امریکہ کی اصول پسندی!

روزنامہ ایکسپریس بدھ 14 نومبر 2001ء

ساری دنیا کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے کہ آج صرف امیکہ ہی وہ واحد ملک ہے جسے آزادی، جمہوریت، امن و سلامتی، عدل و انصاف اور انسانی حقوق سب سے زیادہ عزیز ہیں اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ، دہشت گردی کی کاروائیاں، منشیات کا فروغ ، بچوں کی مشقت، خواتین کی تذلیل اور مذہبی رجحانات سخت ناپسند ہیں۔ اپنی اس پسند و ناپسند کا مظاہرہ وہ وقتاً فوقتاً کرتا رہتا ہے۔ امریکہ کی اس اصول پسندی سے جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں پاکستان نمایاں ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بھی ذکر ہمیں 11 ستمبر سے پہلے تک محدود رکھنا ہوگا اس لئے کہ اس کے بعد تو دنیا ہی بدل کر رہ گئی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ 11 ستمبر سے چند گھنٹوں قبل تک امریکہ اس الزام کو بڑی شد و مد سے دہرارہا تھا کہ چین نے پاکستان کو میزائل فراہم کئے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے اس قسم کی باتوں کے پس پردہ اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کا منصوبہ ہوتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو پاکستان میں منتخب حکومت کی جگہ فوجی حکومت برسر اقتدار آنے پر بھی ہم پر پابندیاں لگادی گئی تھیں م دولت مشترکہ سے رکنیت معطل کرکے کئی مراعات سے محروم کردیا گیا تھا۔ قبل ازیں مئی 1998ء میں بھارت کے جواب میں پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے پڑے تو گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا اور امریکہ نے دل کھول کر ہم پر پابندیاں لگادیں۔ برطانیہ، جاپان اور دوسرے کئی ممالک کو بھی امریکہ کی تقلید میں ایسا ہی کرنا پڑا۔ امریکہ کے اشارے پر عالمی مالیاتی اداروں نے دیئے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لئے دباؤ میں اضافہ ہوگیا۔ ہم کئی بار نادہندہ قرار دیئے جانے سے بچے۔ ہماری تجارت اور صنعت کو تباہ کردینے کے لئے بھی اقدامات کئے گئے۔ یہ سب ایٹمی دھماکے کرنے کا شاخسانہ تھا۔ ہمارا پران حلیف اور اتحادی امریکہ کبھی " اسلامی بم" کی موجودگی، میزائلوں کی تیاری، شمالی کوریا سے خفیہ تعلقات کے من گھڑت الزامات لگا کر بھی مختلف پابندیوں سے نوازتا رہتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ افغانستان سے روسی افواج کا انخلا جیسے ہی یقینی ہوگیا، امریکہ نے آنکھیں پھیرنے میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی نہیں کی اور پاکستان پر سخت اقتصادی اور فوجی پابندیاں لگادیں۔ امریکی مقنّنہ میں قانون سازی کو بہانہ بنا کر رقم وصول کرنے کے باوجود ایف 16 طیارے دینے سے انکار کردیا۔ یہ سلوک ایک پرانے حلیف کے ساتھہ جائز رکھا گیا۔

امریکہ نے ہم سے رمزی یوسف اور ایمل کانسی سمیت جس پاکستانی باشندے کو طلب کیا ہم نے انہیں پاکستانی عدالت سے اجازت حاصل کئے بغیر نہ صرف امریکہ کے حوالے کردیا بلکہ پاکستان کے حکمرانوں نے ایک اور پاکستانی باشندے ایاز بلوچ کو بھی امریکہ کے حوالے کرنے میں قومی غیرت اور خود مختاری کو آڑے نہیں آنے دیا۔ ایاز بلوچ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ کا ایک ملازم تھا جسے پاکستان کے خلاف گھناؤنے جرم پر طویل قید کی سزا دی گئی تھی لیکن جب پاکستان نے امریکہ سے اپنے وہ مجرم طلب کئے جو قومی خزانے کے کروڑوں روپے لوٹ کر سوئٹزر لینڈ، برطانیہ اور امریکہ منتقل کرنے کے مجرم تھے تو امریکہ نے پہلے ہمارے اس مطالبے پر تمسخر اڑایا اور اپنے طریقہ کار کے مطابق صرف ایک مطلوب ملزم منصور الحق کو حوالے کرنے پر رضامند ہوا لیکن امریکی عدالت میں ان پر ملزم ثابت کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی گئی۔ پاکستان نے امریکی عدالت میں ملزم کے خلاف ثبوت اور شواہد پیش کئے جس کے بعد اسے ہمارے حوالے کیا گیا۔ اس سے پہلے پاکستان کے خرچ پر امریکن ماہرین اسلام آباد آئے اور انہوں نے متعلقہ حکام کو تربیت دی کہ تحویل مجرمین کی درخواست دینے کا طریقہ اور تقاضے کیا ہیں۔

پاکستان پر امریکی عنایات کا سلسلہ بڑاطویل ہے۔ کبھی بچوں سے مشقت لینے کا الزام لگا کر پاکستانی قالینوں کی تجارت بند کی گئی اور کبھی کھیلوں کے سامان کی اپنے ملک میں درآمد پر پابندی لگائی گئی۔ عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط اور ناجائز مطالبوں کے ذریعے پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ پیڑول سے لے کے مٹی کے تیل ، بجلی ، گیس مختلف کرائے اور غذائی اجناس کی قیمتیں تک عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے مقرر کرنے لگے۔

ذرا اور ماضی میں جاتے ہیں تو 1971ء میں امریکہ اپنے " دوست" پاکستان کے دشمن بھارت کے ساتھہ کھڑا نظر آتا ہے۔ 1965ء میں بھارت کی جارحیت کے موقع پر امریکہ نے پاکستان کے ہتھیاروں کے ساتھہ فاضل پرزوں کی فراہمی بند کرنے میں بڑی تیزی کا مظاہرہ کیا۔ اس وقت ہمارے پاس تقریباً ہر قسم کا جنگی سازو سامان امریکہ ہی سے خردیا گیا تھا۔ دوسری طرف روس اپنے حلیف بھارت کی عملی مدد کرتا رہا بلکہ 1971ء میں تو روس اپنے پورے سامان حرب کے ساتھہ بھارت کی پشت پر بلکہ شانہ بشانہ شریک تھا۔ امریکہ نے نہ صرف خود ہماری ترقی اور استحکام کی راہ روکی بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی ضروریات اور سہولتوں کے حصول میں رکاوٹیں ڈالیں۔ فرانس سے ایٹمی بجلی گھر کے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کا واحد ذمہ دار امریکہ ہے۔ ہمارے ماہرین معاشیات یہ بتا سکتے ہیں کہ "امداد" (Aid) کے نام پر جو کچھہ بھی سامان امریکہ سے خریدتے رہے وہ دوسروں کے مقابلے میں مہنگے داموں دیا گیا یہاں تک کہ ایف 16 طیارے معاہدے کے برخلاف ہمیں ضروری آلات اور سازو سامان کے بغیر ہی دینے کی کوشش کی گئی لیکن بروقت اس مربیانہ حرکت کا پتہ چل جانے پر یہ طیارے لینے سے انکار کردیا گیا۔

اب ہم 11 ستمبر کے بعد کے حالات و واقعات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دنیا یکسر بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ شاید ہم کوئی سہانا خواب دیکھہ رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے کئی ممالک کے قائدین قطار اندر قطار اسلام آباد آکر صدر پرویز مشرف سے ملاقات کا شرف حاصل اور " دہشت گردی" کی حمایت کرنے پر ان کا خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ یہی نہیں امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے وہ تمام پابندیاں ہٹالی گئی ہیں جو کسی جواز کے بغیر ہم پر عائد تھیں۔ ہماری مدد کے لئے خزانوں کے دروازے کھولنے کے وعدے کئے جارہے ہیں ، قرضوں کی ادائیگی میں رعایتوں کا اعلان اور نرم شرائط پر قرضوں کی پیشکش ہورہی ہے۔ جو غیر ملکی قائدین پاکستان آنے میں دیر کررہے ہیں یا جن کا آنا مشکل ہے وہ ٹیلی فون کے ذریعے ہی پاکستان کے صدر سے بات کرنے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔ کہاں تو صورت حال یہ تھی کہ مارچ 2000ء میں اس وقت کے امریکی صدر بھارت جانے کے لئے بے چین اور پاکستان کی سرزمین پر وہ قدم رکھنے میں عار محسوس کررہے تھے۔ پاکستان کی قیادت کی کوششوں سے کلنٹن پاکستان تو آئے لیکن صرف چند گھنٹوں کے لئے اور اس میں بھی انہوں نے حکومت کو دھمکیاں دینے اور پاکستان کی قومی ٹیلی ویژن سے پاکستانی قوم کو نصیحتیں کرنا ضروری سمجھا بلکہ ستمبر کے آغاز میں یہ خبریں آرہی تھیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھارت کے وزیر اعظم جب نیویارک پہنچیں گے تو امریکی صدر ان سے ملاقات کے متمنی ہوں گے اور امریکہ، بھارتی وزیر اعظم سے اس ملاقات کا وقت لینے کے لئے بھاگ دوڑ کررہا تھا۔ دوسری طرف پاکستان کے سفارت خانہ کی سر توڑ کوشش تھی کہ امریکہ کے صدر پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف سے بھی مختصر ہی سہی ملاقات کرلیں۔ اب ایسی کایا پلٹی ہے کہ امریکی صدر پاکستانی صدر کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کرکے خوش ہورہے ہیں۔ ادھر برطانیہ بھی پاکستان کو دھمکیاں دیتے نہیں تھکتا تھا۔ اب خود وزیر اعظم اسلام آباد آکر صدر پاکستان سے ہنس ہنس کر ملاقات کررہے ہیں اور ہر قسم کے تعاون کا یقین دلارہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ پاکستان کو مستقل بنیادوں پر امداد کی یقین دہانی کروارہے ہیں اور ان کی سفیر یہ یقین دلانے کی کوشش کررہی ہیں کہ اب اس امریکہ، پاکستان کے سلسلے میں ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ امریکی وزیر دفاع پاکستان سے مشورہ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کبھی غلطی نہیں کرتا۔ وہ ہر کام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انجام دیتا ہے۔ پھر امریکہ کے اپنے اصول ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں آج کل فوجی حکومت ہےم اسلام مملکت کا مذہب ہے، یہاں اسامہ بن لادن اور افغان عوام کے ناحق قتل عام پر مظاہرے ہوتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود امریکہ اور برطانیہ پاکستان کو تمام پابندیوں سے آزاد کرکے اپنا اتحادی ، اپنا دوست اوراپنا حلیف قرار دے رہے ہیں تو کیا ضمانت ہے کہ اپنا مقصد حاصل کرتے ہی یہ ممالک دوبارہ آنکھیں نہیں پھیر لیں گے! ماضی میں پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرکے امریکہ ہمیں روس کے مقابلے میں لاچکا ہے۔ یہاں تک کہ پشاور سے پرواز کرنے والا جاسوس طیارہ جب روس میں گرالیا گیا تو امریکہ کو نہیں پاکستان کو دھمکی دی گئی تھی کہ اب اگر ایسا ہوا تو پشاور کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے ابھی سے پاکستان کو سبق کھانے کے لئے مواد جمع کرنا شروع کردیا ہے۔ اب کشمیر میں مجاہدین کی طرف سے کی جانے والی کاروائیوں کو مغربی ٹیلی ویژن پر تفصیل سے دکھانے جانے لگا ہے ۔ ادھر چین کے بعد دنیا کی سب سے بڑی منڈی بھارت تک رسائی حاصل کرنے کی امریکہ بڑی کوشش کرتا رہتا ہے، وہ ہمیں مسلسل دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ ہماری ایٹمی صلاحیت بھی بھارت کی طرح امریکہ کو بڑی کھلتی ہے۔ وہ بھارت کو اپنے بعد دوسری " سپر " طاقت کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1974ء میں بھارت کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد امریکہ یا کسی اور ملک نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن ہمارے تصوراتی اسلامی بم کی پاداش میں ہمیں مختلف نوعیت کی پابندیون میں جکڑ رکھا گیا۔ بہرحال پاکستان کے حکمرانوں کو امریکہ اور برطانیہ کے لچھے دار باتوں اور امداد دوستی کے وعدوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ یہ بات پاکستان کے مفاد میں ہے کہ ہم دھوکا نہ کھائیں۔ ویسے بھی امریکہ کی ضرورت ہے کہ اس کے ہتھیاروں کی کھپت نکلتی رہے، اس کی مصنوعات کے لئے منڈیاں ملتی رہیں۔ اب تک امریکہ کے ساتھہ ہمارے تعلقات کی نوعیت محض امریکی مفادات سے مشروط رہی ہے۔ جب بھی اس کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہماری ضرورت ختم ہوئی ، وہ دوسرا راستہ اختیار کرنے میں دیر نہیں کرے گا۔ اگر ہم نے فکر و تدبر اور ہوشیاری سے کام نہیں لیا تو ہم سنگین خطرات سے نہیں بچ سکیں گے۔ ویسے بھی

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مگ مفاجات

No comments:

Post a Comment