ہم پہلے مسلمان ہیں پھر کچھہ اور!
روزنامہ جسارت بدھ 5 جولائی 1989 ء
ایک قطعۂ اراضی، اس پر آبادی اور ہر قسم کے بیرونی تسلط سے آزاد اس آبادی کا حق حکمرانی، یہ تین عناصر ہیں جو ملک کر ایک مملکت کی تشکیل کرتے ہیں اور ان معنوں میں آج ڈیڑھ ، پونے دو سو ملک دنیا میں موجود ہیں ، لیکن پاکستان کو دنیا کے تمام ممالک میں اس لحاظ سے منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے کہ اس کی تشکیل تین کی بجائے چار عناصر کے ملنے سے ممکن ہوئی اور دراصل یہ چوتھا عنصر ہی اس کے لئے اولین عنصر اور جذبہ محرکہ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ عنصر ایک " نظریہ" ہے ۔ یہ نظریہ پاکستان جیسی مکمل نظال اسلام نافذ کرکے اسے عالم اسلام کیلئے مضبوط اور ناقابل تسخیر قلعہ وار دنیا کے لئے ایک مثالی مملکت بنایا جائے گا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظریہ ہی دراصل پاکستان کی روح ہے۔ اگر اسلام کو نظرانداز کردیا جائے یا اسے پس پشت ڈال دیا جائے تو پاکستان کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔ یہ اسلامی نظام کا نفاذ ہی تھا جس کی خاطر اس مملکت کے لئے ان علاقوں کے لوگوں نے بھی جو پاکستان میں شامل نہیں تھے۔ بے جگری کے ساتھہ اس کے لئے جدوجہد میں حصہ لیا اور اس کی راہ میں سب کچھہ قربان کردیا۔ اگر قیام پاکستان کا مقصد محض دنیا کے ملکوں میں ایک اور ملک کا اضافہ ہی ہوتا تو مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان قربانیاں دیکر خود کو کیوں تباہ و برباد کرنا گوارا کرتے لیکن اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سری نگر سے راس کماری تک اور چمن سے چٹاگانگ تک کے مسلمانوں نے ایک آواز ہوکر پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الھ الا اللہ کا نعرہ بلند کیا اور انہوں نے ایک قائد کی رہنمائی میں ایک ہی پرچم تلے اس کے لئے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ نظریہ ہی کی قوت کا مظہر ہے کہ انگریزوں اور کانگریسی قوتوں کو پاش پاش کرکے برصغیر کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن حاصل کرلیا۔
انسان اس وقت تک صحیح معنوں میں انسان کہلائے کا مستحق ہے جب تک وہ انسانی خصوصیات کا حامل رہتا ہے اگر وہ ان خصوصیات کو خود ترک کردے یا وہ ان سے کسی طرح محروم ہوجائے تو پھر وہ انسان کے سوا سب کچھہ بن نہ کررہ جائے گا۔ شاید اسی خیال کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
یا بقول جگر مرحوم
گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے
جس طرح انسان سے انسانیت کے خاتمہ کے بعد انسان کی افادیت اپنے معنی کھودیتی ہے بالکل اسی طرح پاکستان کی بنیادوں سے اگر اس کے نظریہ کو جدا کردیا جائے تو پھر اس ملک کے وجود کا کیا جواز باقی رہ جائے گا؟ اس لئے کہ آج کا پاکستان کل تک برصغیر پاک و ہند کا ایک حصہ تھا اس پر برطانوی راج مسلط تھا۔ ایک نظریے نے اسے ایک علیحدہ وطن کی حیثیت دی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی ہندو قیادت قیام پاکستان سے بھی پہلے سے یہ باور کروانے کی ناکام لیکن مسلسل کوشش کرتی آرہی ہے کہ اخلاقی ، سیاسی، تاریخی اور اقتصادی کسی بھی لحاظ سے ہندوستان کو تقسیم کرکے پاکستان کے قیام کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کانگریس کے لیڈروں کو نظریۂ پاکستان کی اہمیت اور قوت کا اندازہ آج کے پاکستان کے بہت سے دانشوروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر تھا اور اس کا ثبوت سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر بھارت کی وزیر اعظم کا یہ دعویٰ تھا کہ نظریۂ پاکستان کو ہم نے خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ حالانکہ اگر نظریۂ پاکستان فی الواقع غرق کردیا گیا ہوتا تو پھر مشرق پاکستان بنگلہ دیش نہیں بلکہ مغربی بنگال کے ساتھہ مل کر بنگال بن جاتا۔ یعنی بھارت کا ایک بڑا صوبہ اس لئے کہ دونوں حصوں کے لوگوں کی زبان ایک ہی تھی اور وہ صوبہ عرصہ تک ایک ہی رہا تھا۔ اس لئے مشرقی پاکستان کا بنگال کے بجائے بنگلہ دیش بننا تو انجہانی وزیر اعظم کے خیالات کے برعکس نظریۂ پاکستان کی حقانیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
تحریک پاکستان کے دوران کانگریس لیڈر جن میں چند بہکے ہوئے مسلمان بھی پیش پیش تھے۔ مسلمانوں سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا تم لوگ اپنے آباؤ اجداد کی ہڈیاں پاکستان لے جاؤ گے؟ کبھی کہا جاتا تھا کہ آگرہ تاج محل، دہلی کا لال قلعہ تو بھارت میں رہ جائیں گے کبھی بتایا جاتا تھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت نظام الدین اولیاء اور دیگر بزرگان دین کے مزارات تو بھارت میں رہ جائیں گے اب سب باتوں کا مقصد محض یہ تھا کہ مسلمانوں کو نظریہ سے دور کرکے انہیں اپنے آباؤ اجداد کی ہڈیوں اور بے جان تاریخی عمارتوں کی بھول بھلیوں میں پھنسا کر قیام پاکستان کو ناممکن بنادیا جائے لیکن مسلمان یہ سمجھہ چکا تھا کہ آباؤ اجداد کی ہڈیاں، بزرگوں کے مدفن اورتاریخی عمارتیں انہیں اپنے نظریہ سے نہیں ہٹا سکتیں۔ اس لئے کہ نظریہ اگر درمیان میں آجائے تو باپ بیٹے کو، شوہر بیوی کو اور بھائی بہن کو بھی بلاتامل چھوڑ دیتا ہے اور اسلام کی تاریخ تو ایسے توقعات سے بھری پڑی ہے یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ہاں جن افراد یا اقوام کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا وہ مرگھٹوں اور عمارتوں میں پھنسے رہتے ہیں ۔ اسلام کے پیروکار تو ان تمام باتوں سے بہت ہی بالاتر ہیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے اگر نظریۂ پاکستان کو غلط ثابت کردیا جائے یا اس نظریہ کو ختم کردیا جائے تو پھر پاکستان کی وجہ جواز کو بھی غلط ثابت کیا جاسکتا ہے یہاں اس نظام کو ختم کرنے کے بعد ہی اسلامی نظام حیات کے بجائے سیکولر(لا مذہبی) نظام رائج کرنے کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے اس لئے ہمارے دشمن تو شروع ہی سے ہیں کہ نظریۂ پاکستان کو کمزور کرکے ختم کردیا جائے لیکن ہمارے چند دوست بھی جن میں کچھہ ہمارے اپنے دانشور حضرات بھی شامل ہیں۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر دشمن کی اس کوشش میں شریک ہوگئے ہیں۔ پچھلے دنوں وفاقی وزیر تعلیم نے ارشاد فرمایا تھا کہ"
" پاکستانی جہاں کہیں بھی رہتے ہیں، کوئی زبان بولتے ہوں، ان کا رہن سہن اور معاشرت کچھہ کیوں نہ ہو وہ پہلے پاکستانی ہیں پھر مسلمان اور بعد میں سب کچھہ ہیں۔"
اس قسم کے بیان سے نظریۂ پاکستان کی نفی اور بانی پاکستان کی کھلی توہین ہوتی ہے۔ عام پاکستانی شہری بھی اگر یہ بات کہے گا تب بھی یہ بات غیر ذمہ دارانہ قرار دی جائے گی لیکن اگر وفاقی حکومت میں کسی ذمہ دار منصب پر فائز کوئی شخص یہ بات کہتا ہے تو یہ بہت ہی قابل اعتراض بلکہ قابل گرفت ہوگی۔ پاکستان کی بنیاد اور اس کے مقاصد کو سمجھئے ہمیں اپنے رہنماؤں کے خیالات اور ان کے افکار ہی سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔ اس لئے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، دانشوروں اور بالخصوص وزراء کا یہ فرض ہے کہ وہ کوئی بھی اہم بات کہنے سے پہلے اس غور کرلیں اور اگر ضرورت ہو تو زعمائے کرام کے فرمودات اور مکتوبات کا مطالعہ کرلیں۔ یہ بات کسی بھی پاکستانی شہری کو چاہے وہ کسی بھی اعلٰی یا ادنٰی مرتبہ پر فائز ہو ہر گز زیب نہیں دیتا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے اور اپنی بات کو منوانے کی خاطر لا یعنی اور بے سرو پا باتیں کرنے لگیں اور پاکستان کی تشریح توضیح میں وہ باتیں کہنے لگیں جو نظریۂ پاکستان سے متصادم ہو۔
پاکستان کے نظریۂ یا نظام حکومت یا خارجہ حکمت عملی کا یقین کرنے سے پہلے ہمیں قائد اعظم کی طرف رجوع کرنا چاہئے پھر ہمیں قائد ملت ٓخان لیاقت علی خان سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اس لئے کہ پاکستان کے پیچھے جو مقاصد کارفرما تھے وہ قائد اعظم اور قائد ملت سے زیادہ اور کوئی نہیں جانتا ویسے بھی یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اگر ہم پہلے مسلمان نہیں ہوتے تو پاکستان کا قیام کیونکر ممکن ہوتا۔ پاکستان بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس علاقہ کے مسلمان ایک خطۂ زمین پر اپنے دین کی حکمرانی قائم کرسکیں اگر ہم پہلے مسلمان نہ ہوتے تو پھر ہم کچھہ بھی ہوسکتے تھے ہم نہ تو پاکستان کے لئے جدوجہد کرتے اور نہ ہی اسکا کوئی جواز پیدا ہوتا۔ دیکھئے یہی بات قائد اعظم محمد علی جناح نے 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں اس طرح فرمائی تھی۔ " آپ خواہ کچھہ بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں آپ اول و آخر مسلمان ہیں۔" اس سے قبل مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں 8 مارچ 1944ء کو قائد اعظم نے فرمایا تھا: " مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے۔ وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔" اسی موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا۔ " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لئے جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسکی وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریز کی چال ۔ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔"
قائد اعظم کے دست راست اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان نے یہی بات ذرا زیادہ صاف اور واضح انداز میں بیان کردی ہے انہوں نے فرمایا تھا۔ " ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم پہلے مسلمان ہیں اس کے بعد پاکستانی ہیں جس دن ہم یہ بات بھول جائیں گے اسی دن پاکستان کا خاتمہ ہوجائے گا۔" خاتمہ ان معنوں میں کہ پاکستان کی اصلی روح اگر فنا ہوگئی تو پھر یہ بھی ایک عام ملک کی طرح کا ایک ملک ہوگا روح اور نظریہ سے خالی ایک زمین کا ٹکڑا جس پر چند کروڑ افراد بے مقصد زندگی گزار رہے ہوں گے۔ لیکن لاکھوں مسلمانوں نے ایسے پاکستان کے لئے قربانیاں نہیں دی تھیں وہ پہلے مسلمان تھے اور اپنے اس عقیدہ کو ثابت کرنا چاہتے تھے اسی لئے پاکستان حاصل کیا تھا ۔ انہیں پہلے پاکستانی بننا ہوتا تو وہ پہلے ہندوستانی بن کر بھی زندہ رہ سکتے تھے لیکن ہمیں یہ منظور نہ تھا اور نہ آئندہ ایسا منظور ہوگا۔
No comments:
Post a Comment