نیا یہود نوازامریکی قانون

روزنامہ جنگ پیر25 اکتوبر 2004 ء

گزشتہ ماہ راقم نے لکھا تھا کہ امریکہ اسرائیل کا یرغمالی بنا ہوا ہے لیکن اب یہ حقیقت یوں منکشف ہوگئی ہے کہ وہ نیا بھر میں یہود مخالف رویئے پر نظر رکھے اور یہود دشمنی کے حوالہ سے مختلف ممالک کی درجہ بندی کرے۔ سال رواں کی 20 جنوری کو امریکی کانگریس کے منظور کردہ بل پر امریکی صدر نے دستخط کرکے اب اسے باقاعدہ قانون کی حیثیت دے دی ہے۔ 9 ماہ تک اس بل پر دستخط میں تاخیر کا سبب یہ تھاکہ امریکی وزارت خارجہ کے علاوہ چند دانشور بھی اس کے مخالف تھے ان کا خیال تھاکہ اس قانون سے مسلم دنیا میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہوگا۔ بہرحال گزشتہ سال کے آخری تین ماہ اور سال رواں کے ابتدائی تین ماہ کے دوران دنیا کے مختلف خطوں میں پیش آنیوالے جن معمولی واقعات کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے اس قانون کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ان میں سرفہرست تو ملائیشیا کے اس وقت کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کا بیان ہے جو 16 اکتوبر 2003 ء کو اسلامی کانفرنس میں دیا گیا تھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ آج دنیا پر عملاً یہودی حکومت کر رہے ہیں آخری فتح تک جن کا مقابلہ کرنا ہوگا اس لئے کہ چند لاکھہ یہودی دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتے۔ امریکی کانگریس کو اس پر بھی تشویش تھی کہ عرب اور مسلمان ملکوں میں یہودیوں کے خلاف کتابوں کی اشاعت اور ٹیلیویژن پروگراموں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں یہودی دانشوروں نے دنیا پر حکمرانی کے لئے جو خفیہ دستاویز تیار کی تھی اس پر آج ہم عمل ہوتا بھی دیکھہ رہے ہیں لیکن امریکی کانگریس نے اس دستاویز کو من گھڑت اور افسانوی قرار دے دیا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں ترکی، روس، کینیڈا، آسٹریلیا اور فرانس میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کے باہر بم دھماکے یا چند قبروں کے کتبوں پر نازی نشان سواستیکا بنا دیئے جانے وغیرہ کو بھی اس قانون کی ضرورت بتایا گیا ہے یہودیوں کے درد میں مبتلا یہی امریکی کانگریس ہے جو کبھی افغانستان کو ننگی جارحیت کا نشانہ بنانے کی قرار داد منظور کرتی ہے اور کبھی عراق کی آزاد اور خودمختار مسلم مملکت کے شہریوں کے خون سے دجلہ و فرات کا رنگ سرخ کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔ مسلمان ملکوں پر مختلف پابندیاں لگاتی ہے، اگر اسے کسی ملک کی ایٹمی صلاحیت سے ڈر ہے تو وہ مسلمان ہے اگر کسی ملک کو ایٹمی بجلی گھروں سے محروم رکھنا ہے تو وہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ بہرحال امریکی کانگریس کو یہود مخالف رویئے پر نظر رکھنے کے لئے قانون بنا کر دنیا میں اپنے اور یہودی مخالفین میں اضافہ کی بجائے اس امر پر غور کرنا چاہیئے تھا کہ دنیا میں یہودیوں کے خلاف جذبات کیوں ابھر رہے ہیں کیا وجہ تھی کہ جرمنی کا ہٹلر یہودیوں کو دنیا کی سب سے زیادہ قابل نفرت قوم سمجھتا تھا۔ خود یورپ کے معروف دانشور اور ڈرامہ نویس یہودیوں کو انتہائی ظالم اور سفاک سمجھتے رہے تھے آج ہم دیکھہ رہے ہیں کہ یہودی ہر قسم کےمہلک ہتھیاروں سے لیس نہتے فلسطینیوں کو بیدردی کے ساتھہ ہلاک کررہے ہیں ان کی بستیوں کو تباہ کررہے ہیں۔ عراق میں ہر روز شہریوں کو بمباری کرکے ہلاک کیا جارہا ہے بستیاں اجاڑی جارہی ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ صدام کے بغیر آج کا عراق محفوظ اور خوش بھی ہے اور یہاں آزادی بھی پہلے سے زیادہ ہے ان کے بقول آج افغانستان بھی آزاد، خودمختار اور پرامن ملک ہے۔ 1998ء میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کا قانون نافذ کیا گیا تاکہ جس ملک پر چاہے مذہبی آزادی پر قذغن کا الزام لگا کر اس پر پابندیاں عائد کرسکے اس قسم کی تمام قانون سازی دوسرے ملکوں میں بیجا مداخلت کی غرض سے کی جاتی ہے اگر امریکہ انصاف پسند ہوتا تو فرانس میں مسلم طالبات کو اور ترکی کی رکن پارلیمنٹ پر سر نہ ڈھانپنے کی پابندیوں کے خلاف ضرور آواز اٹھاتا۔ آٹھہ ماہ پہلے منظور کردہ بل کو انتخابات کے پندرہ دن پہلے قانونی شکل دینے کا مقصد یہودی رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی طرف سے بش کی حمایت اسی قانون کے نفاذ کو نتیجہ ہے۔ امریکہ میں اب عنوانیاں، ظلم و جبر اور ناانصافیاں فروغ پارہی ہیں۔ امریکہ کو مذہبی آزادی اگر کہیں نظر نہیں آتی تو وہ بھی مسلم ممالک ہیں ہمیں دو ٹوک الفاظ میں دنیا کو بتادینا چاہئے کہ ہمارے یہاں اقلیتوں کے ساتھہ نارواسلوک نہیں کیا جاتا نیز یہ کہ شیعہ اور سنی میں سے کوئی اقلیت ہے نہ اکثریت یہ سب ایک جسم اور ایک ہی جان ہیں اگر کسی ایک ہندو کو اغوا کیا گیا ہے تو بیسیوں مسلمان بھی اغوا کئے گئے ہیں لیکن ہندو کو ہندو ہوئے کے سبب ہرگز اغوا نہیں کیا گیا۔ بہرحال مذکورہ بالا قانون کے نفاذ سے مہاتیر محمد کے اس خیال کی بھی بھرپور تائید ہوتی ہے کہ آج دنیا پر یہودی قابض ہیں۔

No comments:

Post a Comment