کیا امریکہ ثالثی کا اہل ہے؟

روزنامہ جسارت پیر27 مارچ 2000 ء

امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے ماضی کی طرح چند دن قبل اپنی اس پیشکش کو پھر دہرایا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت دونوں درخواست کریں تو وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی غرض سے ثالث کا کردار اداد کرنے کو تیار ہیں۔ موصوف نے خود کو کامیاب ثالث ثابت کرنے کے ضمن میں مشرق وسطیٰ اور شمالی آئرلینڈ میں قیام امن کے سلسلہ میں اپنی کوششوں کا حوالہ بھی دیا ہے لیکن یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا امریکا پاکستان اور بھارت کے اس تنازعہ میں ثالثی کا اہل ہے بھی کہ نہیں ماضی کے چند حقائق و واقعات کو اپنے پیش نظر رکھتے ہوئے ان شرائط پر بھی غور کرنا ہوگا جو ثالثی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ افراد، خاندانوں اور قبیلوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اور تنازعات کے حل کے سلسلہ میں ابتدائے آفرینش ہی سے ثالث کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے اس کی افادیت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی بڑے بڑے تجارتی معاہدوں اور سودوں میں کسی ممکنہ اختلاف رائے یا تنازعہ کے تصفیہ کے لئے ثالث کی گنجائش رکھی جاتی ہے۔ لیکن ثالث بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ چند بنیادی شرائط پر پورا اترتا ہو، ان شرائط میں غیر جانبداری، دیانتداری، کردار میں پختگی ، معاملہ فہمی اور بے خوفی شامل ہیں اس کے علاوہ یہ بھی لازمی ہے کہ جسے ثالث بنایا جارہا ہے وہ ہر قسم کے لسانی، نسلی، علاقائی اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ فریقین کسی ذہنی تحفظ کے بغیر اس شخص پر متفق ہوں۔ انہی شرائط کی روشنی میں امریکا کے صدر بل کلنٹن کی شخصیت، ان کے کردار اور ان کے ماضی کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر میں بحیثیت ثالث پاکستان کے لئے قابل قبول ہیں یا نہیں ۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ کلیہ اچھی طرح سمجھہ لینا چاہئے کہ امریکا کے سیاستدان اور سیاسی و غیر سیاسی عہدوں پر فائز حضرات ہمارے ملک کے سیاستدانوں اور غیر سیاستدانوں کی طرح دہری حیثیت اور دہری شخصیت کے مالک نہیں ہوتے، وہ کسی معاملہ پر دو متضاد آراء یعنی ذاتی اور سرکاری یا جماعتی اور غیر جماعتی نقطہ نظر نہیں رکھتے ۔ ہمارے یہاں تو بنیادی مسائل و معاملات پر بھی ایک ذمہ دار شخص دو متضاد رائے کا اظہار کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا لیکن اس کے برعکس امریکا کا صدر، وزیر، سفیر یا عام شہری اگر کسی تنازعہ کا کوئی حل پیش کرے گا تو وہ امریکی مفادات کے عین مطابق ہوگا بالفاظ دیگر جناب بل کلنٹن جو بھی فیصلہ کریں گے اس کے پیچھے عدل و انصاف ، دیانتداری ، غیر جانبداری اور بے لوثی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا بلکہ ان کا فیصلہ امریکی امریکی مفادات کا عکاس ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر کلنٹن کو ثالثی کی شرائط پر جانچنے کے ساتھہ ہمیں امریکا کی حکمت عملی، اس کے مفادات اور اس کی ضروریات کو اپنے پیش نظر رکھنا ہوگا پھر ہم امریکا کے اس رویئے سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتے جو وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھہ روا رکھتے آرہا ہے۔

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی 52 سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ پاکستان تو شروع ہی سے امریکا کا دوست اور اتحادی رہا ہے لیکن امریکا کا رویہ ہمارے ساتھہ ہمیشہ معاندانہ رہا ہے جبکہ ہمارے مقابلہ میں بھارت کے ساتھہ اس کا سلوک دوستانہ بلکہ مربیانہ رہا ہے حالانکہ بھارت ہمیشہ سے امریکا کے حریف روس کے اتحادی اور طفیلی ہے۔ جماعتی لحاظ سے بھی وہ پاکستان کے کے مقابلہ میں بھارت نواز ہیں اس لئے کہ ان کی ڈیموکریٹک پارٹی روایتاً پاکستان مخالف رہی ہے۔ ماضی پر جب ہم ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہماری بے لوث اور مخلصانہ دوستی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا نے پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرکے روس کا پاکستان کا دشمن بنایا اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا ایک جاسوس طیارہ یو ٹو (U-2) جب روس میں مار گرایا گیا تو روس نے نقشہ میں واشنگٹن پر نہیں پشاور پر سرخ دائرہ کھینچ کر دھمکی دی کہ آئندہ امریکا کا کوئی جاسوس طیارہ روس میں داخل ہوا تو پشاور کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا۔ 1965ء میں امریکا نے اپنے دشمن روس کے طفیلی بھارت کی اس طرح مدد کی کہ ہمیں نہ صرف ہتھیاروں کی فراہمی بند کردی گئی بلکہ فاضل پرزے تک دینے سے انکار کردیا گیا یہ تو سب ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت ہمارے پاس بیشتر امریکی ہتھیار تھے جو ہمارے دوست نے ہمیں معمول کے خلاف مہنگے داموں فروخت کئے تھے۔ 1971ء کی جنگ میں امریکا نے ہمیں ایسے مقام پر پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا جہاں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ افغانستان میں روس کے سامنے ڈٹ جانے پر امریکا نے پاکستان کو مہنگے داموں ایف۔16طیارے فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن جب ان کی حوالگی کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ یہ طیارے نسبتاً کم معیار کے ہیں جبکہ قیمت ہم سے اعلیٰ معیار کے طیاروں کی وصول کی گئی تھی ۔ بہرحال جب پاکستان کی طرف سے ان طیاروں کو وصول کرنے سے انکار کردیا گیا تو انہیں جدید آلات سے لیس کیا گیا لیکن پہلی کھیپ کے بعد ہمارے دوست امریکا پر اچانک یہ راز کھل گیا کہ پاکستان کو مزید ایف-16 طیارے دینا علاقائی امن کے لئے خطرناک ہے، اس لئے اس نے نہ صرف طیارے ہی دینے سے انکار کردیا بلکہ کروڑوں ڈالر جو پاکستان نے ان کی قیمت کے طور پر دیئے تھے وہ بھی پریسلر ترمیم کے بہانے دبا کر بیٹھہ گیا۔ برسوں کے بعد امریکا نے قسطوں میں یہ رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا لیکن تاحال یہ ادائیگی مکمل نہیں ہوئی ہے۔ امریکا نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ہمارے وہ پرزے بھی ہڑپ کرنے کی کوشش کی جو وہاں مرمت کے لئے بھیجے گئے تھے۔ ہم پر کبھی چین سے میزائل خریدے، کبھی ایران کو میزائل ٹیکنالوجی منتقل کرنے اور کبھی شمالی کوریا کے ساتھہ ایٹمی معاملات کے تبادلے کے الزام لگا کر دہشت گرد ملک قرار دینے کی دھمکیاں دی گئیں۔ کبھی آپس کے جھگڑے کے نتیجہ میں قتل ہونے والے عیسائی لڑکے کا صدر کلنٹن نے ماتم کیا کبھی ایک پادری کی مبینہ خودکشی پر آسمان کو سر پر اٹھا کر پاکستان کو مذہبی منافرت کا مرتکب قرار دیا گیا۔ کبھی قالین بانی میں بچوں کی مشقت کے نام پر قالین کی خریداری بند کی گئی، کبھی اسی بہانہ ہمارے یہاں کھیلوں کے سامان کی برآمد پر پابندی کی سازش کی گئی ۔ اب سیالکوٹ میں تیار ہونے والے آلات جراحی کو بھی اسی بھونڈے الزام کے تحت بیرونی دنیا میں ممنوع قرار دینے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ جو اسامہ بن لادن کل تک بطل جلیل،عظیم مجاہد، جری انسان اور اشتراکیت کے دشمن کی حیثیت سے جانا جاتا تھا وہ آج دہشت گرد ، قاتل اور امریکا کے لئے سب سے سے بڑے خطرے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ افغانستان پر محض اس لئے پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ اس نے اسامہ کو اپنے یہاں قیام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور پاکستان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اسامہ کو امریکا کے حوالے کرے۔

دوسری طرف بھارت پر امریکہ کی عنایت کی داستان بڑی طویل ہے۔ 1962ء میں چین نے اپنے علاقہ نیفا (NEFA) کو بھارت کے ناجائز قبضہ سے آزاد کروانے کے لئے حملہ کیا تو پاکستان کیلئے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کا ایک سنہری موقع ہاتھا آیا لیکن امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے اس سلسلہ میں غیر فعال بنادیا۔ 1947ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ بھاری پانی کے حصول میں چشم پوشی کا مظاہرہ کرکے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ خود امریکا نے بھارت کو جدید ترین کمپیوٹرز فراہم کرکے ایٹمی صلاحیت کو بڑھانے اور مختلف قسم کے مہلک ہتھیار بنانے میں بالواسطہ مدد دی اس کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت کے پاس کئی قسم کے میزائل موجود ہیں۔ 1998ء میں بھارت کے ایٹمی تجربہ کے جواب میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر امریکا نے پاکستان پر پابندیاں لگانے میں بڑی سرعت کا مظاہرہ کیا لیکن چند ماہ کے بعد ہی پاکستان کے مقابلہ میں بھارت پر سے کئی پابندیاں اٹھالی گئی۔

سطور بالا کی روشنی میں ہم بلاخوف تردید اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ امریکا کسی اصول و اخلاق کا پابند ہے کہ اس کے فیصلے اور اقدامات عدل و انصاف اور انسانی حقوق سے مطابقت رکھتے ہیں اس کی حکمت عملی محور تو فقط اقتصادی و سیاسی مفادات کے باوجود محض اسلام دشمنی ہے۔ لاکھہ اختلافات کے باوجود محض تجارتی مفادات کی خاطر امریکا نے ایک طرف تو چین کو پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دے رکھا ہے اور دوسری طرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت، اس کی ترقی اور دنیا میں بڑھتے ہوئے اس کے اثرات کو روکنے کی خاطر وہ بھارت کو اس کے مقابلہ پر لانے کے لئے پاپڑ بیل رہا ہے۔ اس طرح امریکا بھارت کی منڈی پر جو پاکستان کے مقابلے میںچھہ سات گناہ بڑی ہے قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں پاکستان امریکا سے اگر دوستی کی توقعات رکھتا ہے تو یہ محض خوش فہمی بلکہ خود فریبی کے سوا کچھہ بھی نہیں۔

ان تلخ حقائق اور واضح شہادتوں کے بعد بھی اگر پاکستان کے حکمرانوں نے صدر کلنٹن کو بطور ثالث قبول کرلیا تو یہ سنگین جرم سے کم نہیں ہوگا اور وہ ہمارے لئے یقیناً دوسرے ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف ثابت ہوں گے۔ اس لئے کہ امریکا بھارت کو ناراض کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی ناراضگی کی اسے کل پروا تھی نہ آج ہے اور نہ امریکا عالمی رائے عامہ کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار کو چاہئے کہ وہ " ہمیں امریکی ثالثی قبول ہے" کی رٹ لگانا چھوڑ دیں ، اگر صدر کلنٹن اور دنیا کے دوسرے ممالک کشمیر کے پرانے لیکن خطرناک اور سنگین تنازعہ کو حل کروانے میں واقعی مخلص ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں منظور کردہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو آزادانہ فیصلے کا حق دلوائیں۔ مسئلہ کشمیر کا اس کے علاوہ کوئی بھی حل نہ دیرپا ثابت ہوگا، نہ فریقین اسے دل سے قبول کریں گے۔

No comments:

Post a Comment