بھارت سے دوستی کا تصور

روزنامہ جنگ جمعۃ المبارک 9 دسمبر 2005ء

بھارت کے ساتھ امن دوستی کی خاطر اپنے اصولی مؤقف اور بڑی حد تک قومی مفادات سے دستبرداری اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیشمار قربانیاں ہماری قومی اور عزت و وقار کی علامت کی بجائے ایسی کمزوری بن گئی ہیں کہ ہر ایرا غیرا بڑی سے بڑی گالی سے ہمیں نوازتے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا، خاص طور پر بھارت سے آنے والے ہمارے محترم اور مہربان دوست جن میں وزیر، سیاستدان ، صحافی، دانشور، وکیل، سماجی کارکن، تاجر، سرکاری اہلکار، فلمی ستارے حتی کہ ناچنے گانے والے بھی کبھی پاک بھارت سرحد کو نفرت کی دیوار قرار دے کر اسے تحلیل کرنے کی بات کرتے ہیں اور کچھہ ایسے بھی ہیں جو ان سرحدوں کو سرے سے تسلیم کرنے ہی سے انکار کردیتے ہیں۔ بھارت سرکاری سطح پر دہشت گردوں کی سرپرستی، ان کی تربیت اور سرحد پار ان کی دراندازی کا الزام لگانے سے آج تک باز نہیں آیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بھارتیوں کے اسی بڑے پن کو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ جو بھی کہنا چاہتے ہیں ہماری اپنی پاک سرزمین پر آکر وہ ہمارے کندھوں پر سوار ہوکر کہتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت گزارنے کے ساتھہ ساتھہ ہمارے سلسلے میں بھارت سرکار اور بھارتی عوام کے رویہ میں بڑی نمایاں تبدیلی آگئی ہے شروع میں ہر سطح پر اکھنڈ بھارت کی بات کھلم کھلا کی جاتی تھی اس وقت " ایک دھکا اور دو پاکستان توڑ دو" کا نعرہ وہاں بہت مقبول تھا جلسے، جلوسوں کی رونق بڑھانے اور اپنے دل کو بہلانے کی خاطر یہ نعرہ اکثر لگایا جاتا تھا لیکن اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان دن بند مضبوط ہوتا گیا یہاں تک کے اکھنڈ بھارت کا خواب چکنا چور ہوگیا اور دھکا دینے کی کوشش کرنے والوں کے ہاتھہ اور کندھے بھی ٹوٹنے لگے تو وہ سفارتکاری کی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے اور اکھنڈ بھارت کی بجائے مشترک تہذیب و ثقافت اور مشترکہ تاریخ کی بات کی جانے لگی، گو الفاظ و معنی میں کوئی تفاوت نہین لیکن آخر الذکر یعنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کو مشترک قرار دینے سے بے پایاں محبت اور الفت جھلکتی تھی یہی سبب ہے کہ پاکستان میں بھی چند ایسے نادان دانشور، مورخ، اور کالم نگار مل گئے جو بڑھ چڑھ کر ان خیالات کی تائید میں سامنے آگئے یہی نہیں بلکہ یہ لوگ یہ ثابت کرنے لگ گئے کہ قائد اعظم اسلام سے آزاد سیکولر پاکستان چاہتے تھے لیکن مولویوں نے ساز باز کرکے اس مملکت کو پہلے اسلامی اور پھر جمہوریہ قرار دلوادیا ایسا لکھنے ہوئے وہ اس کا جواب نہیں دیتے کہ سیکولر پاکستان کی وجہ ضرورت ہی کیا تھی؟ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں کیا گیا؟ ان کو ہجرت پر کیوں مجبور کیا گیا؟ کیوں مسلمان خواتین کی پنجاب میں وسیع پیمانے پر بے حرمتی کی گئی؟ محسوس یہ ہوتا ہے کہ سیکولر پاکستان کی بات کرنے والوں کو پختہ یقین ہے کہ وہ غلط ہیں لیکن غیر ملکی اور خاص طور پربھارتی ذرائع ابلاغ میں جگہ پانے کے شوق میں وہ ایسا لکھہ رہے ہیں۔ یہ بڑے دکھہ کی بات ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی بعض اوقات اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں وہ ہمارے قومی وقار کے منافی دیئے گئے بیانات کا جواب دینے کی بجائے وسیع پیمانے پر ان کی تشہیر کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ ہر پاکستانی بھارت کے ساتھہ دوستی اور تجارت کا خواہاں ہے۔ آمدورفت میں بھی سہولتیں ہونی چاہئیں۔ راقم الحروف کے ماموں، بھتیجے اور دیگر کئی عزیز و اقارب آج بھی بھارت کے شہری ہیں لیکن وہ آزاد ملکوں کے تعلقات برابری کی بنیاد ہی پر قائم ہونے چاہئیں۔ تنازع کشمیر کے سلسلے میں ہر بھارتی کہتا ہے کہ سرحدوں کی تبدیلی سے ماورا اس کا کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے لیکن جو بین الاقوامی سرحد ہے اسے ماننے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان کے حکمران جو چاہیں کہتے رہیں اس ملک کے عوام بھارت کی بالادستی تسلیم کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے اگر ایسا ہی کرنا ہوتا تو ہم ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی خاطر لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرواتے نہ لٹ پٹ کر ہجرت کرتے نہ ہماری بہو، بیٹیاں درندگی کا شکار ہوتیں۔ ہماری طرف دوستی کا ہاتھہ بڑھانے والوں کو اچھی طرح سمجھہ لینا چاہئے کہ پاکستان کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہوں یا چین سے ، افغانستان سے ملتی ہوں یا ایران سے ہر صورت میں یہ مقدس سرحدیں ہیں اس لئے کہ یہ کسی لادین یا سیکولر ملک کی نہیں ایسی مملکت کی سرحدیں ہیں جس کے قیام کا واحد مقصد اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خود بابائے قوم اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے واضح الفاظ میں بتادیا تھا کہ "میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھہ سکتا جو دیدہ و دانستہ اور شرارتاً یہ پروپیگینڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہوچکے ہیں یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی کوئی خوف اور ڈر نہیں ہونا چاہئے اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے ہر شخص سے انصاف، رواداری اور مساوی برتاؤ اسلام کا بنیادی اصول ہے۔"

No comments:

Post a Comment