مسلم لیگ اور اسکی موجودہ قیادت
روزنامہ جنگ اتوار 20 شوال المکرم 1411ھ 5 مئی 1991ء
تقریباً دو عشروں سے پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کا شرف سندھ کو حاصل رہا ہے لیکن اس طویل مدت کے دوران اس قیادت نے اگر کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے تو وہ ہے سندھ سے پاکستان کی خالق جماعت کی صوبہ بدری، 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کے بعد 1907ء میں اس کا پہلا سالانہ اجلاس کراچی میں منعقد کیا گیا۔ سندھ مسلم لیگ نے لاہور کے تاریخی اجلاس سے بھی پہلے پاکستان کیلئے قرار داد منظور کی۔ سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے قرار داد پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ کی آواز پر لبیک کہہ کر اپنا سب کچھہ قربان کرنے والوں کی بھاری اکثریت بھی ہجرت کرکے سندھ میں آکر آباد ہوئی۔ قائد اعظم قائد ملت علامہ شبیر احمد عثمانی ، سردار عبدالرب نشتر اور مادر ملت نے سندھ کو اپنے آخری مسکن کے طور پر منتخب کیا۔ اتنے اعزازات کے حامل کسی صوبہ کو مسلم لیگ کے لئے علاقہ غیر قرار دلوانے والے حضرات کی غیر معمولی "صلاحیتوں" کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں۔
1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے طوفانی سیلاب کے مقابلہ میں بھی کراچی اور حیدرآباد تو مسلم لیگ کے گڑھ ثابت ہوئے تھے۔ 1977ء کی تحریک کے دوران بھی یہ کیفیت بڑی حد تک قائم رہی لیکن اس کا اصل سبب مسلم لیگ کی قیادت نہیں بلکہ وہ فضا تھی جو نو ستاروں کی وجہ سے پورے ملک میں قائم ہوگئی تھی ورنہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جناب حسن اے شیخ سے مسلم لیگ کی صدارت چھین لینے کے بعد اس کی قیادت محض اخباری بیانات کے سہارے ہی اپنا کام چلاتی رہی ہے۔ پیر صاحب پگارا شریف حروں کے روحانی پیشوا ہونے کے سبب قابل احترام شخصیت ضرور ہیں لیکن افسوس کہ کنونشن مسلم لیگ اور عوامی لیگ کی بے گورو کفن لاشوں کو چھوڑ کر جب پاکستان مسلم کے سربراہ کی حیثیت سے سامنے آئے تو چٹ پٹے بیانات کے سوا وہ مسلم لیگ کو اور کچھہ نہ دے سکے۔ حالات و واقعات کے سنجیدہ تجزیہ اور ملکی معاملات میں عوام کی رہنمائی کے بجائے ان کی الٹی سیدھی ذومعنی پیش گوئیاں اور طعن و تشنیع سے بھرپور فقرے بازیاں سادہ لوح عوام میں غلط فہمی اور مایوسی کا سبب ہی بنتی رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کی صدارت محض ایک بڑا اعزاز ہی نہیں بلکہ یہ منصب بڑا ذمہ دارانہ، باوقار اور سنجیدہ کردار کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ اس آل انڈیا مسلم ہے کا ایک تسلسل ہے جس کے صدر قائد اعظم جیسے رہنما رہ چکے ہیں ور جس لیگ کی آواز پر لاکھوں مسلمانوں نے ایک آزاد اور خودمختار اسلامی مملکت کے حصول کی راہ میں اپنی جان تک کا نذرانہ بخوشی پیش کردیا تھا۔ 1985ء کے عام انتخابات کے بعد مارچ میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جب محمد خان جونیجو کو وزارت عظمٰی کے منصب کیلئے نامزد کیا تو پیر پگارا شریف یہی تاثر دیتے رہے کہ وزیر اعظم ان کے اپنے نامزد کردہ اور مسلم لیگ کے نمائندے ہیں، جنرل صاحب کے نہیں۔ پنجاب کی وزارت سازی کے موقع پر پیر صاحب نے پہلے تو میاں محمد نواز شریف کو وزیر اعلٰی بننے سے روکنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر صوبائی اسمبلی میں قائدایوان کے خلاف بغاوت کروانے کی کوشش میں لگ گئے ادھر غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ایوان کو قابو میں رکھنے میں مشکل پیش آنے لگی تو محمد خان جونیجو نے صدر مملکت سے سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی اجازت حاصل کرکے مسلم لیگ کو بحال کردیا اور خود اس کے صدر بن گئے۔ مسلم لیگ کے (نان فنکشنل) صدر پیر صاحب کو اپنے مرید کی یہ ادا پسند نہیں آئی اور انہوں نے اس مسلم لیگ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ور محمد خان جونیجو کو اپنے دست شفقت سے محروم کرکے فنکشنل ہونے کی دھمکیاں دینے لگے۔ (جو آج تک جاری ہیں)
26 مئی 1988ء کو صدر پاکستان نے قومی اسمبلی کو توڑ کر محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کردیا تو پیر صاحب اپنی "اصلی" مسلم لیگ کو بحال کرنے کا مژدہ سنانے لگے لیکن اس دوران وہ چوہے اور بلی کے کھیل میں اس قدر کھو گئے کہ فنکشنل ہونا اور مسلم لیگ بحال کرنا بھول گئے بس یہ کرسکے کہ سینٹ کا رکن ہونے کے باوجود قومی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں کود پڑے۔ لیکن اپنی انتخابی مہم کے بجائے محمد خان جونیجو، غلام مصطفٰی جتوئی، سیّد غوث علی شاہ وار مسلم لیگ اور دائیں بازہ سے تعلق رکھنے والے دوسرے امیدواروں کو ہروانے کی مہم میں ایسے مصروف ہوگئے کہ خود بھی انتخاب ہار بیٹھے۔ 1988ء کے یہ انتخابات مسلم لیگ کے لئے سندھ کی حد تک تو ان معنوں میں "جھاڑو پھیر" ثابت ہوئے کہ یہاں سے ایک بھی مسلم لیگی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا جس میں مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی موجودہ اور سابق صدور اور دیگر عہدیدار بھی شامل تھے۔ ادھر پنجاب میں میاں نواز شریف اپنی بہتر کارگزاری اور ہر سطح پر مسلم لیگ کے کارکنوں سے مسلسل رابطہ کے نتیجہ میں اپنے امیدواروں کی اکثریت کے ساتھہ کامیاب ہوگئے اور انہوں نے صوبائی حکومت بآسانی تشکیل دے لی لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ میاں نواز شریف کو دسمبر 1988ء اور جولائی 1990ء کی مدت کے دوران پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت، پیر صاحب پگارا شریف اور مسلم لیگ کےایک بااثر مرکزی دھڑے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ نواز شریف مخالف مسلم لیگی دھڑے کے پیچھے دراصل جونیجو صاحب ہی چلمن سے لگے بیٹھے تھے۔
محمد خان جونیجو کو وزارت عظمٰی چلانے کیلئے چونکہ محض اراکین اسمبلی ہی کی ضرورت تھی اور یہی صورت صوبوں میں بھی تھی اس لئے وزیر اعظم اور وزرائے اعلٰی بالترتیب مرکزی اور صوبائی مسلم لیگ کے صدر بن گئے اور انہیں اسمبلیوں سے باہر مسلم لیگ کے جہاندیدہ زعمائے کرام اور بے لوث اور مخلص کارکنوں کو مسلم لیگ کے قریب لانے یا اس سے رابطہ قائم کرنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سندھ کو جن قیامت خیز نسلی ، لسانی اور علاقائی منافرت کی ہولناکیوں سے گزرنا پڑا ہے اور جن کے مہیب سائے تاحال چھائے ہوئے ہیں ان کی ابتداء سیّد غوث علی شاہ کی مسلم لیگی وزارت اعلٰی کے دور ہی میں ہوئی۔ جلسے جلوسوں میں ہتھیاروں کی نمائش اور پھر ان کے کھلم کھلا استعمال کی رسم بد بھی اسی دور کا تحفہ ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کو مسلم لیگ سے " پاک" کرنے کا سہرا بھی موصوف ہی کے سر ہے۔ بعد از خرابیٔ بسیار مرکزی قیادت نے سیّد غوث علی شاہ کو وزیر اعلٰی حیثیت سے مستعفٰی ہونے کی ہدایت کی تو اس پر عمل کرنے کے بجائے انہوں نے مرکز کو دھمکیاں دینے اور اراکین اسمبلی سے بالجبر اپنی حمایت میں بیان حاصل کرنا شروع کردیئے اور اس طرح ایک سابق منصف اور مسلم لیگ کے "پرانے" بے لوث اور مخلص " کارکن نے جماعتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی اقتدار سے چمٹے رہنے کا انتہائی بھونڈا مظاہرہ کرکے مسلم لیگ کی ساکھہ کو زبردست نقصان پہنچایا ویسے بھی شاہ صاحب کی کابینہ کے تمام ہی وزیر محض نمائشی تھے اس لئے کہ تمام اختیارات خود وزیر اعلٰی ہی کے پاس تھے۔ مختلف سطح کی ملازمتوں کیلئے نرخناموں اور ہر شعبہ میں بدعنوانیوں کے چرچے زبان زد عام تھے لیکن عدلیہ سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے کبھی کسی شکایت کی عدالتی تحقیقات کی ضرورت نہ سمجھی۔ یہ اور اس قسم کی تمام باتیں مسلم لیگ کے خلاف گئیں۔ جس کا نتیجہ 1987 کے بلدیاتی اور 1988ء کے عام انتخابات میں سامنے آگیا۔
1988ء کے انتخابات کے نتیجہ میں صوبہ سرحد اسمبلی میں اسلامی جمہوری اتحاد کو اکثریت حاصل ہوگئی تھی لیکن جنرل فضل حق سے جونیجو صاحب کی عداوت کے طفیل وہاں پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور وہ اس طرح کہ جونیجو صاحب کے حمایت یافتہ اسلامی جمہوری اتحاد کے مسلم لیگی اراکین صوبائی اسمبلی جنرل فضل حق اور میاں نواز شریف سے اظہار نفرت کے طور پر شیر پاؤ کی گود میں جا بیٹھے۔ بلوچستان میں میر ظفر اللہ خان جمالی نے کس کے ایما پر پیپلز پارٹی کے ساتھہ مخلوط حکومت بنانے میں عجلت کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کے صدر سیکریٹری جنرل اور دیگر عہدیداروں کی شکست اور سندھ میں بدترین کارگزاری کے پیش نظر مسلم لیگ کی مرکزی اور سندھ کی صوبائی قیادت کی چاہئے تھا کہ وہ اپنے عہدوں سے مستعفٰی ہوکر اپنی غلطیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کی خاطر کوئی تحقیقاتی کمیٹی مقرر کرتی اور مسلم لیگ کی ازسرنو تنظیم کے ذریعہ فعال اور مؤثر قیادت کو آگے کرنے کو موقعہ دیتی۔ البتہ ایک ایسے صاحب کو تنظیم نو کے سلسلہ میں تجاویز پیس کرنے کے لئے کہا گیا جو میاں نواز شریف کے مخالفین میں سر فہرست تو تھے ہی جماعت سازی اور جماعتی وفاداریاں بدلنے کا طویل تجربہ بھی رکھتے تھے اور ہوا بھی یہی کہ وہ رپورٹ کی تیاری کے بجائے وزیر اعلٰی پنجاب کو کمزور کرنے کی مہم چلاتے رہے لیکن جب انہیں اپنی ناکامی کا یقین ہوگیا تو واپس پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔
1988ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کی منظم اور فعال کرنے کے لئے دو سال کی مدت ملی لیکن مرکزی اور سندھ کی صوبائی قیادت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی اور 1990ء کے انتخابات آگئے جن میں ایک محمد خان جونیجو کے سوا سب ہی ناکام رہے۔ سندھ میں یا تو مسلم لیگ کو وجود ہی نہیں ہے اور اگر کسی جگہ ہے بھی تو وہاں وہ کئی کئی دھڑوں میں تقسیم ہے خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد اس صورتحال کا واضح نمونہ پیش کرتے ہیں لیکن مرکزی قیادت نے مسلسل چشم پوشی کا اس طرح مظاہرہ کیا ہے گویا صوبہ سندھ اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔ دو سال کی اس مدت کے دوران کبھی کارکنوں سے رابطہ کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ مرکزی قیادت پنجاب اور سرحد سے اپنے حامیوں کو منتخب کروانے کیلئے تو کچھہ بھی کر گزرنے سے نہیں چوکتی لیکن سندھ میں وہ ایک بھی انتخابی حلقہ اور غیر انتخابی جلسہ میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے زیر اہتمام انتخابی جلسوں میں محمد خان جونیجو اس لئے شرکت سے کترائے رہے کہ ان کے صوبائی صدر میاں نواز شریف ان جلسوں کی صدارت کرتے تھے۔
ان تمام حالات و واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس شبہ کو تقویت پہنچتی ہے کہ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کا ایک گروہ میاں محمد نواز شریف کو وزارت عظمٰی کی مسند پر دیکھہ کر خوش نہیں ہے لیکن اس گروہ کی خواہش اور کوشش یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح بھی ہوسکے میاں صاحب کو وزارت عظمٰی کے منصب سے ہٹایا جائے یا کسی طریقہ سے انہیں زچ کرکے خود میدان خالی کردینے پر مجبور کردیا جائے ان کی جگہ چاہے کالا چور ہی کیوں نہ آجائے اس سے ان حضرات کو زیادہ دلچسپی نہیں۔ اس کوشش کا اندازہ گزشتہ ضمنی انتخابات کیلئے ٹکٹوں کیلئے ضد سے بھی ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کے قائد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی طرف سے امیدواروں کے نام جاری کئے جانے لگے تھے۔ سینٹ کے انتخابات کے لئے بھی اسلامی جمہوری اتحاد کی قیادت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی خبریں آچکی ہیں۔ سیّد غوث علی شاہ اپنے انتخابی حلقہ سے عام انتخابات میں شکست کھا چکے تو پھر وہ اس قدر ناگزیر کیونکر ہوگئے کہ انہیں پنجاب سے ضمنی انتخابات میں کامیاب کروایا گیا۔
پانچ سال کے تجربہ کی روشنی میں مسلم لیگ کی موجودہ قیادت سے یہ اندازہ عبث ہے کہ وہ مسلم لیگ کو فعال اور منظم کرکے صحیح معنوں میں قومی جماعت کی حیثیت دینے میں کامیاب ہوجائے گی اس لئے اس قیادت کی تبدیلی عین قومی مفاد میں ہے اس کے دو طریقے ہیں ایک تو یہ کہ قیادت از خود دستبردار ہوجائے اور دوسرا یہ کہ جمہوری طریقہ سے اسے بدلا جائے اب جبکہ رکنیت سازی کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ کام زیادہ آسان ہوگیا ہے کہ پرائمری سے قومی سطح تک انتخابات کے ذریعہ صحیح لوگوں کو آگے لایا جائے جو عہدوں کے تفاضوں کو مکمل احساس ذمہ داری کے ساتھہ پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مسلم لیگ جیسا کہ سب ہی تسلیم کرتے ہیں نسلی، لسانی، علاقائی اور مسلکی سوچ سے بالاتر ایک قومی جماعت ہے اس لئے عہدوں کے سلسلہ میں صوبائی نمائندگی کے بجائے محض اہلیت اور مقبولیت کو بھی ترجیح دی جانی چاہئے۔ اگر صدر اور سیکریٹری جنرل ایک ہی صوبہ سے تعلق رکھتے ہوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں مقصد تو مسلم لیگ کو اس کا کھویا ہوا مقام دلوا کر پاکستان کے استحکام کی ضمانت فراہم کرنا ہے نہ کہ کسی صوبہ کو نمائندگی دینے کی غرض سے نااہل افراد کو قبول کرکے مسلم لیگ اور پاکستان کو نقصان پہنچانا۔
سال رواں کے آخر تک ملک میں بلدیاتی اداروں کیلئے انتخابات بھی متوقع ہیں اگر مسلم لیگ نے ابھی سے اس سلسلہ میں کوئی کوشش اور منصوبہ بندی نہیں کی تو سندھ کی حد تک تو پھر انتہائی مایوس کن نتائج کی پیش گوئی کیلئے کسی کا علم نجوم کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ عوام کی حقیقی خدمت کو سب سے بڑا اور بنیادی ذریعہ بلدیاتی ادارے ہی ہوتے ہیں بلدیاتی اداروں کے علاوہ بھی ہمارے لوگوں کے بڑے مسائل ہیں جن کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا مسلم لیگیوں کو یہ فرض ہے کہ وہ عوام کے مسائل کے حل کیلئے کوشش کریں لیکن یہ کام وہ حضرات نہیں کرسکتے جن کی نگاہیں ہمیشہ اقتدار کی کرسی پر لگی ہوں لوگوں میں ایک ولولہ تازہ تو صرف وہ لوگ ہی پیدا کرسکتے ہیں جنہیں ملک کا استحکام و سالمیت اور عوام کی ترقی و خوشحالی عزیز ہو افہام و تفہیم اور نظم و ضبط پر سختی کے ساتھہ عمل کرکے مسلم لیگیوں کو ایک بنایا جانا کوئی مشکل کام نہیں پھر جگہ جگہ چھوٹے بڑے جلسوں کے ذریعہ لوگوں تک مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا جائے اور یہ پیغام ہے امن و اتحاد اور اخوت کا ، سندھ کو تو آج سب سے زیادہ ضرورت اسی کی ہے اس کے ذریعے ہی سندھ کو تعصب کے خوفناک بھوت سے نجات دلوائی جاسکتی ہے لیکن اس کے لئے مخلص بے لوث، محنتی اور نڈر قیادت کی ضرورت ہے۔ سرد گرم کمروں میں بیٹھہ کر بے معنی بیانات کو جاری کرنے والے اور جعلی اجلاسوں سے خطاب اور مصنوعی وفود سے ملاقاتوں کی خبریں شائع کروانے والے حضرات مسلم لیگ کو منظم ، فعال اور مقبول بنانے کے سلسلے میں قطعی مددگار ثابت نہیں ہوسکتے ایسے لوگ مسلم لیگ کیلئے ایک بار گراں ہیں جس سے جلد نجات پانے ہی سے مسلم لیگ پاکستان اور عوام کا مفاد وابستہ ہے۔
No comments:
Post a Comment