ حصہ ہے۔ بہرحال 23 مارچ 1985ء کو نئی منتخب پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں جناب محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم کی حیثیت سے نامزد کیا گیا اور اراکین پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اس نامزدگی کی توثیق کی۔ پھر 1985ء کے آخری سورج غروب ہونے سے قبل ہی ملک میں جمہوریت کی صبح کا سورج طلوع ہوگیا اور مارشل لاء کی اندھیری رات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنی بساط لپیٹ کر چلتی بنی۔
وزیر اعظم محمد خاں جونیجو نے جو اہم اور تاریخی کام کیا وہ یہ ہے کہ ملک میں بیس سال سے نافذ ہنگامی قوانین کو ختم کرکے عوام کے تمام بنیادی حقوق بحال کردیئے۔ یہ بڑا ہی جرأت مندانہ قدم تھا اس لئے ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک مبصرین اور سیاسی پیش گو مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد ملک میں ہنگاموں اور پرتشدد مظاہروں کے خدشات کا اظہار کررہے تھے ان حالات میں اگر وزیر اعظم چاہتے تو ہنگامی حالات قائم رکھہ سکتے تھے اس لئے کہ 1971ء میں برسراقتدار آنے والی "عوامی جمہوریت" کے پورے دور میں بھی ہنگامی قوانین کی تلوار لوگوں کے سروں پر لٹکتی رہی تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود سیاستدانوں میں سے بہت سوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ملک میں ہنگامی قوانین بھی نافذ ہیں۔
بہرحال ملک میں آج تکلیف دہ حد تک جمہوریت قائم ہے تکلیف دہ ان معنوں میں کہ آج یہاں قائداعظم اور علامہ اقبال کو گالیاں دینے ، پاکستان کو توڑنے کا منصوبہ پیش کرنے حتی کہ اسلام اور نبی آخر الزماں، کی توہین کرنے والوں کو بھی پوری پوری آزادی حاصل ہے۔ صدر مملکت جماعتوں کو ملک کے بہتر نہیں سمجھتے اسی بناء پر انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کروائے لیکن اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت جماعت سازی کو ضروری سجمھتی ہے اس لئے جماعتوں کی بحالی کا قانون بنا دیا گیا اور صدر صاحب نے اس کام میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ یہ اس بات کا ثبور ہے کہ صدر مملکت خلوص دل سے چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کو فروغ حاصل ہو۔ اب ملک میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے اور وزیر اعظم ہی ایسے نظام میں کل اختیارات کا ملک ہوتا ہے اور وہ صدر صاحب کے سامنے نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ پارلیمانی نظام حکومت میں صدر مملکت ایک آئینی سربراہ ہوتا ہے اور آئین کے الفاظ کے برعکس فی الحقیقت وہ کابینہ کی پالیسیوں ہر پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس نظام کے تمام تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کاروبار حکومت چلایا جائے۔ خود ضیاء الحق بھی چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں تاکہ آئندہ کبھی پاکستان میں فوجی حکومت قائم کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس سلسلہ میں اس مرحلہ پر صاحب صدر کے مکمل اورغیر مشروط تعاون کی از حد ضرورت ہے اور وہ اس طرح کہ صدر مملکت حکومت کے سیاسی معاملات میں رائے زنی سے پرہیز کریں اور حکومت کی پالیسیوں کے اظہار یا ان پر تنقید کا عمل ترک کردیں۔ جنرل ضیاء اب ایک علامتی سربراہ ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا بند کردیں وگرنہ پالیمانی حکومت ناکام ہوجائے گی اور اس لئے کہ صدر مملکت خود بھی اس نظام کی کامیابی کے متمنی ہیں۔ اس سے بجا طور پر امید رکھی جاتی ہے کہ صدر مملکت صرف وہی بیانات جاری کریں جو حکومت کی طرف سے ان کو دیئے جائیں نو سال تک سیاسی معاملات میں مختار کل رہنے کے بعد حکم دینے کی عادت ایک فطری عمل ضروری ہے لیکن مضبوط اعصاب اور پرعزم شخص کے مالک جنرل ضیاء الحق سے یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی عادت کو غلام بنا کر رکھ سکیں اس سے اس کی عزت و احترام میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا لیکن صدر مملکت کی طرف سے سیاسی معاملات پر اظہار خیال اور پالیسیوں کے اعلانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو پھر مخالفین کی اس بات کو تقویت ملے گی کہ ملک میں حقیقی حکمرانی جنرل ضیاء الحق ہی کی ہے۔
اگر ملک میں پارلیمانی نظام حکومت اختیار کیا گیا ہے تو اس پر پوری طرح عمل کیجئے۔ صاحب صدرغیر ممالک سے آنے والے سرکاری اور غیر سرکاری وفود اور شخصیتوں سے ضرور ملتے رہیں وہ ملکی اور غیر ملکی معززین کو کھانے کی دعوت ضرور دیں لیکن انہیں چاہئے کہ سیاسی نوعیت کے بیانات سے قطعی گریز کریں اس عدم مداخلت سے ملک میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کی زبان بھی بند ہوجائے گی اس لئے صدر جنرل ضیاء الحق کو محوالہ بالا بیان میں اس طرح تبدیلی کرنی چاہئے کہ "1990ء کے بعد وہ اپنا سیاسی کردار دوبارہ ادا کرنا شروع کردیں گے" اس لئے کہ ملک کو شریف النفس اور دیانت دار قائدین کی سخت ضرورت ہے اور سیاسی میدان میں جنرل ضیاء کافی حد تک یہ کمی پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن صاحب صدر! 1990ء تک آپ سیاسی کردار ادا نہ کیجئے ورنہ ملک میں پھر پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی اور یقین ہے کہ صدر مملکت خود بھی کسی قسم کی پیچیدگیاں یا جمہوریت کے قافلہ کے راستے میں کوئی رکاوٹ پسند نہیں کرتے آپ کے اس طرز عمل سے آپ کے بحال کئے گئے نظام پر لوگوں کا اعتماد پختہ ہوگا۔
No comments:
Post a Comment