درگاہ حضرت بل کا محاصرہ
)تحریک آزادی کشمیر کا فیصلہ کن مرحلہ شروع ہوگیا۔(
روزنامہ جنگ پیر 8 نومبر 1993ء
28 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں بھارتی فوجوں کی یلغار دوسری عالمگیر جنگ کے شعلوں سے تازہ تازہ جھلسی ہوئی انسانیت کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف اور ان اصولوں کی کھلی توہین اور خلاف ورزی تھی جن اصولوں کو اپنا کر"ہم اقوام متحدہ کے عوام" نے عہد کیا تھا کہ دنیا کو ہمیشہ کیلئے امن و سلامتی اور محبت و یگانگت کا گہوارا بنائیں گے۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد بھارتی غالباً دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے عدم جارحیت اور عدم مداخلت کے اصولوں کی دھجیاں بکھیر کر توسیع پسندی کی بدترین مثال قائم کی ۔ کشمیر میں چڑھ دوڑتے وقت بھارت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کے مہاراجہ نے اپنی ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھہ کرلیا ہے اور کشمیر پر "پاکستانی حملہ" کے خلاف فوجی مدد طلب کی ہے لیکن اب یہ بات تقریباً پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس دن بھارت نے کشمیر میں فوج کشی کی اس دن تک مہاراجہ نے نہ تو بھارت سے فوجی امداد طلب کی تھی نہ بھارت کے ساتھہ ریاست جموں کشمیر کے الحاق کی کسی دستاویز پر دستخط کئے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ الحاق کے جس معاہدہ کو بہانہ بنا کر کشمیر پر حملہ کیا گیا تھا وہ معاہدہ ابھی بھارت کے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے پاکستان دشمن عیار ذہن ہی میں کلبلارہا تھا بعد میں الحاق کی جس دستاویز کے مندرجات سامنے آئے اس میں بھی بھارت کی اپنی شومئی قسمت سے یہ شرط شامل ہوگئی کہ ریاست میں حالات کے معمول پر آنے کے فوراً بعد وہاں کے عوام کی رائے کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا یعنی قطعی عارضی اور وقتی تھا۔
کشمیر کے مستقبل اور پائیدار حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ نے بھی بعد میں عوام ہی کو یہ اختیار دیا کہ وہ آزادانہ اور غیر جانبدرانہ استصواب رائے کے ذریعہ اپنی سیاست کو پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں، بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اقوام متحدہ کی اس تجویز کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ یہ عہد بھی کیا کہ وہ ریاست میں جلد از جلد ایسے حالات پیدا کرنے میں بھرپور تعاون کریں گے تاکہ عوام اقوام متحدہ کی زیر نگرانی اپنا حق خود ارادیت استعمال کرنے کے قابل ہوسکیں لیکن بھارت کی قیادت جو اپنی فطرت کے مطابق وعدوں اور عہد ناموں سے پھر جانے کی ایک تاریخ رکھتی تھی روس کے حق استرداد کی شہ پاکر کشمیر کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے حیلے بہانے تلاش کرنے لگا اور اس مسئلہ کے پرامن حل کی راہ میں ایسے تاخیری حربے اختیار کئے کہ 1965ء میں دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی لیکن پھر اقوام متحدہ بھارت کو اس بات پر تیار نہیں کرسکا کہ وہ منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں تنازعۂ کشمیر کا حل تلاش کرنے میں مدد کرے آج صورتحال یہ ہے کہ بھارت ان تمام بین الاقوامی معاہدوں اور قراردادوں سے منحرف ہوچکا ہے جن پر عمل کرنے کا اس نے بارہا وعدہ کیا تھا اور یہ سب کچھہ دنیائے اسلام بالخصوص پاکستان کے خلاف اس عالمی سازش کا ایک کلیدی حصہ ہے جو یہود و ہنود نے تیار کی ہے۔
آج ہمارا علاقہ انتہائی پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک طرف تو کشمیر کو آگ لگائی جارہی ہے وہاں کے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو قطعی محفوظ نہیں ہے اب تو درگاہ حضرت بل کا تقدس بھی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں پامال کیا جاچکا ہے اور اس کا مقصد مسلمانان عالم کی توہین کرنا اور کشمیر کے غیرتمند مسلمانوں کو مشتعل کرکے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ان کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کرنا ہے تاکہ نوجوانوں پر مزید ظلم و ستم کھلے عام کیا جائے یوں کشمیر میں بھارت کے خلاف لڑنے والا کوئی نہ بچے اور اس طرح بھارت اپنے خیال میں مسئلہ کشمیر کو مستقل طور پر حل کرلینا چاہتا ہے لیکن بھارت کی یہ بڑی بھول ہے اسے اپنے سرپرست اور مربی اشتراکی روس کا وہ حشر یاد کرلینا چاہئے جس سے وہ افغانستان میں دوچار ہوکر اب تحلیل ہوچکا ہے، ظلم و جبر کسی بھی طور زیادہ عرصے باقی نہیں رکھا جاسکتا۔
علاقہ کی سنگین صورتحال کے باوجود بھارت کے وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے پاکستان کی نئی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو مبارکباد دیتے ہوئے بظاہر "جرأت ، حوصلہ مندی اور تدبر" کا ثبوت دیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی وزیر اعظم سے کشمیر سمیت تمام معاملات پر گفتگو کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لایا جاسکے، بھارتی وزیر اعظم کی اس پیشکش کو ہم خلوص اور نیک نیتی ہی پر محمول کرنا چاہتے ہیں لیکن 15 اگست 1947ء کے بعد سے آج تک کے حالات اور واقعات ہمیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم کی یہ تجویز دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بیدار ہونے والی رائے عامہ بھی مطمئن ہوجائے اور کشمیریوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ بھی اسے مل جائے ، اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ باہمی تنازعات کو حل کرنے کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو تو 15 اگست 1947ء ہی سے کسی نہ کسی سطح پر ہمیشہ ہی جاری رہی ہے اور 25 اکتوبر کو بھی دونوں ملکوں کے سیکریٹری خارجہ قبرص میں ملاقات کرچکے ہیں ۔ اگر بھارت کے وزیر اعظم کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل میں واقعی دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے مسائل بھی خوش اسلوبی کے ساتھہ حل کرلئے جائیں اور یہ کہ دونوں ہمسایہ ملک باہمی اعتماد اور دوستی کی فضا میں زندہ رہنے کے قابل ہوجائیں تو یہ قطعی مشکل نہیں ہے بس بھارتی حکومت آج یہ اعلان کردے کہ درگاہ حضرت بل کا محاصرہ اٹھایا اور بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر سے واپس بلایا جارہا ہے اور یہ کہ چھہ ماہ کے اندر اندر مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کو آزادانہ اور غیر جانبدرانہ استصواب رائے عامہ کے ذریعہ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے سازگار ماحول پیدا کردیا جائے گا تو سمجھہ لیجئے کہ ہمارے درمیان موجود پچھتر فیصد تنازعات حل ہوگئے اور باقی پچیس فیصد اس دن طے ہوجائیں گے جس دن کشمیری عوام اپنی آزاد مرضی کے مطابق پاکستان یا بھارت کے ساتھہ اپنی قسمت کو وابستہ کرنے کا فیصلہ کرلیں گے۔ بھارتی وزیر اعظم ذرا بھی ہمت و حوصلہ سے کام لیں اور وہ انسانی حقوق کے احترام اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کا عہد کرلیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر کا تنازع جسے وہ اس سال اپنے یوم آزادی کے کے موقع پر "چھوٹا سا" مسئلہ قرار دے چکے ہیں حل نہ ہوجائے۔
کشمیر میں انسانی حقوق کو جس بے دردی کے ساتھہ کچلا جارہا ہے اور دنیا اس سلسلے میں جس بے حسی اور لاتعلقی کا ثبوت دے دہی ہے وہ بہت ہی افسوسناک ہے، اس سلسلے میں امریکہ پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے خود اس کے سفیر نے 21 اکتوبر کو کراچی میں کہا تھا کہ "امریکہ انسانی حقوق کے بارے میں سخت موقف رکھتا ہے" لیکن یہ سخت موقف مقبوضہ کشمیر، بوسنیا ار فلسطین کے سلسلے میں کیوں اختیار نہیں کیا جاتا؟ سفیر موصوف نے یہ بھی کہا تھا کہ "ہمارے پاس مسئلہ کشمیر کیلئے کوئی سخت فارمولا نہیں ہے۔" حقیقت یہ ہے کہ اس کیلئے کسی نئے یا سخت فارمولے کو تلاش کرنے کی ضرورت نہٰں ہے۔ اقوام متحدہ نے 1949ء ہی میں اس مسئلہ کا بہت ہی منصفانہ فارمولا تیار کرلیا تھا جسے بھارت اور پاکستان منظور بھی کرچکے ہیں، اگر امریکہ واقعی آزادی اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے تو پھر اسے چاہیے کہ کشمیر کو بھی ہیٹی، صومالیہ اور کویت کی صف میں شامل کرکے علاقہ میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد کرے۔
No comments:
Post a Comment