نیا سال جمہوریت کا پیامبر ہوگا؟
روزنامہ ایکسپریس بدھ 2 جنوری 2002 ء
لیجئےایک دن قبل اکیسویں صدی کا پہلا سال بھی داغ مفارقت دے گیا۔ نئے ہزاریے کا یہ سال شروع ہونے پر مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے آنے والے سال میں ترقی و خوشحالی اور سلامتی و بقا اور امن عالم کے لئے خصوصی دعائیں کی گئی تھیں۔ محبت و بھائی چارگی اور عالمی برادری میں باہمی تعاون کے جذبات کا اظہار کیا گیا لیکن شومیٔ قسمت اس سال بھی ایسے واقعات پیش آئے کہ جنگ و جدل، قتل و غارت گری اور وحشت و بربریت نے سیاہ دور کا انسان بنادیا۔ انسانیت کی ایسی تذلیل و تضحیک کی گئی کہ طاقت کے نشے میں انسان نعوذ باللہ خدا بن بیٹھے۔ گزرے سال کے بارے میں جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں۔ بین الاقوامی سطح پر جو واقعات پیش آئے ان سے حساس اور باشعور انسانوں کے سرشرم سے جھک گئے۔ ایسے واقعات جن پر آنے والے تاریخ اور نسلیں ہمیں مطمعون کرتی رہیں گی۔ جمہوریت، انصاف اور انسانی حقوق کے نام پر جو کچھہ کیا گیا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔
ماضی حال اور مستقبل کسی بھی قوم کے عروج و زوال اور ترقی و پسماندگی کا جائزہ لینے کے لئے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے حال کو بہتر بناتی اور نئی نسل کے بہتر مستقبل کے لئے موثر اور قابل عمل منصوبے بناتی ہیں۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے سال بھر کے واقعات کا تجریہ کرکے ناکامیوں کا تعین اور کامیابیوں کو مزید بہتر بنانے کے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
2002ء کی دہلیز پر کھڑے ہوکر آئیے پچھلے سال کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیں لیکن یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ جدید ایجادات خاص طور پر سیٹیلائٹ نشریات نے دنیا کو بہت مختصر کردیا ہے۔ کسی بھی ملک میں پیش آنے والے قومی واقعے یا حادثے سے دنیا چند منٹوں میں واقف ہوجاتی ہے۔ یہی نہیں کسی بھی ملک میں کوئی واقعہ اور حادثہ کسی نہ کسی ضرورت دوسروں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔
کویت پر عراق کا حملہ ہو یا عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بمباری، تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر حملے، سوڈان اور افغانستان پر امریکہ کے میزائلوں سے حملے ،چیچنیا میں آزادی کے متوالوں پر روس کی چڑھائی اور گروزنی کی مسلمان آبادی پر مظالم، افریقہ کے مختلف ممالک میں باہمی خوں ریزی، فلپائن میں مسلمان حریت پسندوں کے خلاف حکومت کی کاروائی، نیویارک اور واشنگٹن میں خود کش فضائی حملے، افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے میزائلوں سے بارش اور بمباری ایسے چند واقعات ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں لیکن مہذب کہلائی جانے والی دنیا نے ان کی وجوہ پر توجہ دینے اور ان کا ازالہ کرنے کے بجائے تشدد کا جواب تشدد اور دہشت گردی ختم کرنے کے لئے دہشت گردی پھیلانے کا طریقہ اختیار کرلیا۔
امریکہ جس دہشت گردی کو ختم کرنے کے دعوے کررہا ہے اس کی بیشتر اقسام خود اس کی پیدا کردہ ہیں۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ ناانصافی، ظلم ، غربت اور افلاس دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ کیا کسی بھی ملک اور قوم نے اس طرف توجہ دی 11 ستمبر کے واقعات کے بعد پوری دنیا خاص طور پر امریکہ نے انسان دوستی، آزادی اور حقوق انسانی کے وہ سارے لبادے اتار پھینکے جس کا وہ سالوں سے پروپیگینڈا کر رہا تھا۔ چین اور دنیا کے بعض دوسرے ممالک پر تنقید کرنے والی سپر پاور نے انسانی حقوق اسی طرح پامال کئے جس کی مثال نہیں ملتی۔
برصغیر کے حوالے سے گذشتہ سال کا سب سے اہم اور خوش آئند واقعہ بھارتی وزیر اعظم کو دعوت پر وسط جولائی میں صدر پاکستان کا دورہ بھارے تھا۔ دونوں ملکوں کے سربراہوں کے درمیان آگرہ میں مذاکرات بڑی حد تک کامیاب اور حوصلہ افزا تھے لیکن بھارتی کابینہ میں پاکستان دشمن انتہا پسند وزرا نے سمجھوتے پر دستخطوں میں رکاوٹ ڈال کر دونوں ملکوں کے عوام کو مذاکرات کے ثمرات سے محروم کر دیا۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اب اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ کسی وقت بھی فوجی محاذ آزادی شروع ہوسکتی ہے۔ حالات میں سخت کشیدگی دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ پر فلمائے جانے والے ایک المیہ ڈرامے سے مزیر بڑھی جسے 11 ستمبر کو نیویارک اور واشنگٹن پر خودکش فضائی حملوں اور اس کے جواب میں امریکی کاروائی کے پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔ اگر جولائی میں کوئی سمجھوتہ ہوجاتا اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہتا تو بھارت کی ایجنسیاں پاکستان کے خلاف سازش میں ناکام رہتیں۔
بھارتی قیادت اپنے عوام کو جنگ کے شعلوں میں جھونک کر سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو افغانستان میں امریکی مفادات بری طرح متاثر ہوں گے ۔ آج ساری دنیا امریکہ کے مفادات کے تابع ہے۔ ہوسکتا ہے پاک بھارت جنگ کی نوبت نہ آئے البتہ بھارت امریکہ کو بلیک میل کرکے پاکستان پر دباؤ کی پالیسی جاری رکھہ سکتا ہے۔ عام خیال تو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمراں امریکی دباؤ پر ملک کی سالمیت و خود مختاری اور عوام کے مفادات کا سودا نہیں کریں گے۔ البتہ امریکہ جس بددیانتی اورتھانیداری کا مظاہرہ کررہا ہے اس کے پیش نظر اور امریکہ کے اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے صورت حال واضح نہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کی رپورٹنگ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس میں پاکستانی فوج یا آئی ایس ائی کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے۔ ویسے بھی اگر بھارت ہوش مندی سے کام لے تو وہ الزام تراشیوں سے باز آکر اس خطے کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔
گذشتہ سال ہمارے ملک میں نچلی سطح پر اقتدار کی منتقلی سے فوجی حکومت نے بقول اس کے حقیقی جمہوریت کا آغازکیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلدیاتی انتخابات نچلی سطح پر جمہوریت کے لئے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ موجودہ حکومت کا یہ تجربہ کامیاب رہے گا یا ناکام ، یہ بات آنے والے وقت ہی بتا سکتا ہے۔ فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ " پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں" شہری حکومتوں کے اختیارات، ذمہ داریاں، فنڈز اور ان کے طریقہ کار کا تعین نہ ہونے سے یہ ادارے بظاہر معلق ہیں اور منتخب نمائندوں کی کوئی کارکردگی عوام کی نظر میں صفر ہے۔ نئے سال کے دسویں ماہ میں عام انتخابات کی یقین دہانی بھی کرائی جارہی ہے۔ حالات نازک ہیں ، تاہم نیک توقعات رکھنا انسانی فطرت ہے۔ خدا کرے نیا سال ہمارے لئے پائیدار جمہوریت کا پیامبر اور ملک کی ترقی و خوش حالی کا ضامن ثابت ہو۔
No comments:
Post a Comment