ساری دنیا کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے

روزنامہ جنگ پیر 9 اگست 2004ء

امریکہ نے عراق، ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو محور شر قرار دیا تھا ان میں سے عراق پر امریکہ قابض ہوچکا اور لیبیا نے تائب ہوکر امریکا کی خدائی تسلیم کرلی ہے۔ شمالی کوریا سے کسی نہ کسی زاویہ سے مذاکرات ہوتے رہتے ہیں اس طرح فی الحال ایران واحد ملک رہ گیا ہے۔ چند ماہ پہلے ایران کے ایٹمی پروگرام کا خوب چرچا ہے بڑے ماہرین وہاں گئے اور اس کی ایٹمی صلاحیت کی تصدیق کردی گئی۔ پھر ایران کے خلاف یہ بات سامنے لائی گئی کہ 11 ستمبر 2001ء کو امریکا میں حملے کرنے والے دہشت گردوں میں سے چند ایران کے راستے امریکہ پہنچے تھے یہ الزام اس کے باوجود لگایا گیا کہ مذکورہ افراد کے پاسپورٹوں پر ایران میں داخل ہونے یا وہاں سے جانے کا کوئی اندراج نہیں ہے۔ ایران کی یہ دلیل صحیح ہے کہ اتنی بڑی سرحد کو دوچار افراد کا غیر قانونی طورپر سرحد پار کرجانا کوئی ناممکن بات نہیں لیکن امریکی صدر کو انتخابات سے پہلے کسی ایک اور مسلم ملک کیخلاف صورتحال کو اس قدر گرما دینا ہے کہ امریکی عوام بش کو منتخب کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ عراق پر حملہ کے جواز کیلئے ان کی طرف سے فراہم کردہ حقائق کی نفی خود امریکا کے نمائندگان نے کردی ہے لیکن دونوں ملکوں کے حکمران آج بھی یہ دعوے کر رہے ہیں کہ عراق کیخلاف حملہ بہرحال جائز اور ضروری تھا ایسا کئے بغیر مشرق وسطٰی میں امریکا کا بیٹھنا ممکن بھی نہیں تھا، دراصل ہم مغرب کی اصطلاحات کو سمجھہ نہیں پارہے ہیں القاعدہ اور جہادیوں سے اس کی مراد باعمل مسلمان اور امریکا کی سرحدوں سے باہر امریکا کے تحفظ سے مراد اسرائیل کے تحفظ ہے اس طرح جب وہ افغانستان ، عراق اور شام وغیرہ کو امریکا کیلئے خطرہ قرار دیتا ہے تو مراد اسرائیل کو خطرہ ہوتا ہے مسلمان حکمرانوں کو یہ کلیہ سمجھہ لینا چاہئے کہ امریکا کے تمام اقدامات کا مقصد صرف اسرائیل کے مفادات کے تکمیل ہے اور ہمیں معاملات کو اسی تناظر میں لینا چاہئے۔ سوچئے کیا یہ حقیقت قابل غور نہیں کہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد خود امریکا میں دہشت گردی کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا جبکہ اس واقعے کو بہانہ بنا کر افغانستان کو تباہ کردیا گیا ، عراق کی اینٹ اسے اینٹ بجائی جارہی ہے مسلمان ملک سہمے ہوئے ہیں کئی اسلامی ملکوں میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر اپنے عوام کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اب نظر انتخاب ایران پر پڑی ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہزاروں میل دور واقع کوئی ملک امریکہ کیلئے کس طرح خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے اسرائیل نے عراق کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کردیا تو دنیا شادیانے بجانے لگی اور عالم اسلام بھی چپ سادھے بیٹھا رہا اب بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی بلکہ اپنی اپنی خیر منانے کی فکر میں مبتلا ہیں۔

پوری دنیا یہ بات جانتی ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو ایران نے تسلیم نہیں کیا تھا اس کے دل میں القاعدہ کیلئے بھی کوئی نرم گوشہ نہیں تھا۔ ایران نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ وہاں القاعدہ کے کچھہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اب یہ کہنا کہ ایران کے راستے چند افراد امریکا پہنچے جو بعد میں جہازوں کو اغوا کرکے نیویارک اور واشنگٹن میں حملوں میں ملوث افراد کے ساتھہ مل گئے اور اس طرح ایران نے القاعدہ کی مدد کی۔ امریکی حکمرانوں کو یہ بات سمجھہ لینی چاہئے کہ یہ غیر قانونی طور پر سرحدیں پار کرنے والوں کو امریکا سمیت دنیا کا کوئی ملک مکمل طور پر نہیں روک نہیں سکتا حتٰی کہ خود امریکا اپنی سرحدیں تو کیا اپنے ہوائی اڈوں تک کو بھی اسے محفوظ نہیں رکھہ سکا جس بات کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ خودکش حملہ کی غرض سے آنے والے افراد کو امریکا میں داخل کیوں اور کس نے ہونے دیا۔ ایران کو مورود الزام ٹھہرانے سے پہلے یہ تحقیق ہونی چاہئے کہ کس ایجنسی نے اور کس اعلٰی شخصیت کے ایما پر ان لوگوں کے امریکا میں داخلے میں مدد دی گئی۔ امریکا کی یہ ذمہ داری بھی تھی کہ ان افراد کو پکڑا جاتا جن کی غفلت ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔سازش سے "دہشت گردوں" کو امریکا میں داخل ہونے دیا گیا اور انہیں یہ آزادی بھی حاصل رہی کہ وہ وہاں پہلے سے موجود ہشت گردوں سے رابطہ کرکے منصوبہ بندی کرکے نیویارک اور واشنگٹن کو نشانہ بناسکیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ تقریباً دو گھنٹوں تک فضا پر چھائے رہے اور صدر اور نائب صدر جائے پناہ کی تلاش میں ادھر سے ادھر بھاگتے رہے جبکہ امریکا کئی عشروں سے یہ دعویٰ کرتا آرہا ہے کہ اس کی سلامتی کا نظام ہر قسم کی خامی سے پاک اور سریع الحرکت ہے۔ جن ہوائی اڈوں سے جہاز اغوا کئے گئے دنیا اب تک بے خبر ہے کہ ان واقعات کے بعد وہاں کی انتظامیہ نے اپنے افسران بالا کو بروقت اس کی خبر کیوں نہیں دی اور اگر خبر دی گئی تو فوری طور پر کیا کاروائی ہوئی۔ ان دہشت گردوں نے جس ملک کے طیاروں کو استعمال کیا۔ جن ملکوں کی فضا سے دو طیارے گزرے ان سب کو شریک جرم ٹھہرانا ہوگا۔ امریکا دنیا کی بہت بڑی عسکری اور اقتصادی طاقت ہے وہ آج جو فیصلہ چاہتا ہے دنیا سے منوالیتا ہے ایسے میں کیا یہی ضروری ہے کہ قوموں کو ڈرا دھمکا کرہی اپنی سرداری قبول کرنے پر مجبور کرے۔ یہ کام تو محبت سے بھی زیادہ بہتر انداز میں ہوسکتا ہے۔ ہوش مند انسان دنیا کو امن و سلامتی، محبت اور دوستی کا گہوارا دیکھنے کو خواہاں ہے اس لئے کہ امن و سلامتی ایک عظیم نعمت ہے ہر شخص یہ چاہے گا کہ امریکا اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرے اور دنیا کو بارود کے تعفن اور آگ کی تپش اور خون ناحق سے سرخ نہ کرت اس کی بجائے دنیا کو فی الحقیقت زیادہ محفوظ جگہ بنائے یہ صرف پچیس تیس کروڑ امریکیوں کے تحفظ کے نام پر نہیں بلکہ دنیا کے 5 ارب سے زیادہ انسانوں کی جان و مال ، عزت آبرہ اور آزادی کو محفوظ تر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

No comments:

Post a Comment