حکومت کی تجویز کردہ آئینی ترامیم

روزنامہ جنگ اتوار 28 جولائی 2002ء

ہمارے آج کے حکمراں سجمھتے ہیں کہ ان کی تجویز کردہ قومی سلامتی کونسل ملک کی سیاسی، مالیاتی اور اخلاقی خرابیوں کیلئے تریاق ثابت ہوں لیکن انہیں اس حقیقت کا کھلے دل کے ساتھہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ترامیم کے پیکیج میں سب سے زیادہ مخالفت سلامتی کونسل ہی کی کی گئی ہے اور اس کا سبب اس کی مجوزہ ہیئت ترکیبی ہے۔ یہ کونسل چھہ سو بلین اور فوج کے پانچ نمائندوں پر مشتمل ہوگی جبکہ اس سے قبل آئین کو ختم یا معطل اور حکومتوں کو ختم کرنے کیلئے صرف بری فوج کے سربراہ ہی کی حمایت و تعاون درکار ہوتا تھا۔ گریجویشن کی شرط کے بارے میں تو صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ڈر ہے کہ فیصلے پر عملدآمد کے لئے فاٹا اور بلوچستان سمیت دیگر دیہی علاقوں کی نمائندگی کیلئے گریجویٹ درآمد کرنے پڑیں گے۔ اس شرط کو واپس لینے کیلئے سندھ پبلک سروس کمیشن کی 23 جولائی کو شائع ہونے والی اس رپورٹ نے بھی معقول جواز فراہم کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "تعلیمی ادارے ، پڑھے لکھے جاہل پیدا کررہے ہیں" مخصوص نشستوں کے ذریعہ خواتین کو اسمبلیوں میں لانا بھی یقیناً ان کی عزت افزائی نہیں جبکہ عورتیں براہ راست انتخاب لڑ کر منتخب ہوسکتی ہیں۔

پاکستان کی ہر پارلیمنٹ اور اسمبلی میں خواتین عام نشستوں سے مقابلہ کرکے کامیاب ہوتی رہتی ہیں امریکہ جیسے ملک تک میں بھی خواتین کی نشستیں مخصوص کبھی نہیں رہیں بلکہ یہ حسن اتفاق ہے کہ امریکہ کی موجودہ سینیٹ میں 13 اور ایوان نمائندگان میں 61 خواتین ہیں اور یہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ خواتین عام نشستوں پر انتخاب لڑ کر ہی ان دیوانوں میں پہنچی ہیں ملک کی سیاسی جماعتیں باہمی افہام تفہیم کے ذریعہ اگر چند نشستوں کیلئے خواتین ہی کو امیدوار بنانے پر اتفاق کرلیں تو یہ ایک صحتمند روایت بھی ہوگی اور خواتین کی احساس کمتری کا شکار بھی ہونے سے بچ جائیں گی۔ اراکین کی 33 فیصد خواتین اور لیکنو کریٹس کیلئے مخصوص کرنا پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کیلئے ہر گز لائق افتخار بات نہیں بلکہ نامناسب ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف اسمبلیوں کی مدت کو تو چار سال کرنا چاہتے ہیں مگر انہوں نے اپنی پہلی مدت صدارت سے پہلے ہی سے بڑھالی ہے۔ حکومت کے علم اور حکمرانی کے فن کے ماہر کو سیاستداں کہا جاتا ہے اس طرح صدر جنرل پرویز مشرف ، ان کی کابینہ کے اراکین اور مشیروں، سیاستدانوں کے زمرے میں شامل ہیں اس کے باوجود یہ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ فوجی اور سول اہلکار اور سیاستدانوں کو ڈاکو، لٹیرے، بدعنوان اور نااہل جیسے توہین آمیز القابات سے نواز کر اپنی حدود سے تجاوز کرتے نہیں تھکتے جبکہ آئین کے مطابق سرکاری ملازمین کو بھی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ویسے بھی سیاستدانوں کو ہدف تنقید بناتے وقت اس بات کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے کہ کسی ایک سیاستداں نے کبھی ملک کے آئین کو ختم یا معطل نہیں کیا ہے۔

موجودہ حکمراں ملک میں حقیقی اور پائیدار جمہوریت ، ذمہ دار اور باوقار پارلیمنٹ اچھی اور دیانتدار حکومت کے قیام کو یقینی بنانا چاہتے ہیں تو وہ ادھر ادھر سے نظریات عاریتاً لے کر خود پر تھوپنے کی کوشش کرنے کی بجائے وہ اس نسخہ کیمیا سے استفادہ کریں جو ہمارے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کی صورت میں موجود ہے۔ اگر ہم دیانتداری اور خلوص کے ساتھہ اس کو یقینی بنالیں کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کا ہر امیدوار ان دفعات میں پیس کردہ شرائط کی اہلیت پر پورا اترے گا تو یقین کے ساتھہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم مثالی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جنرل پرویز مشرف کو چاہئے کہ وہ آئینی ترامیم کے جھمیلوں میں پڑنے کے بجائے ان دفعات کی کار فرمائی کو سو فیصد یقینی بنالیں تو یہ ان کا ایسا تاریخی کارنامہ ثابت ہوگا کہ ہمیشہ انہیں یاد رکھا جائے گا اور ملک سیاسی عدم استحکام، جمہوریت کے جھٹکے، قومی دولت کی لوٹ مار، ہر قسم کی بدعنوانی، بدانتظامی اور لاقانونیت جیسی لعنتوں سے نجات پاکر نہ صرف ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہوگا بلکہ اقوام عالم میں ممتاز اور باعزت مقام حاصل کرے گا۔ ہمارے پیش نظر یہ حقیقت بھی رہنی چاہئے کہ پارلیمنٹ سے ماورا کسی بھی قسم کی ترمیم سے ایسی بری روایت قائم ہوجائے گی کہ حقیقی اور مستقل جمہوریت کے قیام کا نظریہ پنپنے ہی نہیں پائے گا اس لئے کہ جب بھی کسی طالع آزما کو موقع ملا وہ اس روایت کو مثال بناتے ہوئے من مانی آئین سازی کرلے گا اس سلسلے میں جمعرات 25 جولائی کو ریڈیو پاکستان کے ایک پروگرام میں مجوزہ ترامیم پر پینل گفتگو کے دوران صدر جرنل پرویز مشرف کے اس بیان سے بھی ان کے نظریہ کی نفی ہوتی ہے کہ "مستقبل میں آنے والی سیاسی حکومت کو ذاتی مفادات کیلئے مجوزہ آئینی پیکیج میں ترمیم کی اجازت نہیں دی جائے گی تاہم نیت ٹھیک ہوئی تو جائزہ لیا جاسکتا ہے۔" جب آپ قوم کے متفقہ آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کرنے جارہے ہو تو منتخب کو اس حق سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے۔ نیتوں کا حال صرف وہی "اللہ" جانتا ہے تو کون انسان ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ اسے نیتوں کا پتہ لگ سکتا ہے۔"

اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ غلام محمد، اسکندر مرزا ، جنرل ایوب خان ، جنرل یحیٰی اور جنرل ضیاء الحق ہی کو نہیں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے علاوہ غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری کو بھی ملک کا مخلص اور سنجیدہ طبقہ اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتا کہ کسی کے کھاتے میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور محلاتی سازشیں ہیں، کوئی آئین کو ختم کرنے یا اسے معطل کرنے کا ذمہ دار ہے اور کوئی قومی دولت کے لوٹنے کے ملزم ہیں اس لئے جنرل پرویز مشرف کو چاہئے کہ جہاں انہوں نے مارشل لا نہ لگانے، فوجی عدالتیں قائم نہ کرنے اور اخبارات کی آزادی پر قدغن نہ لگانے جیسی اچھی روایت قائم کی ہیں اب اگر وہ آئین میں ترامیم کے لئے آئین میں بتائے ہوئے طریقے ہی کو اختیار کرلیں اور آئندہ منتخب پارلیمنٹ کے سامنے اپنی تجاویز پیش کردیں تو یقیناً پوری قوم ان کے اس جذبہ کی قدر کرے گی اور پاکستان کی تاریخ میں وہ ایک اچھے فوجی حکمراں کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے ، ایسا کرکے وہ نہ صرف آئین کی پاسداری کا اپنا دعویٰ بھی سچ ثابت کردیں گے بلکہ ان کے اس عمل سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ وہ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے صحیح جانشین ہیں اس قائد اعظم کے جانشین جنہوں نے 14 جولائی 1947ء کو صحافیوں سے خطاب کے دوران فرمایا تھا۔" آپ پاکستان کے طرز حکومت کے بارے میں میری ذاتی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ دستور ساز اسمبلی جیسے بااختیار ادارے کے فیصلہ سے پہلے کوئی ذمہ دار شخص اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ کرنا چاہیئے۔ پاکستان کا دستور ساز اسمبلی کا کام ہے۔" فروری 1948ء میں امریکی عوام کے نام اپنے نشری پیغام میں بابائے قوم نے ارشاد فرمایا۔ "پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی مجلس آئین ساز بنائے گی مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی شکل کیا ہوگی لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل" ان ارشادات کے مطالعہ کے بعد کون پاکستانی ہوگا جو آئین میں آئین اور پارلیمنٹ کے ماورا کسی قسم کی ترمیم کو سوچے اس لئے ہمیں توقع رکھنی چاہئے کہ جنرل پرویز مشرف آئین میں ترمیم کا ارادہ ترک کرکے پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کی تیاری کریں گے۔

No comments:

Post a Comment