انتخابات، رائے دہندگان کی ذمہ داری

روزنامہ جنگ پیر9 اکتوبر 2002 ء

قیام پاکستان کے بعد ملک میں کئی عام انتخابات ہوچکے ہیں بلکہ 1985ء اور 1987ء کے درمیان 13 برسوں میں ہمیں 6 مرتبہ حکومتیں منتخب کرنے کا موقع ملا یعنی اوسطاً ہر ڈھائی سال بعد لیکن معلوم نہیں کیوں کسی بھی حکومت کو آئین کے تحت حاصل مدت کو پورا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بہرحال آج جب ہم اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس سال 10 اکتوبر کے انتخابات ماضی کے تمام انتخابات کے مقابلہ میں سب سے زیادہ اہم ہیں اوروہ اس لئے کہ اب سب سے پہلے ہمیں کبھی یہ خطرہ لاحق نہیں ہوا کہ کوئی بھی فرد یا پارٹی برسراقتدار آکر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہنچان کو ختم کردے گی۔ لیکن اب یہ ڈر ہے کہ جس پاکستان کی بنیادوں میں برصغیر کے لاکھوں بے گناہ مردوں، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو خون، ماؤں کی آہ و بکاہ اور بہنوں کی سسکیاں شامل ہیں اس ملک کو بابائے قوم سے چھین کر اس کی نسبت کسی صاحب کمال یا کسی اکبر اعظم سے نہ کردی جائے۔ اس خوف کا سبب یہ ہے کہ بدقسمتی سے ملک میں آج ایسی طاقتور قوتیں موجود ہیں جو اپنے مقصد کے حصول کے لئے سرگرم بھی ہیں اور انہیں ایسے ملکی اور غیر ملکی عناصر کی بھرپور مدد و تعان حاصل ہے جو پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہیں ایسے عناصر خوف زدہ ہیں کہ کہیں پاکستان کو قائد اعظم کے تصورات کے مطابق نہ ڈھال دیا جائے۔ اس لئے کہ اگر ایسا ہوگیا تو اس ملک میں ظالموں اور غاصبوں کا جینا حرام ہوجائے گا۔ بانی پاکستان نے اس مملکت خداداد کو اسلام کا قلعہ بنانے کا عزم کر رکھا تھا۔ انہوں نے صاف الفاظ میں قوم کو یہ بتادیا تھا کہ " ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزماسکیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اسلام کے اس قلعہ اور اسلام کی اس تجربہ گاہ کے خلاف ملک کے اندر اور ملک کے باہر گہری سازشیں کی جارہی ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار بھی غالباً ایسے ہی عناصر کے زیر اثر رہ چکے ہیں کہ انہیں ٹیلی ویژن سے ایک وقت کی اذان برداشت ہے نہ خبریں پڑھنے اور ٹیلی ویژن کے مختلف پروگراموں میں شرکت کرنے والی قوم کی بیٹیوں کے سرپر چادر اور بدن پر قرینہ کا لباس ہی گوارا ہے ۔ یقیناً ہر غیرت مند قوم کی طرح ہمیں بھی اپنے وطن عزیز کا تشخص انتہائی عزیز ہے اور اس لئے ہمیں جان، مال اور عزت آبرو کی نہیں بلکہ 10 اکتوبر کو اپنے " نفس " کی قربانی دینا ہوگی اور وہ اس طرح کہ ہم انتخابات میں اپنا حق رائے دہی لازمی طور پر استعمال کریں اور اگر ہم چاہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اچھے امیدواروں کو منتخب نہ کرسکیں البتہ ایسا کرتے وقت ہمیں دوستی، رشتہ داری ، برادری، علاقہ، نسل، زبان، خاندان، قبیلہ اور مسلک سے بالاتر ہونا ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ امیدوار کبیرہ میں ملوث ہونے کی شہرت نہ رکھتا ہو۔ جھوٹا اور بددیانت نہ ہو اور محب وطن ہو اس سلسلے میں سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ رائے دہندگان کس طرح معلوم کرے گا کہ کونسا امیدوار اس معیار پر پورا اترتا ہے لیکن یہ مشکل ہے ناممکن نہیں شرط صرف یہ ہے کہ ہم ایسا جاننا چاہیں اس لئے کہ جب ہم میں سے کوئی خود یا ہمارا کوئی عزیز خدانخواستہ بیمار پڑ جاتا ہے تو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے اچھے سے اچھا ڈاکٹر ڈھونڈ نکالا جائے اور ہم اس میں باآسانی کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح اگر خدانخواستہ کسی کو عدالت میں مقدمہ لڑنے کے لئے کسی وکیل کی ضرورت پڑجاتی ہے تو وہ بھی ایسے وکیل کو تلاش کرتا ہے جو اس کی پیروی بہترین اندازمیں کرسکے۔ اگر ہم معمولی سی کوئی چیز بھی خریدیتے ہیں تو اسے بھی خوب دیکھہ بھال کر لیتے ہیں۔ جب کہ انتخابات تو اپنے بھرے گھر کی چابیاں کسی کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ انتخابات کے ذریعے ہم حکمران منتخب کرتے ہیں جو معینہ مدت تک ہمارے ملک کے تمام وسائل کو اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنے کا اختیار حاصل کرتے ہیں۔ اگر ہم نے ارادی یا غیر ارادی طور پر بددیانت، نااہل امیدوار کو چاہے وہ ہمارا دوست ہی کیوں نہ ہو منتخب کرنے کی غلطی کرلی تو کم از کم پانچ برس تک پوری قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ ذاتی فائدہ تو وقتی اور عارضی ہوتا ہے جو کبھی کبھار سلاخوں کے پیچھے بھی لے جاتا ہے۔ ویسے بھی حقیقی فائدہ تو وہ ہے جو ہمارے وطن اور ہماری آئندہ نسل کیلئے مفید ہو۔ ہم گرمی، سردی، آندھی اورطوفان میں محنت کرتے ہیں تاکہ ہماری اولاد اچھی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔ اسے کھانے اور پہننے کو اچھا اور وافر مقدار میں مل سکے۔ ان کے لئے ایک مناسب گھر کا انتظام ہوسکے تو پھر ہمیں اپنی قوم کے لئے بھی ایسی ہی سوچ کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ہمیں قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچنا اور عمل کرنا ہوگا۔ پچھلے انتخابات میں ہم نے اپنے ذمے داری کا بھرپور ثبوت نہیں دیا جس کے نتیجے میں ہم بے روزگاری ، غربت، لاقانونیت، دہشت گردی، رشوت ستانی، کے عذاب سے نکلنے کے بجائے مزید اس میں پھنستے چلے گئے۔ آج ہم ملک کی خودمختاری جیسی نعمت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ قراں کریم کا فیصلہ ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں ان پر ان جیسے حکمران ہی مسلط کردیئے جاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم کسی تعصب اور مصلحت کا شکار ہوکر یا اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے اور نا اہل امیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب کروادیں گے تو ہم خود بددیانتی کے مرتکب قرار پائیں گے اور اس کے نتیجے میں ہم خود پر ظالم، غیر عادل، بددیانت اور نااہل حکمران مسلط کرلیں گے یاد رکھیں ووٹ قومی امانت ہے اور اس کا اس کے حقیقی مالک تک پہنچانا ہم پر فرض ہے۔ اگر ہم اس مرتبہ ہمت کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اچھے امیدواروں کو منتخب کرکے ہم ملک میں ایسی مثالی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوجائیں جو عوام کے جذبات و احساسات اور ان کی ضروریات اور ان کے مسائل کا پورا ادراک رکھتی ہو۔ جنہیں صرف پاکستان کی ترقی، خوشحالی، استحکام اور عزت و وقار عزیز ہو۔ اس مرتبہ اگر ہم نے آزمائشی ، استحکام اور عزت ووقار عزیز ہو۔ اس مرتبہ اگر ہم نے آزمائشی طور پر ہی اچھے امیدواروں کو منتخب کرلیا اور ایسے امیدواروں کو جو امامت، دیانت اور صداقت کے معیار پر پورے نہ اترتے ہوں رد کردیا تو اس لئے تو " انشاء اللہ" کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کہ ہم ترقی اور خوشحالی سے بہت جلد ہم کنار ہوجائیں گے اور اور ملک میں امن و سلامتی اور بھائی چارہ کا وہی سنہری دور لوٹ آئے گا جو چند عشروں قبل تھا۔

ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کون امیدوار تھانوں کچہریوں اور سرکاری دفتروں میں ہمارا کام کرواسکتا ہے بلکہ یہ دیکھیں کہ وہ امیدوار قوم اورملک کو کس قدر فائدہ پہنچا سکتا ہے، قوم کیلئے کتنا مخلص ہے، ایسا کرکے ہی ہم ملک میں اچھی اور مستحکم حکومت کے قیام یقینی بناسکتے ہیں۔ آئین میں ہرشہری کو ووٹ کے ذریعے اپنی حکومت منتخب کرنے کا اختیار دیا ہے اگر ہم اس حق کو صحیح طریقے سے استعمال کریں گے تو ملک میں ڈاکوؤں، لٹیروں، بھتہ خوروں، شرپسند عناصر اور دشمن کے ایجنٹوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کرکے ملک میں عدل و انصاف اور امن و سلامتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے کا مقصد ملک کی یکجہتی ، سالمیت، ترقی اور خوشحالی کے دور سے ہمکنار ہونا ہے۔ یاد رکھئے قومی اسمبلی کا کوئی امیدوار اگر سڑکوں ، گلیوں کو تعمیر و مرمت اور صفائی کے وعدے کرتا ہے تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ قومی اسمبلی کارکن منتخب ہونے کے بعد وہ شخص کسی ایک حلقہ ایک شہر اور ایک صوبہ کا نہیں وہ پوری قوم کا نمائندہ بن جائے گا۔ مقامی یا علاقائی سطح کے مسائل حل کرنے کے وعدے کرنے والا یہ جانتا ہی نہیں کہ اس کی ذمے داریاں کیا ہیں وہ قانون ساز ادارہ کارکن ہوتا ہے سڑکوں کی تعمیر اور صفائی وغیرہ کا کام شہری حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کا امیدوار اگر برادری ، علاقہ، زبان، نسل یا مسلک کی بات کرتا ہے تو وہ بھی اپنے فرائض اور اختیارات سے ناواقف اور اس منصب کے لئے نا اہل ہے۔ وہ کامیاب ہوکر پورے صوبے کا نمائندہ بن جائے گا جہاں مختلف زبان بولنے والے مختلف مذہب کے پیروکار اور مختلف زبان بولنے والے مختلف مسلک اور برادریوں کے لوگ آباد ہیں اسی لئے ہمیں خود بھی مقامی مسائل کے بارے میں ان سےسوال کرنا چاہئے نہ اس سلسلے میں ان پر دباؤ ڈالنا چاہئے ایسا کرکے ہم قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن کو یونین کونسل کے ناظم کی سطح پر لے آئیں گے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ قومی اسمبلی کے امیدوار سے ملک کے داخلی، خارجی، دفاعی اور اقتصادی حکمت عملی کے بارے میں ان کا نقطہ نگاہ معلوم کرنے کی کوشش کریں اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار سے صوبے کی سطح کے امور کے بارے میں سوال کریں۔ جب امیدواروں کے بارے میں ہمیں معلومات حاصل ہوجائیں تو پھر ہمیں چاہئے کہ سوچ سمجھہ کر اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق اپنے ووٹ کا ستعمال کریں اگر ہم ووٹ دیتے وقت بہک گئے یا کسی بھی قسم کی عصبیت کا شکار ہوگئے تو سمجھہ لیجئے کہ ہم اپنے اور اپنی نسل کے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مجرم قرار پائیں گے۔ اور ہم کسی بڑی مصیبت کا شکار ہوسکتے ہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس بار ہم اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا اہتمام کریں تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس کی رخ کے ساتھہ محفوظ و مامون بنایا جاسکے اگر ہم نے اپنی ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا تو پھر ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم حقیقی جمہوریت سے ایک طویل عرصے تک محروم کردیئے جائیں اور ملک آمریت کی گود میں چلا جائے۔ اس لئے ووٹ کی پرچی پر اپنی پسند کے امیدوار کے نام کے سامنے نشان لگاتے وقت قائد اعظم کا یہ فرمان بھی اپنے پیش نظر رکھئے کہ " آپ کا ووٹ قوم کی امانت ہے اسے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر استعمال نہ کیجئے۔"

No comments:

Post a Comment