مادہ پرستی کا زہر
روزنامہ جسارت منگل 16 جنوری 1990 ء
مادہ پرستی کا زہر ہمارءے معاشرہ میں کس قدر سرایت کرچکا ہے اس کا اندازہ چھوٹی سی خبر کے ایک جملہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ " ریلوے ورکرز یونین کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔عہدیداران نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں سکھر کے ٹرین حادثہ میں 40 گھنٹے مسلسل کام کرنے والے ریلوے اسٹاف کو خصوصی معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ " اس سے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا کہ ہر ملازم کو اس کے کام کا پورا پورا معاوضہ حاصل کرنے کا حق ہے جو اسے کسی مطالبہ کے بغیر ہی مل جانا چاہئے لیکن کچھہ جائز باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں محسوس کرنے میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن انہی باتوں کو اگر زبان پر لاتا ہے تو اس سے ایسا کرنے والے کی کم ظرفی اور کردار کی گراوٹ کا ثبوت ملتا ہے۔ ہمارے مسلم معاشرے میں مہمان نوازی کے کچھہ تقاضے ہیں مہمان کی خاطر مدارات اور مقدور بھر اس کے آرام کا خیال رکھا جاتا ہے اور خود مہمان بھی میزبان سے یہی توقع رکھتا ہے جو نامناسب نہیں لیکن اگر مہمان خود ہی انواع اقسام کے کھانوں اور جا یا بیجا سہولتوں کے لئے فرمائش کرنے لگے تو وہ مہمان بننے کا مستحق نہیں رہتا اور میزبان اس اعلٰی ظرف کا مالک فرد نہیں سمجھے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ مذکورہ بالا مطالبہ میں صرف " معاوضہ" ہی شامل نہیں ہے بلکہ " خصوصی معاوضہ" کا مطالبہ ہے یعنی اس سے بھی زیادہ کچھہ دیا جائے جو ان کے جائز معاوضہ کے علاوہ ہو۔
ٹرین کا حادثہ تازہ ہے کہ ابھی اس کے نتیجہ میں جاں بحق ہونے والوں کی پوری طرح تجہیز و تکفین بھی پوری طرح تکمیل کو نہیں پہنچائی جاسکتی ہے بلکہ جائے حادثہ پر متاثرین کا خون تک ابھی خشک نہیں ہو پایا ہے کہ خصوصی معاوضہ کا مطالبہ سامنے آگیا۔ ریلوے ایک پرانا اور منظم ادارہ ہے جس کے قواعد و ضوابط موجود ہیں جن کے مطابق مقررہ اوقات کے بعد زیادہ کام کرنے والوں کو اس فاضل کام کا معاوضہ ادا کیا جانا ہے اور امید کی جانی چاہئے کہ جن ملازمین نے چالیس گھنٹے زیادہ کام کیا انہیں اس کا پورا معاوضہ ملے گا لیکن اس مطالبہ میں تشویش کا جو پہلو ہے وہ خود مطالبہ ہی نہیں بلکہ " خصوصی معاوضہ" ہے۔ اگر ورکرز یونین خصوصی معاوضہ کے بجائے یہ اعلان کرتی کہ سانحہ سانگھی کے موقعہ پر ریلوے کے جن مزدوروں نے اضافی خدمات انجام دی ہیں اس کا معاوضہ عبدالستار ایدھی ٹرسٹ کو دے دیا جائے تو اس سے عام پاکستانیوں کے دلوں میں نہ صرف ریلوے کے مزدوروں کی قدر و منزلیت ہی اضافہ ہوتا بلکہ اس سے ملک میں امتیاز، قربانی، محبت اور ہمدردی کی قابل تقلید مثال بھی قائم ہوتی۔ لیکن اس مطالبہ نے ہمارے معاشرہ میں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی خود غرضی کی نشاندہی ضرور کردی ہے۔
ریلوے کے مزدوروں نے سانگی حادثہ کے بعد اگر چالیس گھنٹے مسلسل خدمات انجام دیں تو یہ انتہائی قابل تحسین فعل تھا جن کا معاوضہ تو انہیں ضرور ملتا لیکن اس کا اتنا فوری مطالبہ سے یہ قابل نفرین عمل بنادیا گیا ہے۔ ہم تمام ریلوے مزدوروں کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دیتے لیکن معاشرہ کو اور اس کے چھوٹے چھوٹے طبقوں کو بہر حال ہوشیار رہنا چاہئے کہ کچھہ لوگ قوم کو کہاں لے جانے کی کوشش کررہے ہیں چاہے یہ کوشش انجانے ہی میں ہو رہی ہو۔ چند عشروں قبل ہمارا معاشرہ بڑا مثالی معاشرہ تھا ہمارے درمیان اس قسم کا سوچ رکھنے والے افراد موجود نہیں تھے اور اگر کچھہ کالی بھیڑیں تھیں بھی تو وہ اپنے خیالات کو اس طرح ظاہر کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے لیکن اب حالات دگرگوں ہیں آج ہم انسانی حقوق کے نام پر انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کئے جارہے ہیں ۔ آج آزادی کے نام پر چند قوتیں قوم کو غیر ملکی اور لادینی ثقافت کا غلام بنانے کا شوق پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہر فرد پر معاشرہ کے بڑے احسانات ہوتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان احسانات کا بدلہ عمر بھر اتارنے کی کوشش کرتے رہیں۔ لیکن ہم نے احسان کے مفہوم ہی کو بدل کر رکھہ دیا ہے۔ ہم معاشرہ کی بنیادوں کو کمزور بلکہ ختم کرنے ہی میں اپنی نجات سمجھہ بیٹھے ہیں ہم برائیوں کو ختم کرنے اور نیکیوں کو پھیلانے کے لئے فریضہ کو فراموش کر بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہم سے ہر شخص پریشان ہے اور وہ بھرے بازاروں میں بھی خود کو تنہا ہی پاتا ہے۔
لیبر یونین جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے مزدوروں کی تنظیم ہے جو غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہوگی اور اس طبقہ میں تو دوسروں کے لئے ہمدردی اور محبت کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں دوسروں کے دکھہ اور تکلیف کو وہ ہمیشہ بڑھ چڑھ کر بٹانے کی کوشش کرتے ہیں پھر یہ کیا ہوگیا کہ انہی کی یونین کی طرف سے سانحہ سانگی کے بعد اضافی خدمات کے لئے خصوصی معاوضہ کا مطالبہ کردیا گیا۔ خدا کرے کہ یہ سب کچھہ غلط ہو۔
No comments:
Post a Comment