وعدے کسی کے بھی ہوں وعدے ہوتے ہیں
روزنامہ جنگ اتوار 30 جون 2002ء
پیر کو بھارتی وزارت خارجہ کی ترجمان نریما راؤ کا یہ بیان کہ "وعدے وعدے ہوتے ہیں قوموں کو وعدے کرنے کے بعد ان سے پھرنا نہیں چاہئے" جنرل پرویز مشرف نے پچھلے دنوں یہ کہا تھا کہ "انہوں نے امریکہ کا مستقل دراندازی کے خاتمے کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی بلکہ یہ کہا ہے کہ کنٹرول لائن پر کچھہ نہیں ہورہا۔" بھارتی ترجمان نے اسی کے پس منظر میں یہ بات کہی ہے جو یقینا بہت خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے اور اس سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اب تنازع کشمیر کے منصفانہ، باعزت ، پائیدار اور پرامن حل ہونے کا وقت بہت قریب آگیا ہے ہر پاکستانی کی یہ خواہش بھی ہے اور دعا بھی کہ ایسا جلد ہوجائے تاکہ دونوں ملک بدگمانی اور بداعتمادی کے عذاب سے نجات پاکر اچھے ہمسایوں کی طرح امن اور دوستی کے ماحول میں زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں لیکن اس منزل تک پہنچنے کیلئے اولین شرط یہ ہے کہ دونوں قومیں خلوص اور دیانتداری کے ساتھہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں کو ہر حال میں پورا کرنے کا عزم کریں۔ کوئی بھی ہوشمند انسان ان بنیادی اصول سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ قوموں کو وعدے کرنے کے بعد ان سے سرموانحراف نہیں کرنا چاہئے اس لئے تاریخ عالم میں وسیع پیمانے پر بستیوں کی تباہی و بربادی کا سبب قوموں کا ایفائے عہد پر کاربند نہ رہنا ہے۔ تاریخ اسلام میں تو محض ایک سپاہی کے کئے گئے وعدے کو نبھانے کی خاطر دشمن کو بڑی مراعات دیدی گئی ویسے بھی ہم مسلمانوں کا تو ایمان ہے کہ روز قیامت بندوں سے ان کے وعدوں کے بارے میں بھی باز پرس کی جائے گی لیکن بدقسمتی سے ایفائے عہد کے سلسلے میں ہمیں بھارت نے ہمیشہ ہر مایوس کیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ بھارے کھلے دل سے اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ ہر اچھی قوم نہ صرف اپنے کئے ہوئے وعدوں اور معاہدوں کو پورا کرتی ہے بلکہ اس کے بزرگوں کی طرف سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا اہتمام بھی کیا جاتا اہے۔ غیر عادل ، ظالم اور مغرور قوموں سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے بزرگوں کی غلطیوں کا ازالہ کریں گی۔ بہرحال بھارتی ترجمان کے محولہ بالا بیان کے بارے میں ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود ہمیں کسی قسم کی بدگمانی نہیں ہونی چاہئے اور اسی امید کے ساتھہ ہم بھارت کو یاد دہانی کی غرض سے چند ان وعدوں کو اس کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو اس کے بزرگ حکمرانوں نے صرف پاکستان ہی سے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا سے ایک بار نہیں بلکہ متعدد بار کئے لیکن انہوں نے نرسمہا راؤ کے برخلاف وعدوں کو وعدے نہیں بلکہ دھوکہ دہی کا بہترین ذریعہ سمجھا۔ ہم اپنا دائرہ محض کشمیر کے حل سے متعلق وعدوں ہی تک محدود رکھیں گے۔ اس لئے کہ اسے ام المسائل کی حیثیت حاصل ہے۔
جموں و کشمیر کے مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھہ یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ ریاست کی حالت کو جوں کا توں رکھے گا۔ بھارت کے ساتھہ الحاق کے ضمن میں جموں و کشمیر کے مہاراجہ کی طرف سے 26 اکتوبر 1947ء کو لکھے گئے خط کے جواب میں بھارت کے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ کو لکھا کہ " یہ حکومت کی خواہش ہے کہ کشمیر میں امن و امن کی بحالی کے فورا بعد ریاست کے الحاق کا فیصلہ عوام کی رائے سے کیا جائے گا۔" 31 اکتوبر1947ء کو بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے قائد ملت لیاقت علی خان کو تار کے ذریعے یقین دلایا کہ ا"امن و امان بحال ہوتے ہی ہم کشمیر سے اپنی فوجوں کو واپس بلالیں گے اور ریاست کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ریاست کے عوام پر چھوڑ دیں گے۔ یہ عہد محض آپ کی حکومت ہی سے نہیں بلکہ کشمیری عوام اور ساری دنیا سے ہے۔" 15 جنوری1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے بھارتی مندوب نے کہا کہ "معمول کی زندگی بحال ہوتے ہی کشمیر بھارت کے ساتھہ الحاق سے دستبردار ہونا یا پاکستان میں شامل ہونا یا آزاد رہنا چاہتا ہے اس کا فیصلہ کرنے میں کشمیر کے عوام مکمل آزاد ہیں" 21 اپریل 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد میں اعلان کیا گیا کہ "بھارت اور پاکستان دونوں کی خواہش ہے کہ جموں و کشمیر کا الحاق بھارت سے ہو یا پاکستان سے اس کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے عامہ کے ذریعہ کیا جانا چاہئے۔ اس لئے کہ یہی جمہوری طریقہ ہے نیز یہ بھی کہ جموں و کشمیر کے عوام کو ہر قسم کی تحریض و تخفیف سے آزاد ماحول میں استصواب میں اپنی رائے دینے کا موقع دیا جائے گا۔" دسمبر 1952ء میں اور اس کے بعد 1957ء میں بھی سلامتی کونسل نے پھر اس کا اعادہ کیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ عوام اپنی آزادانہ رائے کے ذریعہ ہی کریں گے اس سے پہلے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن اور وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرہ سمیت بھارت کے اعلٰی ترین سیاسی قادین نے 28 اکتوبر کے الحاق اور بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو جس کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل کی تھی قطعی عارضی اور وقتی انتظام تعبیر کیا ۔ ماہ اکتوبر اور نومبر 1948ء میں کئی مرتبہ پنڈت جواہر لال نہرو نے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو پیغامات بھیجے کہ حالات سازگار ہوتے ہی ہم کشمیر سے نکل جائیں گے لیکن بھارت کی قیادت نے پہلے تو اقوام متحدہ کے فیصلوں کی تعبیر کو بدلا اور اس کے بعد ان کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا۔ 1971ء میں بھارت نے ہمارے مشرقی بازو کو کاٹ دیا اور 95 ہزار فوجی اور شہری باشندوں کو قید کرلیا انہی مسائل کو حل کرنے کی غرض سے شملہ میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں کشمیر سمیت تمام معاملات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعہ پر امن طریقہ پر حل کرنے کا عہد کیا گیا جس کی بنیاد پر بھارت اب کہتا ہے کہ شملہ معاہدہ کے بعد اقوام متحدہ کا کردار ختم ہوگیا ہے لیکن اسی شملہ معاہدہ میں دونوں ملکوں نے سب سے پہلے عہد کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں اور مقاصد کو ہر فیصلہ پر فوقیت حاصل ہوگی ویسے بھی اگر شملہ معاہدہ ایسا ہی تریاق ہوتا تو اب تک کشمیر سمیت تمام تنازعات کا خاتمہ ہوجانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہو اصول طور پر بھی دو اور دو سے زیادہ قوموں کے درمیان کئے گئے معاہدوں پر فوقیت اقوام متحدہ کے فیصلوں اور ہدایت ہی کو حاصل ہے باہمی معاہدہ بین الاقوامی سطح پر کئے گئے کسی فیصلہ کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ ان حالات و واقعات کی روشنی میں بھارت کو چاہئے کہ وہ ماضی میں کی گئی وعدہ خلافیوں کو ازالہ کرکے خطہ کے سوا ارب انسانوں کو امن وسلامتی ، ترقی و خوشحالی اور دوستی کا ماحول فراہم کرنے میں مدد کرے۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ بھارتی ترجمان یہ سمجھہ لیں گے کہ صرف جنرل پرویز مشرف کے وعدے ہی نہیں بلکہ بھارت کی قیادت نے جو وعدے کئے تھے وہ بھی پورے ہونے چاہئیں۔
No comments:
Post a Comment