قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب کون؟

روزنامہ جنگ ہفتہ 22 جون 1991ء

لاہور میں 17 جون کے ایک واقعہ کے پس منظر میں پنجاب کے وزیر اعلٰی نے فوری کاروائی کی جس کے نتیجہ میں انسپکٹر جنرل پولیس کا تبادلہ ٹریفک پولیس لاہور کے سپرنٹنڈنٹ کی معطلی اور ٹریفک پولیس کے ایک اے ایس ائی کی گرفتاری عمل میں آئی۔ ملک میں اپنی نوعیت کا غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی وقت ضائع کئے بغیر اس قسم کا فیصلہ کیا گیا اور یہ امر اس بات کو ثبوت ہے کہ اگر حکمراں واقعی کچھہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ بڑے سے بڑا فیصلہ فوراً کرسکتے ہیں ورنہ تو صدیاں بیت جاتی ہیں لیکن زلف یار پھر بھی سر نہیں ہوپاتیں۔ اس واقعہ میں کاروں کے شیشوں پر سیاہ کاغذ لگانا غیر قانونی ہے اور مزید یہ کہ واقعہ میں ملوث رکن اسمبلی کی گاڑی پر ایسے شیشے لگے ہوئے تھے جس کی بناء پر اے ایس آئی مذکور اسے روک کر چالان کرنا چاہتا تھا جس پر صوبائی اسمبلی میں تحریک استحقاق پیش ہوئی، ایوان میں شرم شرم کے نعرے بلند ہوئے اور حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین ایوان سے ایک ساتھہ باہر چلے گئے، صوبائی وزیر اعلٰی نے بعد میں کاروائی کا فیصلہ کیا ' موصوف کا یہ فیصلہ اپنے پہلو میں غور و فکر کے علاوہ امید اور مایوسی اور اطمینان و تشویش کے کئی نکتے بھی رکھتا ہے جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے اس لئے بھی کہ اس فیصلہ کا تعلق براہ راست ملک میں قانونی کی حکمرانی، امن و امان اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے بھی ہے۔

اگر قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ گاڑیوں کے شیشوں کو اس طرح سیاہ کرلیا جائے کہ باہر سے بیٹھے ہوئے نظر نہ آئیں لیکن اندر بیٹھے ہوئے باہر سب کچھہ دیکھہ لیں تو پھر مذکورہ گاڑی پر ایسا کیوں تھا اور اگر ایسا تھا تو کیا سرکاری گاڑیاں یا اراکین کی اسمبلی کی گاڑیاں اس پابندی سے مستشنٰی ہیں اگر ایسا ہے تو یہ بات عدل و مساوات کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے ایسا قانون اس لئے بھی ناقص قرار پائے گا کہ اس سے امن و امان اور جان و مال کے دشمن بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں' سرکاری گاڑیاں عموماً ڈرائیور ہی چلاتے ہیں پھر سندھ کی طرح یہ جرائم پیشہ لوگ گاڑیاں چھین کر بھی انہیں استعمال کرسکتے ہیں ایسی صورت میں اس پابندی کا مقصد جو جرائم پر قابو پانا ہے فوت ہوجاتا ہے ویسے بھی اس قسم کا استشنا اراکین اسمبلی کا استحقاق نہیں ہونا چاہئے ' واقعات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی گاڑی کو اس کی اجازت نہیں ہے ایسی صورت میں یہ جاننے کے باوجود کے گاڑی کسی رکن صوبائی اسمبلی کی ہے اسے روک کر مذکورہ اے ایس آئی کا چالان کرنے کا اصرار قابل تعریف ، توصیف اور انعام کا مستحق تھا نہ کہ توہین و تضحیک اور سزا کا۔ اس نے یہ سوچے بغیر کہ وہ کس کے خلاف کاروائی کر رہا ہے دیانت اور جرأت کا مظاہرہ کیا تھا اور وہ اس سلوک کا ہر گز مستحق نہیں جو اس کے ساتھہ روا رکھا گیا اس ایک واقعہ سے قدم قدم پر قانون کی خلاف ورزیوں کے ہزاروں دروازے کھل جائیں گے جس کا فائدہ صرف قانون شکنوں ہی کا پہنچے گا اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ گاڑیوں کے نمبر بدلنا یا ان پر سرکاری گاڑی ہونے کی علامتی تختی لگانا کوئی مشکل نہیں۔

اس واقعہ سے تشویش اور مایوسی کا یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ قانون شکن اب زیادہ حوصلہ مند ہوں گے اور وہ اہلکار جو دیانت اور خلوص کے ساتھہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنا چاہتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ہر اصلی اور جعلی بڑا آدمی قانون کی دسترس سے بالا ہوجائے گا' صوبہ سندھ تو اس آگ میں جل رہا ہے افسوس ہے پنجاب میں بھی اس کا آغاز ہونے کو ہے۔ اراکین اسمبلی نے جس جوش و خروش اور مکمل اتفاق اور ہم آہنگی کا مظاہرہ ایک رکن اسمبلی کے ساتھہ مبینہ زیادتی پر کیا ہے اس میں بھی تشویش کا یہ پہلو مضمر ہے کہ اس طرح من مانے فیصلے کروانا بہت آسان ہوجائے گا اور انتظامیہ کے اراکین اب بڑوں کے سامنے جی حضوریئے اور عوام کے ساتھہ فرعونئے کا کردار اختیار کرلیں گے ' سزا اور جزا کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ فریقین کو سنا جائے ایک فریق کو سن کر دوسرے کو سزا دینا ظلم و زیادتی کے مترادف ہے قاتل اور باغی کو بھی سنا جاتا ہے لیکن چالان کرنے کی کوشش کرنے والے کو اس بنیادی حق دیئے بغیر سزا دینا انصاف کا خون اور اس کے اس بنیادی حق کے خلاف ہے جو آئین اسے دیتا ہے۔

پنجاب کے تھانے بہت شہرت یافتہ ہیں وہاں معصوم بچیوں، بے گناہ خواتین اور بوڑھے مردوں کے ساتھہ جو کچھہ ہوتا ہے آئے دن اخبارات ان کی خبریں دیتے رہتے ہیں لیکن اسمبلی کے اراکین نے آج تک ان معاملات کے بارے میں پرزور آواز اٹھائی نہ متاثرین کے ازالہ کے لئے کبھی کوئی کوشش کی جبکہ ملک کا قانون، آئین اور دین سب یکساں حقوق اور مراعات دیتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کے قیام میں جتنی قربانیاں عام اور غریب لوگوں نے دی ہیں مراعات یافتہ اور اونچے طبقہ نے اس کا عشر عشیر بھی اس کے لئے نہیں کیا ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ملک کسی خاص طبقہ کے لئے نہیں قائم ہوا اس میں تو غریبوں اور مظلوموں کا حق زیادہ ہے اس لئے کہ جو شخص مظلوم ہے وہ تو خلیفہ وقت کے سامنے بھی قوی تر تھا ' اراکین اسمبلی کے اس قدم سے یہ امید البتہ بندھی ہے کہ وہ عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے اور معمولی دیہاتی پر ظلم کے خلاف بھی اسی طرح ایک آواز ہوجائیں گے تاکہ کوئی حکومت زیادتی کی اجازت دینے کے قابل نہ رہے۔

وزیر اعلٰی پنجاب کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ "اس افسوسناک واقعہ میں صرف اس اے ایس آئی کا ہی قصور نہیں بلکہ آرگنائزیشن کی تربیت کا قصور ہے" لیکن آرگنائزیشن کے ڈھانچہ اور اس کی بنیادوں کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری تو حکمرانوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ ہمیں آزاد ہوئے 44 سال ہونے کو آئے لیکن ہم نے کسی بھی ادارہ یا آرگنائزیشن میں اس بنیادی تبدیلی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جو ایک آزاد، خودمختار اور اسلامی مملکت کا تقاضا ہے ' یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ برسراقتدار آنے والی حکومت ہر ادارے کو اپنے جماعتی یا گروہی مفادات کے لئے استعمال کرنے ہین پر اکتفا کرتی ہے یا پھر اپنی پیشرو حکومتوں کو تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار قرار دے کر خود کو بری الذمہ سمجھنے لگتی ہیں ' یہ خطرناک رجحان ہے جس میں فوری اور یکسر تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ہر سطح کے سرکاری ملازمین کی سوچ میں ایسی تبدیلی لانی ہوگی جو مسلم معاشرہ کے شایان شان ہو۔ قائد اعظم نے 25 مارچ 1948ء کو سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ "مجھے معلوم ہے کہ قدیم روایت ، قدیم ذہنیت، قدیم نفسیات ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور ان سے نجات پانا آسان نہیں لیکن اب یہ آپ کا عین فرض ہے کہ اس وزیر یا اس وزارت کی خفگی مول لیکر بھی جو آپ کے فرائض کی انجام دہی میں مداخلت کرتا ہے، عوام کے لئے خادم کی حیثیت میں کام کریں" بابائے قوم کا یہ پیغام سیاستدانوں کے لئے بھی ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کے ڈھانچہ کو بدلیں اور دیانتدار انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

ہمارے ذہن میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کا واحد سبب قانون کا دہرا معیار اور معمولی باتوں کو نظر انداز کرنا ہے' اب لوگوں کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ قانون صرف طاقتور ہی کا ساتھہ دیتا ہے تو پھر ہر شخص طاقتور بننے کی کوشش میں کلاشنکوف سے مسلح ہوتا ' گروہ بناتا ہے اور بینک ڈکیتیوں کے ذریعہ دولتمندوں میں شامل ہوکر قانون کو اپنے پاؤں تلے کچل ڈالتا ہے ' طاقتور بننے کے شوقین حکمراں جماعتوں یا اعلٰی افسروں کی کاسہ لیسی کرکے بھی یہ مقصد حاصل کرلیتے ہیں ایسا معاشرہ زیادہ عرصہ کھڑا نہیں رہ سکتا وہ شکست دریخت کا شکار ہوکر جلدی زمین بوس ہوجاتا ہے۔

اس سے قبل چند برس پہلے ایک صوبائی وزیر کو ایئر پورٹس سیکورٹی فورس کے ایک جوان نے جب ممنوعہ علاقہ میں داخل ہونے سے اس بناء پر روک دیا تھا کہ ان کے پاس اس کا اجازت نامہ نہیں تھا تب بھی بڑا شور اُٹھایا گیا تھا اور اس سے بھی پہلے ملتان کے ہوائی اڈے پر ایک بزرگ سیاسی رہنما کی تلاشی لینے کی کوشش کی گئی تھی تب بھی بڑا واویلا مچایا گیا تھا ' اب بھی کسی کو وی آئی پی لاؤنج وغیرہ میں جانے سے روکا جاتا ہے تو شور مچتا ہے حالانکہ قانون تو ہر شخص کی حفاظت کے لئے ایک ڈھال کے طور پر ہوتا ہے اس کی پابندی سے سب ہی کو فائدہ پہنچتا ہے اس لئے ملک کے عوام اور خواص سب کا فرض ہے کہ وہ ہوائی اڈوں، بس کے اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں، جلسے جلوسوں ، گلیوں اور سڑکوں ، مدرسوں اور مسجدوں، کارخانوں اور بازاروں ہر جگہ قانون کی پابندی کرکے خود کو محفوظ و مامون بنالیں لیکن اگر ہم نے اس کی خلاف ورزی کی تو یہ ڈھال کمزور ہوکر ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور ہم ہر لحاظ سے غیر محفوظ ہوکر رہ جائیں گے پھر ہم اصلاح احوال کرنا بھی چاہیں گے تو بھی نہیں کر پائیں گے اس لئے آج ہی ہم کیوں نہ پھنسی کو پھوڑا اور پھوڑے کا سرطان کی طرح ناقابل علاج بننے سے روک دیں۔

No comments:

Post a Comment