اکھنڈ بھارت کا دوسرا نام مشترکہ تاریخ و ثقافت
روزنامہ جسارت ہفتہ 1 جولائی 1989 ء
آج کال ہمارے اخبارات میں اس قسم کے بیانات بھی پڑھنے کو مل رہے ہیں جن پر پہلی نظر پڑتے ہی خیال ہوتا ہے کہ شاید یہ کسی بھارتی وزیر یا لیڈر کا بیان ہوگا لیکن جب تفصیل پڑھی جاتی ہے تو سرشرم سے جھک جاتا ہے اور ایک انجانا خوف محسوس ہونے لگتا ہے اس لئے کہ بھارتی لیڈروں کی ہم نوائی کے یہ بیانات ہمارے اپنے ملک کے وزیروں یا لیڈروں سے منسوب ہوتےہیں ۔ ایسے ہی ایک بیان کا تازہ ترین نمونہ وفاقی وزیر سیاحت کا وہ ارشاد ہے جو موصوف نے بھارت یاترا سے واپسی پر ملتان کے ہوائی اڈے پر دیا تھا۔ انہوں نے کہا ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ ، کلچر اور بہت سے تاریخی مقامات مشترک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رابطہ قائم ہے ۔ روزنامہ جنگ کراچی 3 جون 1989ء " یہ بیان اس لئے بھی تشویش ناک ہے کہ یہ بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے اس خیال ہی کی تائید اور تصدیق کے لئے دیا گیا ہے جس کا اظہار موصوف نے سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر اسلام آباد میں کیا تھا۔ راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی ثقافت ایک ہی ہے اور ان کے بعد جو بھی بھارتی وزیر اور سفیرپاکستان آئے انہوں نے اپنے وزیر اعظم کے خیال کی تائید میں اسی قسم کے بیانات جاری کئے لیکن حیرت اورافسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سطح سے ان کے خیالات فاسدہ کی تردید میں کچھہ نہیں کہا گیا جب کہ بھارتی وزیر اعظم کے خیال کی تائید میں اسی قسم کے بیانات جاری کئے لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سطح سے ان کے خیالات فاسدہ کی تردید میں کچھہ نہیں کہا گیا جب کہ بھارتی وزیر اعظم کے نانا پنڈت جواہر لعل نہرو نے قیام پاکستان ہی نہیں بلکہ قرارداد پاکستان سے بھی پہلے جب اسلامی ثقافت کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ ٹونٹی والا لوٹا اسلامی ثقافت اور بغیر ٹونٹی والا لوٹا ہندو ثقافت نہیں مانی جاسکتی تو مسلمان سیاست دان اور دانشوروں نے مدلل اور تفصیلی جواب دے کر پنڈت جی کو زچ کردیا تھا لیکن ان کا نواسہ زیادہ خوش قسمت نکلا کہ اس نے جب اپنے انجہانی نانا کے خیالات کو پاکستان کی سرزمین پر علی الاعلان پیش کیا تو اس کے خلاف کسی بھی طرف سے ایک لفظ تک نہیں کہا گہا بلکہ خاموشی نم رضامندی کے مصداق گویا اس بات کو تسلیم کرلیا گیا اور اب یہ بات ثابت بھی ہوگئی کہ پاکستان میں ان کے ہم خیال اور ہم نوا حضرات موجود ہیں اور بڑی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ آج کل برسر اقتدار بھی ہیں۔
اگر راجیوگاندھی یا اور کوئی بھارتی لیڈر صاف الفاظ میں " اکھنڈ بھارت کا نظریہ پھر پیش کردیتا تو کسی بھی ذمہ دار پاکستانی میں یہ جرأت" نہ تھی کہ وہ اس کی تائید میں کوئی بات کرتا لیکن ہمارے وفاقی وزیر سیاحت بغور " اکھنڈ بھارت" کے عناصر ترکیبی کا جائزہ لیں تو ان پر یہ راز آسانی سے منکشف ہوجائے گا کہ " پاکستان اور بھارت مشترک تاریخ ، مشترک ثقافت اور مشترک تاریخی مقامات ہی ' اکھنڈ بھارت' کی دوسری اصطلاح ہے۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے یکم جولائی 1946ء کو اے پی اے کے نمائندے کو اپنے انٹرویو میں واضح طور پر فرمادیا تھا کہ " ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر ، نام و نسب، شعور اقدار و تناسب، قانون و اخلاق ، رسم و رواج، تاریخ و روایت اور رجحان و مقاصد ہر ایک لحاظ سے ہمارا اپنا انفرادی زاویۂ نگاہ اور فلسفۂ حیات ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس بھی پہلے یعنی 23 مارچ 1940ء کو بھی " اشتراک تاریخ و ثقافت" کی کھلے الفاظ میں تردید فرمادی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا۔ " میں واشگاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ وہ ( ہندو اور مسلمان) دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں بلکہ اکثر متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی کے متعلق ہندوؤں اور مسلمانوں کے خیالات اور تصورات ایک دوسرے سے مختلف ہیں یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان اپنی اپنی ترقی کی تمناؤں کے لئے مختلف تاریخوں سے نسبت رکھتے ہیں۔ ان کے تاریخی وسائل اور ماخذ مختلف ہیں ان کی رزمیہ نغمیں ان کے سربرآور وہ بزرگ اور قابل فخر تاریخی کارنامے سب مختلف اور الگ الگ ہیں۔
قائد اعظم نے لگی لپٹی رکھے بغیر اشتراک کی نفی کردی ہے لیکن ذرا اور بھی تفصیل کے ساتھہ ہم مشترک تاریخ کلچر اور مشترک تاریخی مقامات پر الگ الگ بحث کرلیں تاکہ اس سلسلے میں کسی کے ذہن میں کوئی شک و شبہ موجود ہو تو وہ بھی دور ہوجائے۔
مشترک تاریخ:
گذرے ہوئے اہم واقعات کے علاوہ لوگوں کے حالات ان کے عروج و زوال کے اسباب اور ان کی خصوصیات کے مرقع کو تاریخ کا نام دیا جاتا ہے ہم ان میں سے کسی بھی زاویہ سے دیکھیں ہمیں کسی بھی مرحلہ پر پاکستان اور بھارت کی تاریخ متفق و مشترک نظر نہیں آتی۔ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد کے بعد ہی سے اگر ہم برصغیر کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو حیرت انگیز طور پر دونوں ملکوں اور دونوں قوموں کی تاریخ مختلف اور متصادم نظر آئے گی۔ ہماری تاریخ الحمدللہ کی فتح و نصرت کی تاریخ ہے ان کی تاریخ شکست و ہزیمت کی تاریخ ہے۔ ہماری تاریخ برصغیر کے تمام علاقوں میں بسنے والےہر مذہب کے لوگوں کی ترقی و خوشحالی عدل و انصاف اور مساوات کی تاریخ ہے ان کی تاریخ بدحالیٔ ، ظلم و ستم ، ذات پات اور چھوت چھات کے واقعات کی تصویر ہے۔ مسلمان سربراہوں نے عفو و درگزر وار ہمدردی اور رحمدلی سے کام لیا انہوں نے موقع ملنے پر انتقام اور بے رحمی کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے اپنی آزادی کی خاطر مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم تلے جدوجہد کی انہوں نے کانگریز کے ترنگے کے کے نیچے ہماری آزادی کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ ہمارا قائد ہی بے باک ، نڈر اور منافقت سے پاک انسان تھا ان کی قیادت مکر فریب اور منافقت کا پیکر تھی۔ پھر یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ کیا محمد بن قاسم اور راجہ داہر، محمود غوری اور پرتھوی راج، محمد غزنوی اور جے پال اور انند پال اور بابر اور رانا سنگ رام سنگھہ ، اورنگزیب اور شیواجی کے تاریخی معرکوں کو بھی کیا مشترک تاریخی کا حصہ قرار دے دیا جائے گا؟ رنجیت سنگھہ نے مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے اور مساجد کی بے حرمتی کرکے ان کو اصطبل میں بدل کر رکھہ دیا تو کیا اس تاریخ کے وارثوں میں ہم شریک ہوں گے؟ برصغیر کی ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ پر پھیلے ہوئے ایسے واقعات کی کوئی گنتی نہیں جو ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان پیش آتے رہے تو کیا یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ قرار پائیں گے؟ موجودہ نصف صدی کے دوران لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ، ہزاروں مسلمان بچیوں کا اغواء، کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ حیدرآباد دکن کا سقوط، جوناگڑھ اور منادا دور وغیرہ کا بھارت میں انضمام، 1965ء میں پاکستان کے خلاف بھارت کی طرف سے حملہ۔ 1970ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تاریخ کو بھی کیا ہم مشترک قرار دے کر اپنانے کو تیار ہیں؟ ہاں یہ الگ بات ہےکہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ہوں گے لیکن یہ مشترک ہیں بلکہ متصادم قوموں کے واقعات ہوں گے۔ یہ عادل اور ظالم کی تاریخ ہوگی۔
کلچر:
ثقافت ، انگریزی لفظ کلچر کا متبادل لفظ ہے۔ یہ ایک ایسی اصطلاھ ہے جسے استعمال کرکے بہت سے نادان حضرات خود کو دانشور قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی مشترکہ ثقافت کو زیر بحث لانے سے پہلے چند الفاظ میں یہ سمجھہ لیں کہ یہ ثقافت ہے کیا؟ ثقافت مختلف لوگوں کے طرز حیات کا نام ہے جس میں مذہب، رسم و رواج، لباس اور زبان سب ہی شامل ہیں۔ ہر قبیلہ اور ہر برادری کی ثقافت مختلف ہوسکتی ہے بلکہ بیشتر مختلف ہوتی ہے لیکن ثقافت کا یہ اختلاف ان کے نفاق کا نہیں اتفاق کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر ہم غور کریں گے تو سندھ ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کی ثقافت میں فرق کے علاوہ ان صوبوں میں بھی مشترک ثقافت نہیں ملے گی لیکن قومی لحاظ سے ہم پاکستانی ثقافت اور ملی لحاظ سے اسلامی ثقافت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ہمیں تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی ہے کہ پاکاتان اور بھارت کی ثقافت کہاں کہاں اور کیسے مشترک ہے؟ دیکھئے تو ہمیں اختلاف ہی اختلاف نظر آتا ہے ۔ ہمارا مذہب جدا ان کا مذہب جدا، ہم ایک اللہ واحد کو مانتے ہیں اور وہ کئی خدا رکھتے ہیں۔ ہم ےبت شکن ہیں وہ بت تراش اور بت پرست ہیں۔ رقص و سرود ان کی پوجا کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں اس کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ ہم گائے کا گوشت کھاتے ہیں وہ اس کو پوجتے ہیں۔ ہمارے سالن ذائقہ دار ہوتے ہیں ان کے سالن بے مزہ ، کھانے کے لئے ہم جو برتن استعمال کرتے ہیں وہ کشادہ اور بڑے ہوتے ہیں ان کے برتن تنگ اور چھوٹے ہوتے ہیں۔ ہم ٹونٹی والا لوٹا استعمال کرتے ہیں ہندو بغیر ٹونٹی والا ، ہمارے مکانار اور ان کے مکانات کی طرز تعمیر مختلف ہوتی ہے، ہم اپنے مردوں کو دفناتے ہیں وہ ان کو جلادیتے ہیں، یہ اور اسی قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو اس بات کے لئے قائل کرنے کے لئے کافی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی ثقافت کسی ایک نقطہ پر بھی مشترک قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔
تاریخی مقامات:
جہاں تک مشترکہ تاریخی مقامات کا تعلق ہے تو ہمیں کوشش بسیار کے باوجود دو تین مقامات ہی ایسے مل سکے جنہیں شاید وہ حضرات مشترکہ تاریخی مقامات قرار دینے کی جسارے کرسکیں جو پاکستان میں رہتے ہیں اور یہاں کا کھاتے ہوئے بھی راجیو گاندھی کی بانسری کی آواز پر رقصاں ہیں۔ وہ مقامات بابری مسجد اور سومنات کے مقام پر مندر اور مسجد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہیں ۔
بابری مسجد ہمارے لئے تو مقدس ہے ہی کہ یہ مسجد ہے لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے لئے بھی مقدس جگہ بن چکی ہے۔ اس لئے ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں معلوم ہوچکا ہے کہ وہ ان کے اوتار شری کرشن جی کی جنم بھومی ہے۔ اب ہندوؤں کی کوشش یہ ہے کہ بابری مسجد پر قبضہ کرکے اسے مندر میں تبدیل کردیا جائے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کا ردعمل تو ظاہر ہوچکا ہے اب ان حضرات کو اپنے خیالات سے قوم کو آگاہ کرنا چاہئے جو بھارت کی "دوستی" یا "زبردستی" کی خاطر الٹے سیدھے بیانات قوم میں انتشار فکری پیدا کرنے میں مصروف ہیں ویسے بھارت کے کئی علاقوں میں ایسے کئی مقامات مل جائیں گے جو آزادی سے قبل مسجد تھے لیکن اب وہ کسی اور مصروف میں آرہی ہیں لیکن چوں کہ مسلمان کے لئے جو جگہ ایک بار مسجد قرار پاچکی ہوتی ہے وہ قیامت تک مسجد ہی کی طرح مقدس رہتی ہے تو شاید یہ بات بھی " مشترک تاریخی مقامات" کے علمبرداروں کے حق میں جائے۔ لیکن ایسا کرنا کسی بھی مسلمان اور پاکستانی کے لئے انتہائی شرمناک فعل رہا ہوگا۔
ایک قوم یا ایک امت سے تعلق رکھنے والے مختلف مقامات پر آباد افراد کی تاریخ اور تاریخی مقامات ایک ہوسکتے ہیں لیکن ایک ہی جگہ آباد مختلف اور متصادم قوموں کی تاریخ، ثقافت اور تاریخی مقامات ہر گز مشترک نہیں ہوسکتے۔ اگر یہ مشترک ہوسکتے تو پھر مطالبۂ پاکستان کا کیا جو ارتھنا اور بھارتی قیادت ابتداء ہی سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ پاکستان کا مطالبہ غیر ضروری اور اس کا قیام بیجا ہے پاکستانیوں کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ کسی قوم پر تاریخ اور ثقافت کے نام پر بھی شب خوں مارا جاتا ہے اور بھارتی قیادت پاکستان میں اپنے دوستوں کے تعاون سے اسی سازش کی تیاری میں مصروف ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کے بزرگوں نے اکھنڈ بھارت کا جو جواب دیکھا تھا اسے پورا کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر 88 سسے اب تک کئی بار پاکستان اور بھارے کی تاریخ اور ثقافت ایک ہی ہے فی الحال وہ کہنے میں احتیاط سے کم لے رہے ہیں ۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام غلط تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ یہ کہنے کے مقام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ایک چیز البتہ ایسی ہے جو دونوں ملکوں میں مشترک ہے اور وہ ہے ہماری سرحد لیکن شروع دن ہی سے بھارے کی کوشش رہی ہے کہ اسے بھی ختم کردیا جائے۔ لیکن بھارت کے نیتاؤں اور ان کے پاکستانی ہمنواؤں اور ہمدردوں کو یہ بات خوب سمجھہ لینی چاہئے کہ ہم ہندوستان کی تاریخ اس کے کلچر اور اس کے تاریخی مقامات کی وراثت میں بھارت کو شریک کرنا گوارا کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متھرا، یشکر، ہردوار، امر تسر اور گنگا جل ہندوؤں اور ہندوستان گنگا جل ہندوؤں اور ہندوستان کو مبارک تاریخ اور تاریخی مقامات تو زندہ قومیں خود بناتی ہیں۔ الحمدللہ کہ تاریخی اور ثقافتی ہر لحاظ سے ہم مالا مال ہیں ہمارا ماضی شاندار حال پرعزم اور مستقبل تابندہ ہے۔
No comments:
Post a Comment