سرکاری افسر اور علاقائی تعصّبات

روزنامہ جنگ اتوار۲۰جمادی الاول ۱۴۱۱ھ 9 دسمبر 1990 ء

آئین کے تحت مقررہ معیاد کے اندر حکمراں جماعت یا حکمرانوں کی تبدیلی جمہوری ملکوں میں معمول کا ایک حصہ ہے لیکن ملک کی انتظامیہ ان تبدیلیوں سے کبھی متاثر نہیں ہوتی وہ ایک تسلسل کے ساتھہ جاری رہتی ہے۔ حکومت کی تبدیلی سے ترجیحات ، اہداف اور حکمت عملیاں البتہ بدل جاتی ہیں اور انتظامیہ قانون اور قاعدوں کے دائرہ میں رہتے ہوئے دیانتداری اور بے خوفی کے ساتھہ اپنے فرائض ادا کرتی رہتی ہے۔ مثالی انتظامیہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ دیانتدار، مخلص، قانون کی پابند ، نڈر، مستعد ، باصلاحیت اور غیر متعصب ہو لیکن جن ملکوں میں جمہوری نظام کمزور، رائے عامہ مفقود اور معاشرہ برائیوں کا شکار ہو وہاں حکومت اور انتظامیہ حتٰی کہ عدلیہ تک ست روی، بدعنوانی، جانبداری اور تحریص و تخویف کا شکار ہوجاتی ہیں اور ہر شعبہ میں موجود بددیانت اور بدعنوان افراد "برائی میں ایک دوسرے کے ساتھ پورا پورا تعاون" کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک بھی اس سلسلہ میں کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتا۔ صوبہ سندھ کی بد بختی تو یوں اور بڑھ جاتی ہے کہ یہاں کی انتظامیہ لسانی ، نسلی اور علاقائی تعصب کی لعنت کا شکار بھی ہے۔ یہاں کے باشندوں کے درمیان بے اعتمادی ، خوف و نفرت بلکہ دشمنی کو ہوا دینے میں عاقبت نا اندیش سیاستدانوں سے بڑھ کر انتظامیہ کا حصہ رہا ہے اور یہ کام بڑے سوچے سمجھے منصوبہ اور سائنسی انداز میں کیا گیا ہے۔

صوبہ سندھ کے وزیر اعلٰی جام صادق علی نے غالباً اسی تکلیف دہ پس منظر میں سرکاری افسروں کو بروقت یہ مشورہ دیا ہے کہ "وہ خود کو نسلی و لسانی احساسات اور تعصبات سے دور رکھیں اور صوبہ میں کسی کو سندھی یا غیر سندھی سمجھے بغیر مساوی بنیادوں پر انصاف کےساتھہ لوگوں کی مدد کریں خوف خدا رکھنے والے سچے مسلمان ، ایماندار اور محب وطن پاکستانی بنیں۔" جس صوبہ کو برصغیر کے باب السلام ہونے کا شرف اور ملت اسلامیہ کے عظیم قائد محمد علی جناح کے مولد اور مدفن ہونے کا اعزاز حاصل ہو اس صوبہ کی انتظامیہ کو ایسا مشورہ دینے کی ضرورت پیش آنا قوم کی بدقسمتی اور صوبہ کی بدبختی کی علامت ہی قرار دی جائے گی۔ یہی صوبہ تھا جہاں چند برس قبل محبت اور الفت کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا رواں دواں تھے ، جہاں عوامی سطح پر بھی نسلی یا لسانی تعصب کا تصور نہیں تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حیدرآباد سے قاضی محمد اکبر، طالب المولٰی، مخدوم محمد زمان، حاجی غلام نبی میمن، شیخ خورشید احمد اور قاضی محمد اعظم کو مختلف اسمبلیوں کے لئے منتخب کیا جاتا رہا اور کسی ذہن کے گوشہ میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئی کہ منتخب کئے جانے والوں اور منتخب کرنے والوں میں نسل و زبان کا اختلاف موجود ہے۔ حیدرآباد کی بلدیہ کی سربراہی کے لئے بھی اکثریت و اقلیت کی سوچ سے بالاتر ہوکت قاضی محمد اکبر، قاضی عبدالمجید عابد اور غلام نبی میمن جیسی شخصیتوں کو منتخب کرتے رہے اور لوگوں کو اپنے فیصلہ پر کبھی پچھتاوا بھی نہیں ہوا اس لئے کہ منتخب ہونے والوں کے دروازے بھی بلاامتیاز سب ہی کے لئے کھُلے رہتے تھے۔ میر رسول بخش خان تالپور مرحوم کے "دربار فقیری"کی رونق غیر سندھی بھائیوں کی اکثریت کے دم سے ہی قائم تھی اور حافظ مبارک علی شاہ مرحوم کے " موتی محل" کی چمک دمک بھی سندھی اور غیر سندھی بھائیوں کی یکساں مرہون منت تھی۔ لیکن کوئی مانے یا نہ مانے آج صوبہ سندھ لسانی اور نسلی تعصبات کی آگ کےشعلوں کی زد سے محفوظ نہیں ، سیاست ، نظامت ، تعلیم ، صحت ، تجارت ، زراعت ، صنعت و حرفت ہر شعبہ اس کی لپیٹ میں ہے صوبہ کا ہر باشعور شہری خوب جانتا ہے کہ اس آگ کے بھڑکانے میں کس کا کتنا حصہ ہے۔

الحمدللہ کہ اکتوبر 1990ء کے انتخابات کے بعد سندھ میں پھر محبت اور بھائی چارہ کی مدھم آوازیں سنائی دینے لگی ہیں اگر ان میں تسلسل قائم رہا اور مزید آوازیں بھی اس شامل ہوتی گئیں تو وہ وقت دور نہیں جب پورے صوبہ کے شہر شہر، قریہ قریہ اور گلی گلی میں " ہم تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں" کے نغمے گونج اٹھیں گے۔ بابائے قوم نے تو ہمیں 15جون 1948ء ہی کو نصیحت فرمادی تھی کہ

"ہم نہ بلوچ ہیں نہ پٹھان ہیں ، نہ سندھی ہیں نہ بنگالی نہ پنجابی، ہمارے احساسات اور طرز عمل بھی پاکستانیوں جیسے ہونے چاہئیں اور ہمیں چاہئے کہ بجائے کسی اور نام کے صرف پاکستانی کہلائے جانے پر فخر کریں۔"

12 اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا تھا۔

ہم ایک ایسی مملکت کی تعمیر کررہے ہیں جو پوری اسلامی دنیا کی تقدیر بدل دینے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والی ہے ۔ اس لئے ہمیں وسیع تر اور بلند بصیرت کی ضرورت ہے۔ ایسی بصیرت جو صوبائیت، قوم پرستی اور نسل پرستی کی حدود سے ماورا ہو، ہم سب میں حب الوطنی کا ایسا شدید اور قومی جذبہ پیدا ہوجانا چاہئیے جو ہم سب کو ایک مضبوط قوم کے رشتے میں جکڑ دے۔ یہ واحد طریقہ ہے اپنی منزل پر پہنچنے کا ، اپنی جدوجہد کا نصب العین حاصل کرنے کا ، وہ مقصد عظیم جس کی خاطر لاکھوں مسلمانوں نے اپنا سب کچھ لٹا دیاہے اور اپنی جانیں تک قربان کردی ہیں " اگر ہم بانی پاکستان کی ان باتوں پر عمل کرلیتے تو آج ہمیں اذیت کا موجودہ دور دیکھنا نہیں پڑتا۔

"ایمانداری اور خلوص" کو جناب جام صادق علی نے بجا طور پر انتظامیہ کیلئے رہنما اصول قرار دیا ہے۔ یہ اصول وسیع بروقت فیصلہ کی صلاحیت، اپنے سے بالاتر حکام کے خلاف قانون اور خلاف ضابطہ احکامات کو تسلیم کرنا نہ اپنے ماتحتوں کو اس قسم کے احکامات عمل کروانے کی کوشش کرنا اور ہر قسم کی تحریص و تخویف کا جرأت کے ساتھہ مقابلہ کرنا، یہ سب ہی سرکاری اہلکار کے فرائض منصبی کا حصہ ہیں۔ اگر کسی سرکاری افسر کا کوئی قدم لسانی، نسلی یا علاقائی تعصب کا غماز ہو تو یہ شرائط ملازمت کی خلاف ورزی بھی ہے اور صریح بددیانتی بھی۔ چھوٹے بڑے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ ہر زبان و نسل اور ہر علاقہ میں رہنے والے شہری کی طرف سے ادا کردہ محصولات میں سے دی جاتی ہے اس لئے سب کے ساتھہ یکساں سلوک کرنا اوّلین فرض ہے۔

آج بدقسمتی س سرکاری افسر ہی نہیں صوبہ میں عوام کے مختلف طبقے بھی تعصب کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہم نے انصاف کا معیار سندھی اور غیر سندھی افسروں کی تعداد کو مقرر کرلیا ہے۔ یہ کہنا کہ اس محکمہ میں ناانصافی ہورہی ہے اس لئے کہ سندھی افسروں کی تعداد کم ہے یا اس محکمہ میں زیادتی ہورہی ہے اس لئے کہ غیر سندھی افسر کم تعداد میں ہیں۔ یہ مثبت نہیں بلکہ منفی انداز فکر ہے۔ ہمیں یہ سادہ سی حقیقت سمجھنے میں کوئی دقت نہیں چاہئے کہ ہمارے مفادات غیر سندھی افسر کے ہاتھوں محفوظ ہیں نہ سندھی افسر کے ہاتھوں، اگر وہ بددیانت، غیر عادل اور متعصب ہے لیکن اگر افسر یا حکمراں امین، صادق اور عادل ہے تو پھر اس کے ہاتھوں سب کے مفادات محفوظ رہیں گے چاہے وہ سندھی ہو یا غیر سندھی۔ ہماری نگاہ اس بات پرنہیں رہنی چاہئے کہ فلاں افسر سندھی ہے یا غیر سندھی بلکہ ہمیں یہ دیکھتے رہنا چاہئے کہ کون افسر بددیانت ، بدعنوان، رسوت خور، اقربانواز، متعصب اور کام چور ہے تاکہ ایسے لوگوں سے نجات حاصل کی جاسکے۔ صوبہ کے عوام کو بحیثیت مجموعی اپنے موجودہ فکروعمل میں فوری یکسر تبدیلی لانی ہوگی اس بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکیں کے۔ بددیانت اور بدعنوان افسر نہ سندھی ہوتا ہے نہ غیر سندھی وہ تو صرف بددیانت اور بدعنوان ہی ہوتا ہے جیسے چور اور ڈاکو اپنی ذات میں نہ سندھی ہوتا ہے نہ غیر سندھی وہ تو فقط چور اور ڈاکو ہی ہوتا ہے وہ نسل اور زبان کے حوالہ سے کسی کو نہیں بخشتا۔

نسلی و لسانی احساسات اور تعصبات سے پاک انتظامیہ کے سلسلہ میں ایک اور بنیادی اصول بھی پیش نظر رکھنا ہوگا اور وہ یہ کہ خوشبو صرف پھول ہی سے آسکتی ہے گندگی سے نہیں۔ اسی طرح باصلاحیت اور دیانتدار انتظامیہ کا خواب سفارش اور کوٹہ کے بجائے اہلیت اور فقط اہلیت کی بنیاد پر تقرر پانے والے ملازمین ہی پورا کرسکتے ہیں۔ کسی جماعت، کسی گروہ، کسی رکن اسمبلی یا کسی وزیر کے کوٹہ سے تقرر حاصل کرنے والا چھوٹا یا بڑا سرکاری ملازم کم از کم تعصب سے پاک اور اہل نہیں ہوسکتا اس لئے ہمیں سیاسی حکومتی اور انتظامی سطح پر یہ اصول طے کرلینا چاہئے کہ آئندہ چپراسی تک کا تقرر نسل، زبان یا علاقہ کی بنیاد پر نہیں کریں گے۔ اس سلسلہ میں وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب کا یہ اعلان بڑا خوش آئند ہے کہ اب تقرری کا معیاد فقط اہلیت ہوگا۔ ایک مؤثر، دیانتدار، مستعد اور غیر متعصب انتظامیہ کی تشکیل کے لئے یہ بنیادی اور اہم فیصلہ ہے ہمارے سیاسی لیڈروں کو چاہئے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے تحت "دفتر روزگار" یا پارٹی کارکنوں کو روزگار دلوانے کیلئے پلیسمنٹ بیورو قسم کے اداروں کے قیام کی بدعت کو جلد سے جلد ترک کردیں ہاں نجی ادارے قائم کر کے بے روزگاری کے خاتمہ کی کوشش کو البتہ ضرور سراہا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment