ثقافت کیا ہے؟

روزنامہ جنگ پیر 4 جون 1988ء

10 مئی کو روزنامہ جنگ میں ہماری ثقافت سے متعلق مضمون میں حتمی طور پر یہ فیصلہ ہوپایا تھا کہ مشرق اور مغرب کی طرف سے ثقافتی یلغار سے ہماری ثقافت کو فی الحقیقت کوئی خطرہ درپیش ہے یا نہیں لیکن اس بات کا فیصلہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ آخر ثقافت سے مراد کیا ہے اس لئے ہم پہلے ثقافت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کے خیال میں تو ناچنے، گانے اور بجانے ہی کو ثقافت کہتے ہیں زیادہ سے زیادہ دیہی علاقوں کے عوامی لباس بھی ثقافت میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔ اگر کوئی ثقافت سے یہی مراد لیتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ جب ہم کسی اخبار میں کسی ملک کے ثقافتی طائفے کی آمد یا اس سے متعلق کسی تقریب کی خبر پڑھتے یا ٹیلیویژن پر تصاویر دیکھتے ہیں تو اس میں ناچنے اور گانے والے مرد و خواتین مخصوص لباس زیب و تن کئے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں، کبھی کسی "معزز مہمان" کے اعزاز میں ثقافتی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے تو اس میں بھی اسی قسم کے فنکار نظر آتے ہیں ۔ دو مکوں میں ثقافتی تبادلوں کے معاہدوں کے تحت بھی عموماً ناچنے، گانے اور ساز بجانے والے ہی دورے پر آتے اور جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ناچ اور گانے ہی کو ثقافت سمجھتا ہے تو اسے کیسے غلط قرار دیا جاسکتا ہے۔

کیا ثقافت واقعی ناچنے اور گانے ہی کا دوسرا نام ہے یا اس سےکچھہ اور بھی مرادہ ہے ؟ اور کیا ناچ اور گانا ثقافت کا حصہ بھی ہے یا نہیں؟ ان تمام باتوں کا فیصلہ کرنے اور ثقافت کی کوئی سادہ اور جامع واضح تعریف و تشریح کی تلاش کی غرض سے ہمیں مفکرین کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے ہم اپنے علاقہ سے تعلق رکھنے والے مفکرین اور دانشوروں سے اس سلسلہ میں رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے پھر مغربی مفکرین سے استفادہ حاصل کریں گے اور آخر میں تمام آراء کو سامنے رکھہ کر اس سوال کا جواب تلاش کریں گے کہ ثقافت سے کیا مراد ہے؟

اردو زبان میں سب سے پہلے اس موضوع پر اگر کسی نے کچھہ لکھا تو وہ سر سیّد احمد خان کی ذات ہے۔ انہوں نے اپنے پرچے تہذیب الاخلاق میں تحریر فرمایا۔ "سول لائزیشن یا تہذیب کیا ہے؟ انسان کے افغال ارادی و جذبات نفسانی کو اعتدال پر رکھنا، وقت کو عزیز سمجھنا، واقعات کے اسباب کو ڈھونڈنا اور ان کو ایک سلسلہ میں لانا، اخلاق، معاملات، معاشرت اور طریق تمدن اور علوم و فنون کو بقدر امکان قدرتی خوبی اور فطرتی عمدگی پر پہنچانا اور ان سب کو خوش اسلوبی سے برتنا۔" ایک اور جگہ سر سیّد نے لکھا " جب ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکھٹا ہوکر بستا ہے تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں، ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں، ان کی معلومات اور ان کے خیالات ، ان کی مسرت کی باتیں اور ان کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہوتی ہیں اور اسی لئے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سول لائزیشن ہے۔"

علامہ اقبال کے نزدیک " تمدن کا تعلق ظاہری آداب و رسوم سے ہے جب تک تہذیب کا انسان کی باطنی اور ذہنی کیفیتوں سے ہے۔"

علامہ عبداللہ یوسف علی کہتے ہیں کہ "تمدن میں وہ تمام تحریکات شامل ہیں جن کا کسی قوم کے طبعی رجحانات اور معاشرتی نظام سےتعلق ہوتا ہے۔ اطوار و اخلاق، اخبار نویسی اور ادب ، فنون لطیفہ اور صنعت و حرفت ، غرض کل مباحث پر توجہ کی گئی ہے اور سیاسیات پر بھی اس حد تک نظر ڈالی گئی ہے جہاں تک کہ ان کا تعلق امور متنازع فیہ کی بجائے تعمیری خیالات سے ہو۔"

ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے مطابق " ثقافت ، یہ کلچر کا سب سے معروف و مروج اردو متبادل ہے۔ ثقافت ، اب کئی مبہم معنوں میں بلاتکلف استعمال ہورہا ہے۔ میں اس کی جگہ تہذیب و تمدن و شائستگی کی اصطلاح لاؤں گا ورنہ کلچر ہی رہے گا۔ کلچر کے آسان معنی ہیں طرز زندگی جو کسی قانون جبر کے بغیر رضاکارانہ معاشرے کے سب افراد میں کم و بیش مشترک حیثیت رکھتی ہے اور حسن کی شان رکھتی ہے جس سے زندگی زیادہ بامعنی اور پر راحت بن جاتی ہے۔ یہ کلچر ہے، یہ مظاہر جو کسی جبری و قانونی تنظیم یا منصوبہ بندی سے ابھرتے ہیں تمدن کہلائیں گے۔"

جسٹس ایس اے رحمٰن کے خیال میں "ثقافت ، ادب اور آرٹ سے تعلق رکھنے والی ان سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں جن سے ہمارے خوشحالی طبقوں کے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ثقافت سے ہماری مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کی پوری زندگی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرتی ہے جو ایک قوم کی حیثیت سے مل جل کر رہتے سہتے ہیں اور جن کو معاشرے میں سرایت کر جانے والا ایک ایسا ہمہ گیر نقطہ باہم متحد کردیتا ہے جسے یہ لوگ شعوری طور پر اپناتے یا خاموشی سے قبول کرلیتے ہیں۔ ثقافت ایک ایسی اصطلاح ہے جو ایک قوم کے پورے طرز زندگی کی نمائندگی کرتی ہے اور جس میں اس کے خارجی مظاہرات بھی شامل ہوتے ہیں اور نفسی کیفیات بھی۔"

ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں۔" کلچر کے سلسلے میں اب تک ہمارے ہاں دو لفظ استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک لفظ "تہذیب" ہے اور دوسرا لفظ "ثقافت" ہے۔ میں نے لفظ تہذیب اور ثقافت کے معانی یکجا کرکے ان کے لئے ایک لفظ "کلچر" استعمال کیا ہے جس میں تہذیب اور ثقافت دونوں کے مفہوم شامل ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کلچر ایک ایسا لفظ ہے جو زندگی کی ساری سرگرمیوں کا خواہ وہ ذہنی ہوں یا مادی، خارجی ہوں یا داخلی احاطہ کرلیتا ہے۔ کلچر اس کل کا نا ہے جس میں مذہب و عقائد، علوم اور اخلاقیات، معاملات اور معاشرت، فنون و ہنر، رسم و رواج، افعال ارادی اور قانون، صَرفِ اوقات اور وہ ساری عادتیں شامل ہیں جن کا انسان معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے اکتساب کرتا ہے اور جن کے برتنے سے معاشرے کے متضاد و مختلف افراد اور طبقوں میں اشتراک و مماثلت، وحدت اور یکجہتی پیدا ہوجاتی ہے۔ کلچر میں زندگی کے مختلف مشاغل ، ہنر اور علوم و فنون کو اعلٰی درجے میں پہنچانا، بری چیزوں کی اصلاح کرنا، تنگ نظری اور تعصب کو دور کرنا، غیرت و خودداری، ایثار و وفاداری پیدا کرنا، معاشرت میں حسن و لطافت ، اخلاق میں تہذیب ، عادات میں شائستگی ، لب و لہجہ میں نرمی، اپنی چیزوں، روایت اور تاریخ کو عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کو بلندی پر لے جانا بھی شامل ہیں۔"

غلام جیلانی برق کہتے ہیں "کلچر صرف ذہنی جلا، دانش اور اس نقطۂ نگاہ کا نام ہے جو عمل، مطالعہ اور ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا عملی اظہار تہذیب ہے، کلچر صرف ذہن کا عمل ہے۔ ثقافت، تمدن اور کلچر خاص ہیں۔ ثقافت کا تعلق علوم و فنون سے ہے۔ تمدن کا عمارات و باغات سے، کلچر کا دانش و ذہنی تصورات اور ایمانیات سے اور تہذیب ایک عام چیز ہے جو ان تینوں پر حاوی ۔"

محمد علی صدیقی کے نزدیک "ثقافت دراصل اس ہمہ جہتی اسلوب حیات کا نام ہے جو تجربہ، علم اور معتقدات کے خوبصورت رچاؤ سے جنم لیتی ہے۔ تحری کیا ہے؟ تاریخی عمل سے مستنبط پیکر روایت ہے۔ علم کیا ہے؟ یہ دردن ذات سے بیرون ذات دیکھنے کا عمل ہے تاکہ وہ سب کچھہ ہماری ثقافت زندگی سے باہر حاصل کیا جاتہا ہے ہمارے دائرہ علم میں آجائے۔ معتقدات کیا ہیں ؟ ایک ایسا آفاقی نقطۂ نظر جو دین اور دنیا پر محیط ہے۔

سیّد سبط حسن کا خیال تھا کہ اردو ، فارسی اور عربی میں کلچر کے لئے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا مہذب یا تہذیب یافتہ ہے تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ شخص مذکورکی بات چیت کرنے، دیکھنے، بیٹھنے اور کھانے پینے کا انداز اور رہن سہن کا طریقہ ہمارے روایتی معیار کے مطابق ہے۔ وہ ہمارے آداب مجلس کو بڑی خوبی سے ادا کرتا ہے اور شعر و شاعری یا فنون لطیفہ کا ستھرا ذوق رکھتا ہے۔"

ڈاکٹر مظفر حسن ملک کا کہنا ہے" ثقافت کا تعلق انسان کے شعوری پہلو سے ہے جس میں علم و عقائد ، اخلاقی قوانین مع رسوم و رواجات اور جمالیاتی اقدار شامل ہیں۔ شعوری پہلو کے ساتھہ ایک عملی پہلو بھی جسے ہم کردار کہتے ہیں۔ کردار بھی ثقافت کی طرح انفرادی ہوتا ہےھ اور معاشرتی بھی۔ مجموعی طور پر معاشرے کی اکثریت کو کردار اجتماعی اور معاشرتی کہلائے گا۔ علامہ زمخشری کےمطابق "مجازاً ادب سکھانے اور مہذب بنانے کے معنی میں بھی اس لفظ (ثقافت) کا استعمال ہوتا ہے۔"

ثقافت کے بارے میں یہ تو تھے ہمارے چند مفکرین کے خیالات لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا "کلچر" کے متبادل کے طور پر ثقافت، تہذیب اور تمدن کی مختلف اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں بلکہ ہمارے کچھہ ممتاز دانشوروں نے تو اردو، عربی کی ان اصطلاحات کو جھٹک کر "کلچر" ہی کو اختیار کرلیا ہے۔ اس لئے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم کلچر کے بارے میں اپنا مطالعہ وسیع کریں اور مغربی مفکرین نے کلچر کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے آگاہی حاصل کریں اس طرح ہی ہم کلچر کے حقیقی مفہوم سے آگاہ رہ سکیں گے۔

No comments:

Post a Comment