مجسمے، طالبان اور عالمی رائے عامہ
روزنامہ جنگ اتوار 18 مارچ 2001ء
افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے ملک کو چھوٹے بڑے مجسموں ، مورتیوں اور چٹانوں میں تراشیدہ انسانی شبیہہ سے پاک کرنے کے فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے بیشتر ممالک کی طرف سے فوری اور شدید ردعمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا مذہبی رواداری اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے بارے میں کس قدر حساس اور ہم خیال و ہم آواز ہے۔ اس فیصلہ پر عملدرآمد رکوانے کی غرض سے بھارت میں ایک طبقہ کی طرف سے طاقت کے استعمال کی وکالت کی گئی ہے۔ پاکستان نے افغان سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے احتجاج کرنے اور مجسموں کو محفوظ رکھنے پر زور دینا ضروری سمجھا ہے۔ پیرس میں مسلم ممالک کے سفیر ایک اجلاس کے ذریعے اس فیصلہ کی مذمت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جاپان نے افغانستان کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے دیگر کئی ممالک نے بھی صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کا ساتھہ دیا ہے۔ امریکہ کے ایک عجائب گھر اور ایران کی طرف سے یہ مجسمے خریدنے اور بھارت نے انہیں افغانستان سے منتقل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے اس فیصلہ کو غیر دانشمندانہ اور تمام مذاہب کی توہین قرار دیا ہے۔ پاکستان کی سابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مہذب قومیں تہذیب اور ثقافت کی حفاظت کرتی ہیں ان کے خیال میں اس قسم کے اقدام سے دنیا میں اسلام کے بارے میں غلط تاثر پھیلے گا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے بھی غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے اس فیصلہ کو فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ قطر کی حکومت کے الفاظ میں یہ مجسمے مشترکہ ورثہ ہیں جن کی حفاظت ضروری ہے۔ ان بیانات و خیالات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسانوں کی تو بات ہی کیا ہے ۔ آج کی دنیا تراشیدہ انسانی شکلوں کی تباہی اور بربادی بھی کسی حالت میں برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ غالباً طالبان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اکیسویں صدر کا مادہ پرست انسان اس طرح ہی رواداری اور تہذیب و ثقافت کا محافظ بن کر اٹھہ کھڑا ہوگا اور یہ سوچ بلا سبب بھی نہیں تھی اس لئے کہ آج افغانستان میں پانچ سات فٹ کے چلتے پھرتے لاکھوں زندہ مجسمے اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ ظالمانہ اور غیر انسانی پابندیوں کے نتیجہ میں غذائی اجناس اور ضروری ادویات کی شدید کمی کے باعث موت کی دہلیز پر کھڑے کردیئے گئے ہیں لیکن اس حالت زار پر آج کوئی نہیں جو ہمدردی کے دو بول بول سکے۔ بتوں اور مجسموں کے تحفظ کیلئے تو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک شدید واویلا مچایا جارہا ہے۔ بچوں، عورتوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو شدید سانپ سونگھہ گیا ہے کہ وہ چپ سادھے افغانستان کے اندر اور اس کے باہر افغانوں کی ہلاکتوں کے منظر سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
ملک کے 95 فیصد سے زیادہ رقبہ پر حکومت کرنے والے طالبان کے رہنماؤں نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ دنیا کے تقریباً دو سو ممالک میں سے صرف تین نے ہی انہیں تسلیم کیا ہے تو ہمارے کسی فیصلہ پر ردعمل بھی سامنے نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ جو قومیں نہ طالبان کی حکومت کے وجود کی قائل ہیں نہ ان کے ملک کے باشندے کسی امداد کے حقدار مانے جارہے ہیں تو پھر ہم بت توڑدیں یا مجسموں کو منہدم کردیں دنیا کو اس سے کیا۔ اگر اس فیصلہ کے خلاف آواز بھی اٹھائی جائے گی تو اس کا ہدف ملک کے دو پانچ فیصد باغی ہوں گے جو بیرونی اشاروں پر افغانستان میں فساد برپا کئے ہوئے ہیں اور اسی فساد کو مزید ہوا دینے کی خاطر انہیں فراخ دلی کے ساتھہ مہلک ہتھیار فراہم کئے جارہے ہیں۔ مالی اور اخلاقی امداد کے مستحق بھی وہی قرار پائے ہیں۔
طالبان حکومت کو یہ بھی تجربہ ہے کہ ڈھائی تین سال قبل جب افغانستان کو امریکہ نے میزائلوں کی بارش کرکے بستیاں تباہ کرنے کی کوشش کی تھی اس وقت بھی دنیا میں خاموشی رہی۔ یہ جارحیت پاکستان کی خودمختاری کے خلاف بھی تھی لیکن پاکستان مسکراتے ہوئے بھی امریکہ سے اس کے خلاف شکایت نہیں کرسکا تھا۔ عراق میں لاکھوں بچوں اقوام متحدہ کے طرف سے عائد پابندیوں کے نتیجہ میں ہلاک ہوچکے ہیں لیکن اس ہلاکت پر کسی کی آنکھہ غمناک نہیں ہوتی خود عالم اسلام بھی بظاہر تو ان پابندیوں سے متفق ہی نظر آتا ہے اس لئے کہ پابندیاں چاہے عراق کے خلاف ہوں یا افغانستان کے لیبیا کے خلاف ہوں یا ایران کے امریکہ کی جارحیت سوڈان کے خلاف ہو یا افغانستان اور عراق کے یہ سب اسلئے "حق بجانب اور ضروری" ہیں کہ خاص طور پر امریکہ ایسا ہی چاہتا ہے۔
مجسموں کے تحفظ کی مہم میں دل و جان سے شریک ہونے والوں کو نہ مذہبی رواداری عزیز ہے نہ تہذیب و ثقافت سے دلچسپی۔ یہ واویلا ان کے قلبی احساسات کا حقیقی عکاس ہرگز نہیں بلکہ طالبان کے خلاف ان کے خبث باطن کا نتیجہ ہے بالفاظ دیگر دنیا کا یہ رویہ منافقت اور دوغلے پن کی بدترین مثال ہیں۔
چند باتوں کا ذکر ضروری ہے جو افغان حکومت کے فیصلہ کے سلسلہ میں وضاحت طلب ہیں ان میں سے ایک تو بی بی سی کا یہ فتویٰ ہے کہ "مجسمہ اس وقت بت بنتا ہے جب اس کی پرستش کی جائے" اگر اس مفروضہ کو صحیح تسلیم کرلیا جاتا ہے تو ہمیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ ان مجسموں کے ٹوٹنے سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کا دل نہیں ٹوٹے گا اس لئے کہ ان مجسموں کی پوجا کوئی بھی نہیں کرتا۔ اسلام بلاشبہ دوسروں کے خداؤں کو گالیاں نہ دینے اور دوسروں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی نہ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن افغانستان کی حکومت اگر اپنے فیصلہ کا اعلان نہیں کرتی تو دنیا کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہاں اس طرح بت اور مجسمے اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں اگر یہ مجسمے کسی عبادت گاہ میں ہوتے تو ان کو توڑنے کی کوئی حمایت نہیں کرتا لیکن ان کی صورت تو یہ ہے کہ کوئی مسلمان ایک مکان خریدے اس میں ہندو دیوی، دیوتاؤں کے مجسمے رکھے اور دیواروں پر ان کی تصویریں بنی ہوں تو اس گھر کا نیا مالک اپنے گھر سے یہ سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دے گا۔ افغانستان کو دیئے جانے والے اس مشورہ کی کہ انہیں فروخت کردیا جائے یا کسی عجائب گھر میں رکھہ دیا جائے اس ناقابل تردید تاریخی واقعہ سے نفی ہوتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے بیت اللہ میں رکھے گئے 360 بتوں کو اپنے دست مبارک سے پاش پاش کرکے کعبہ کو پاک کیا تھا اگر اللہ کے آخری رسول ﷺ اس وقت چاہتے تو ان بتوں کے بدلے اس قدر دولت مل جاتی کہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت سدھر جاتی اگر ان بتوں کو فروخت نہیں کرتے تو بحفاظت کسی جگہ رکھا بھی جاسکتا تھا کہ ایسی جگہ کو آج ہم عجائب گھر کہہ سکتے ہیں۔ لیکن بت شکنی کے سوا اور کوئی راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ طالبان حکومت کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ یہ تو مجسمے ہیں رسول کریم ﷺ نے تو جاندار کی تصویر والے پردے، تکیہ اپنے گھر میں برداشت نہیں کیا تھا یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان اپنے گھر میں یہ سب کچھہ برداشت کرلیں۔
مسلم ممالک کے سفیروں کے اجلاس میں منعقدہ پیرس میں ایک خاص بات یہ کہی گئی ہے کہ طالبان کی طرف سے مجسمے شکنی کے اقدام سے اسرائیل کو شہہ ملے گی اور وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کے خلاف کاروائی کے دفاع میں افغانستان کی مثال پیش کرے گا۔ گویا اسرائیل کو من مانی کرنے کے لئے کسی جواز کی ضرورت ہے۔ فلسطین کی سرزمین سے مسلمانوں کی جبری بے دخلی شام اور لبنان کے علاقوں پر قبضہ، عراق کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ، مساجد کی تالابندی، مقدس مقامات کی بے حرمتی اورنہتے مسلمان بچوں کی شہادت کے لئے اسرائیل کو جواز افغانستان نے مہیا کیا ہے یا خود مسلمان ملکوں کی بے حسی، احساس کمتری اور ان کی امریکہ نوازی نے؟
بھارت بھی افغان حکومت کے فیصلے کے خلاف بڑھ چڑھ کر بول رہا ہے وہاں حکومت کی شرکاء نے طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال پر زور دیا ہے۔ لیکن ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم دشمن کی چال کو سمجھہ نہیں پارہے جن لوگوں نے بابری مسجد کو شہید کیا جو دیگر مساجد کو بھی ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی طرف سے طالبان کے خلاف بیان بازی قرآن کے اس فیصلہ کے عین مطابق ہے کہ کافر اور مشرک تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور ہمنوا ہیں اگر ہم حقیقت کی تہہ کو نہ سمجھیں تو یہ ہماری غفلت اور کج فکری کے سوا اور کچھہ نہیں۔ جب تک ہماری سوچ میں مثبت تبدیلی نہیں آتی اس وقت تک ہم اقوام عالم میں اچھوتوں کی سی زندگی گزارتے رہیں گے ہمیں یہ سمجھہ لینا چاہئے کہ باعزت اور پروقار زندگی صرف وہی قومیں گزارتیں ہیں جنہیں مومن کی فراست، چیتے کو جگر اور شاہین کا تجسس عطا ہو۔
No comments:
Post a Comment