وزیر اعظم جونیجو بھارت کیوں جارہے ہیں؟

روزنامہ نوائے وقت بدھ 28 اکتوبر 1986ء

وزرائے خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو آئندہ ماہ بھارت جائیں گے وہ نگلور میں ہونے والی جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے پاکستان ، بنگلہ دیش ، مالدیپ، بھوٹان، سری لنکا اور بھارت اس تنظیم کے رکن ممالک ہیں اس قسم کی کانفرنس میں شرکت سے دوسرے ملکوں کے لیڈروں سے ملاقات کا موقعہ ملتا ہے جس سے ذاتی دوستی فروغ پاتی ہے اور یہی ذاتی واقفیت اور دوستی اختلافات کے خاتمے اور باہمی افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرکے پائیدار امن پر منتج ہوتی ہے سربراہ کانفرنس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر قسم کی کاغذی کاروائی تو وزارتی سطح پر مکمل کرہی لی جاتی ہے۔ اجلاس میں پیش ہونے والی قراردادیں فیصلے اور اعلامیے وغیرہ تو نچلی سطح پر پہلے ہی طے کرلئے جاتے ہیں سربراہ کانفرنسیں تو عموماً ایک رسمی تقریب ہوتی ہے لیکن ان کے ذریعے سربراہوں میں وفاقی رابطے قائم کرنے کا مواقع ملتے ہیں اور ان کی ذاتی ملاقاتیں غلط فہمیاں دور کرکے بہتر ماحول پیدا کرنے کا سب سے اہم طریقہ ہیں۔

بدقسمتی سے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس کے اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں لیکن آج کل یہ کشیدگی بہت پریشان کن حد تک بڑھ گئی ہے لیکن دوسری طرف خوش قسمتی سے تنظیم کے دوسرے تمام ممالک کے ساتھہ ہمارے بہت ہی قریبی اور خوشگوات تعلقات ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات خوش آئند قرار دی جاسکتی ہے لیکن جو شخص آج بھارت کی قسمت کا مالک ہے اس کا خاندانی پس منظر کے پیش نظر اور اس شخص کی ذاتی سیاسی سوجھہ بوجھہ اور تجربے کی روشنی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وزیر اعظم راجیوگاندھی معقولیت کا راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے اس لئے راجیوگاندھی کی سیاست کی بنیاد پاکستان دشمنی اور دھونس دھاندلی اور پڑوسیوں کے معاملات میں مداخلت سے بے جا رکھی گئی ہے بالخصوص پاکستان دشمنی کے مظاہرے میں تو راجیو گاندھی دیوانگی کی حد تک آگے بڑھ چکے ہیں ان حالات میں یہ ہیں کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا دورہ بہتری کے بجائے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مزید بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے لیکن اس مفروضہ کے برخلاف دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کے امکانات بھی تو روشن ہوسکتے ہیں۔ ہرحالت میں بہتری کی امید رکھنا اچھی بات تو ضرور ہے لیکن جونیجو راجیو یا ضیاء راجیو ملاقات کے بارے میں پرامیدی خوش فہمی ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ آخر اس مایوسی کی وجہ کیا ہے۔

آئیے ماضی قریب کے حالات و واقعات کا بالاختصار جائزہ لیتے ہیں دو سال قبل بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کے قتل پر صدر جنرل محمد ضیاء الحق ذاتی طور پر آخری رسومات میں شرکت کرنے اور راجیوگاندھی سے اظہار تعزیت کی غرض سے نئی دہلی گئے لیکن راجیوگاندھی نے جو اپنی ماتا کے قتل کے بعد وزیر اعظم بنادیئے گئے تھے صدر ضیاء الحق سے ملاقات کے موقعہ پر تمام اخلاقی قدروں اور سفارتی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متنازعہ مسائل کو چھیڑا ان مسائل میں پاکستان کا ایٹم بم اور امریکہ سے فوجی سازو سامان کی خریداری سر فہرست تھے یہی نہیں بلکہ امریکہ کے نائب صدر نے جب راجیوگاندھی سے تعزیت کے لئے ملاقات کی تب بھی پاکستان کو امریکی امداد پر اعتراض کیا حالانکہ ایسے موقعوں پر عام طور پر بہتر تعلقات کے قیام اور قریبی تعلقات پر بات کی جاتی ہے۔

مشرقی بنجاب میں حریت پرست سکھوں کی امداد اور ان کی پاکستان میں تربیت کا سہرا راجیوگاندھی پاکستان کے سر باندھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں حالانکہ کی کسی بھی لحاظ سے پاکستان اس اعزاز کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ پاکستان نے تو بھارت کو پیشکش تک کردی ہے کہ وہ پاکستان آکر جس جگہ کا چاہے معائنہ کریں اور تسلی کرلیں کہ ہم سکھوں کو تربیت نہیں دے دہے لیکن بھارت اس قسم کی کسی بھی پیشکش کا جواب دے کر اپنے الزامات کی ترید کا کوئی دستاویزی ثبوت مہیا کرنے کی غلطی کا مرتکب نہیں ہونا چاہتا۔

بھارت ڈھٹائی کے ساتھہ سری لنکا کے باغیوں کی کھلم کھلا مدد کررہا ہے لیکن اس سلسلے میں بھارت کی قیادت نے پاکستان کو یہ کہہ کر ملوث کرنے کی مذموم کوشش کی کہ پاکستان سری لنکا کو فوجی امداد دے رہا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم ایٹم بم بنانے کے سلسلے میں پاکستان کی اعلٰی ترین سطح سے بار بار کی تردید کے باوجود مسلسل اپنے الزام کو دہراتے چلے جارہے ہیں حالانکہ پاکستان نے بحر ہند کے علاقے کو ایٹم سے آزاد علاقہ قرار دینے کے معاہدے کی بارہا پیشکش کرچکا ہے اور خود بھارت اس قسم کی تجویز کو ماننے سے انکار کرتا رہا ہے اسی طرح پاکستان امریکہ سے محدود تعداد میں چند فوجی طیارے اور تھوڑی سی مقدار میں دوسرا سازوسامان خرید رہا ہے تو بھارتی قیادت مسلسل واویلا مچاکر اور امریکہ پر دباؤ ڈال کر اس خریداری کو بھی رکوانے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے جبکہ خود بھارت بھاری مقدار میں جدید ترین ہتھیاروں کے انبار لگائے جارہا ہے۔ روس، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ امریکہ تک سے بھارت ہر قسم کے ہتھیار خرید کرجمع کررہا ہے لیکن پاکستان کے خلاف اپنی فطری خباثت کے مظاہرے سے باز نہیں آتا چین کی طرف سے حملے کے بہانے آخر اپنی بحریہ میں جدید ترین آبدوزوں اور طیارہ بردار جہازوں کی شمولیت کا کیا جواز ہے کیا بھارت یہ آبدوزیں اور جنگی ہمالیہ کی ترائی میں استعمال کرے گا امریکی وزیر دفاع کے دورۂ بھارت کے بعد جدید ترین ٹینک شکن میزائل کے بھی بھارت کو ملنے کی امید ہوچلی ہے دہشت گردی کو کائی واقعہ 7یا 6 اکتوبر کو راج گھاٹ پر راجیو گاندھی پر قاتلانہ حملہ کا شاخسانہ بھارت آزادی بلکہ بے مروتی کے ساتھہ جس بات کا چاہے الزام پاکستان کے سرمنڈھ دیتا ہے قاتلانہ حملہ میں کسی دوسرے کو ملوث کرنے کا واقعہ تو پوری تاریخ انسانی میں شاید ہی ملے گا لیکن بھارت کی موجودہ قیادت اپنی نااہلی اور عوام پر ظلم کی پردہ پوشی کے لئے تمام تر مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو گردان کر خوش ہوجاتی ہے۔ لیکن اب تو بھارت کے عوام بھی معاملات کی اصلیت کو سمجھنے لگے ہیں۔

ہرارے میں گزشتہ ہونے والی غیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ممالک کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھارتی اخبارات نے یہ خبر دی تھی کہ تنظیم کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین راجیو گاندھی نے جس استقبالیہ کا انتظام کیا تھا اس میں صدر ضیاء الحق کے لئے جو نشست مخصوص کی گئی تھی وہ کسی بھی سربراہ مملکت کے شایان شان نہیں تھی لیکن صدر ضیاء الحق نے ہمیشہ کی طرح ان باتوں کو اہمیت نہیں دی اور اپنی اعلٰٰی ظرفی کا مظاہرہ کیا اس سے قبل چار سال پہلے نئی دہلی میں جب غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس وقت انجہانی اندرا گاندھی اجلاس کی صدارت کررہی تھیں لیکن جیسے ہی تقریر کے لئے صدر ضیاء الحق کا نام پکارا گیا موصوفہ اٹھہ کر چلی گئیں اور اس طرح پاکستان اور اس کی قیادت کے خلاف اپنی روایتی مخاطبت کا مظاہرہ کئے بغیر نہ رہ سکیں جس خاندان کے افراد بین الاقوامی فورموں پر بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہوں ان سے کسی بھی قسم کی بہتری کی توقع رکھنے والوں کو دانشمند نہیں کہا جاسکتا ہے۔

جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے تعاون (SAARC) کی سربراہ کانفرنس جو گزشتہ سال دسمبر میں ڈھاکہ میں ہوئی تھی اس موقعہ پر تمام رکن ممالک نے ڈاک کے یادگار ٹکٹ جاری کئے تھے اور ٹکٹوں کی نمائش کا اہتمام ڈھاکہ میں کیا گیا تھا پاکستان کے ٹکٹ پر کشمیر کو متنازعہ علاقے کے طور پر رکھا گیا تھا لیکن بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے پاکستانی ٹکٹ کی موجودگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور نمائش میں شریک ہونے سے انکار کردیا بالآخر میزبان ملک نے نمائش سے پاکستان کے اس ٹکٹ کو ہٹادیا تو پھر راجیو گاندھی فاتحانہ انداز میں اس نمائش کو دیکھنے تشریف لے گئے ۔ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور ایجنڈے کے مطابق بھی متنازعہ علاقے کو واضح طورپر دکھایا تھا لیکن بھارت کے اعتراض کے جواب میں پاکستان کی طرف سے کسی قسم کے احتجاج کی خبر نہیں ملی جو ایک مجرمانہ غفلت ہی قرار دی جائے گی۔

دسویں ایشیائی کھیلوں کے افتتاح کے موقع پر بھارت کا جو نقشہ دکھایا گیا اس میں کشمیر کو متنازعہ علاقے کی حیثیت سے دکھایا گیا لیکن بھارت نے اس پر سخت احتجاج کیا اور منتظمین کو خبردار کہا کہ اگر اس نقشہ کو بدلا نہیں گیا تو بھارت کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں شریک نہیں ہوگا یہاں بھی پاکستان عوام کو یہ دیکھہ کر ذلت کی حد تک مایوسی ہوئی کہ پاکستان نے بھارت کے احتجاج کے جواب میں ایک لفظ تک کہنے کی جرأت نہیں کی یہاں سوال صدر مملکت محمد ضیاء الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی ذاتی شرافت اور اعلٰی ظرفی کا نہیں سوال قوم کے وقار اور ملک کی آزاد اور خود مختار حیثیت کے منوانے کا ہے اس سے قوم اپنے قائدین سے بجا طور پر امید رکھتی ہے وہ ذاتی انکساری کو قومی تذلیل کا ذریعہ بننے دیں۔

گزشتہ سال دسمبر میں جنرل محمد ضیا الحق نے بھارت کا مختصر دورہ کیا تھا اس موقعہ پر وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اپریل، مئی میں جوابی دورہ کرنے کی دعوت قبول کرلی تھی لیکن بھارت کے وزیر اعظم بڑھتے ہوئے داخلی معاملات میں اپنی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے کر مختلف حیلے بہانے بنا کر دورے کو مسلسل ملتوی کئے جارہے ہیں۔

ہمیں بھارت سے دوستی تو مقصود ہے کہ دوستی کی خاطر پڑوسی ملکوں کی ہر جائز اور ناجائز بات پر خاموش رہنا یا دہشت گردی کی سرپرستی کے الزام کی تردید کے طور پر بھارت کو پاکستان میں آکر تخصیص کی دعوت دینا یا اسلحہ کی خریداری پر اعتراض کے جواب میں یہ کہنا کہ بھارت جائزہ لے کر ہمیں نہیں بلکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے وقار کے منافی ہے ایسی پیشکشوں کے جواب میں دوستی کا نہیں بلکہ صرف غلامی اور زیردستی کا تحفہ ہی حاصل کیا جاسکتا ہے یہ حالات و واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ بھارت ہم پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے اور اس کی ایک دو ہماری وزارت خارجہ کے بقراطوں کی عدم مستعدی بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دن بدن ہم دبتے ہی جارہے ہیں۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے ہمیں تمام پڑوسی ممالک سے بالعموم بھارت سے بالخصوص قریبی اور دوستانہ تعلقات کے دل سے خواہاں ہیں عوام کی طرح پاکستان کی ہر حکومت نے بھارت کے ساتھہ اپنے تمام چھوٹے بڑے تنازعات کو طے کرکے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کرنے کے لئے کوشاں رہی ہیں لیکن اس علاقے کے عوام کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ پاکستان تمام تر کوششوں کے باوجود بھارت کی قیادت کو امن اور دوستی کی راہ پر گامزن ہونے کی اہمیت تسلیم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ جنگ کی ہولناکی کو تصور بہت مشکل ہے لیکن غلامی جنگ سے بھی زیادہ ہولناک ہوتی ہے جو قومیں غلامی پر موت کو ترجیح دیتی ہیں حیات جاوداں ان کا مقصد ہوتی ہے۔

ان حالات و واقعات کی روشنی میں سارک کی سربراہ کانفرنس میں وزیر اعظم جونیجو کے دورے سے مثبت نہیں بلکہ منفی نتائج برآمد ہوں مانا کہ جونیجو صاحب راجیو گاندھی کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بات پر یقین کرنے کی کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کو نہ ایٹم بم بنانے کی یقین دہانی پر شک ہے نہ انہیں امن اور دوستی کے لئے پاکستان کے ارادوں پر شبہ راجیو گاندھی کو یہ بھی یقین ہے کہ پاکستان میں سکھوں کو کسی قسم کی نہ تو تربیت دی جارہی ہے اور نہ ہی ان کو امداد وہ خوب سمجھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ طیارے کو دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑانے کے سلسلے میں پاکستان کی کوششیں پرخلوص رہی ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ 2 اکتوبر کو ان پر قاتلانہ حملہ کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ تو اپنی اقوام کو شتر مرغ کی طرح حقیقی مسائل کے بجائے پاکستان کا ہوا کھڑا کرکے اپنی نااہلیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے اور اپنے بپھرے ہوئے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کا ایک حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ اٹھتے بیٹھتے پاکستان پر الزام تراشی انجہانی اندراگاندھی کی طرح راجیو گاندھی کے لئے بھی بھجن کی طرح ایک مقدس نغمہ کی حیثیت رکھتا ہے پاکستان دشمنی نہرو خاندان کا دھمر ہے اب وزیر اعظم جونیجو بھارت جا کر کیا ان کا دھرم بھرشت کرنا چاہتے ہیں اگر ایسی کوشش کی گئی تو الزام کی فہرست میں ایک نئے الزام کا اضافہ ہوجائے گا۔

تعلقات کے مسلمہ بین الاقوامی اصولوں اور سفارتی آداب سے نابلد بھارتی حکومت سے یہ بھی امید نہیں ہے کہ وہ وزیر اعظم جونیجو کی توہین کا ارتکاب بھی کرلیں یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت کانفرنس کے انعقاد سے چند روز پہلے یا عین موقعہ پر اعلان کرے کہ موجودہ حالات میں بھارت جناب جونیجو کے استقبال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ میں چونکہ پاکستان ملوث ہے اس لئے عوام مشتعل ہیں اس لئے پاکستان کے وزیر اعظم کی حفاظت کی ذمہ داری قبول نہیں کی جاسکتی یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت کی قیادت کے توہین آمیز رویئے کی بناء پر وزیر اعظم پاکستان کو کانفرنس ادھوری چھوڑ کر ہی احتجاجاً پاکستان آنا پڑے اگر اسی قسم کی کوئی صورتحال پیدا ہوگئی تو یہ پاکستان اور بھارت ہی کے لئے نہیں بلکہ پورے علاقے کے لئے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔

پھر یہ بھی ایک روایت رہی ہے کہ جس ملک میں کسی قسم کی سربراہ کانفرنس ہوتی ہے اس ملک کی طرف سے رکن ممالک کو رسمی دعوت دینے کے لئے وہاں سےوفد آتے ہیں لیکن بنگلور میں ہونے والا آئندہ ماہ کی کانفرنس کے سلسلے میں بھارت سے کسی وفد کے پاکستان آنے کی اطلاع تادم تحریر نہیں ملی ہے ان تمام حالات کا تقاضا ہے کہ وزارت خارجہ وزیر اعظم پاکستان کے دورۂ بھارت کے تمام پہلوؤں کا ازسر نو جائزہ لے کرفیصلہ کرے اور قوم کو بھی ان تمام خدشات کے سلسلے میں اعتماد میں لے تاکہ عوام کو یہ معلوم ہوسکے کہ وزیر اعظم جونیجو کی جان اور عزت پوری طرح محفوظ رہے گی اور یہ کہ اس دورے کے منفی نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment