اسلام اور مغرب
روزنامہ جنگ 12 جون 2005 ء
صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک امریکی ٹیلیویژن کی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ مغرب میں عام طور پر اسلام کو دو انتہائوں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بعض وقت یا تو انتہا پسندوں کو پیش کیا جاتا ہے یا پھر حد سے زیادہ آزاد خیال لوگوں کو پیش کیا جاتا ہے جو اپنی ہی ثقافت کے خلاف بولتے ہیں اور ایسا کبھی کبھی مغروب کو خوش کرنے کیلئے کیا جاتا ہے ان خیالات سے نہ صرف یہ کہ اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ بین السطور یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ مغرب خود یہ نہیں چاہتا ہے کہ وہاں اسلام کو اس کے اصل روپ میں پیش کرکے وہاں موجود بدگمانیوں کو دور کیا جائے اور اس کی وجہ غالباً یہ خوف معلوم ہوتا ہے کہ اگر مغرب کے عام لوگوں نے اسلام کی حقیقت کو سمجھہ لیا تو ایک طرف تو وہاں اسلام کے فروغ میں مزید تیزی آجائے گی اور دوسری طرف دہشت گرد قرار دیکر مسلمانوں کو قتل عام اور ان کے ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر تباہ و برباد کرنے اور انہیں غلام بنانے کا جواز ختم ہوجائے گا۔ جبکہ امریکی صدر جارج بش نے 11ستمبر2001ء کے بعد واضح اور غیر فبہم الفاظ میں طویل صلیبی جنگ کا اعلان کرکے مسلمانوں کے خلاف اپنے ایجنڈے کا راز فاش کردیا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ ماضی میں صلیبی جنگوں کا آغاز گیارہویں صدی کے آخر میں ہوا اور تیرہویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کی فتح مبین کے ساتھہ اختتام پذیر ہوا یعنی یہ جنگیں دو صدیوں تک وقفے وقفے سے جاری رہیں۔ جنرل پرویز مشرف، شوکت عزیز، ڈاکٹر عبداللہ بداوی اور دیگر مسلمان حکمراں مسلم مفکروں، دانشوروں اور ذرائع ابلاغ پر زور دیتے رہتے ہیں کہ وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات یعنی امن، رواداری، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نظریئے کو پیش کر کے مغرب میں پائی جانے والی منفی سوچ بدگمانیوں اورغلط تصورات کے ازالے کی منظّم اور اجتماعی کوشش کریں صدر پاکستان تو اعتدال پسند اور روشن خیال اسلام اور ترقی پسند مسلمان کی اصطلاحات اندرون اور بیرون ملک اکثر استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن مغرب کے کسی بھی حکمراں نے آج تک ان کی اس بات کو تسلیم ہی نہیں ہے کہ اسلام دہشت گردی کا دین نہیں ہے ویسے حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے آگے پیچھے کسی قسم کے تعریفی یا توصیفی الفاظ لگانے کی قطعاً کوئی ضرورت ہے نہ گنجائش، اس لئے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کا نام دیا اور رواداری اور، امن پسندی اور احترام آدمیت اس کا جزولانیفک ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی "پانی کا سمندر" کہے یا "لکھنے کا قلم" ویسے بھی کتنا ہی زور لگا دیا جائے، کتنی ہی دلیلیں پیش کردی جائیں، کتنے ہی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیکر شہر یا عقوبت خانوں کو آباد کرنے کیلئے ان کو امریکہ کے حوالے کردیا جائے مغرب خاص طور پر یہودی اور عیساءی دنیا کا قائد امریکہ ہر گز یہ مان کر نہیں دے گا کہ مسلمان انتہا پنسد دہشت گرد اور رجعت پسند نہیں ہیں۔ یہ راقم الحروف کا محض قیاس نہیں بلکہ خود خالق کائنات کا فیصلہ ہے۔ قرآن حکیم میں وہ فرماتا ہے"اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟ ایک اور جگہ ارشاد ہے۔"مسلمانو! تمہیں مال اور جان دونوں کی آزمائش پیش آکر رہیں گی اور تم اہل کتاب اور مشرکین سےبہت سی باتیں سنو گے۔" یہ اور اس قسم کی درجنوں خبروں کے باوجود بھی اگر ہم میں سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اسلام کی حقیقت کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوجائے گا تو گویا وہ خود کو اللہ تعالیٰ سے بھی بڑا دانا اور حکیم سمجھتا ہے نعوذ باللہ۔ بہتوں کے لئے یہ بات ہضم کرنا شاید ممکن نہیں ہو کہ اسلام اور مسلمانوں کی حقیقت کیا ہے عیسائی اور یہودی علماء اور دانشور ہم میں سے اکثر کے مقابلے میں زیادہ جانتے ہیں اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام تو محض صلیبی سازش کا ایک حصہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم مسلمانوں میں سے بھی کچھہ لوگ اس کا کل پرزہ بننے کی فاش غلطی کربیٹھے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو یہ تکلیف وہ حقیقت سامنے آئے گی کہ دہشت گردی کے نام پر شروع کردہ صلیبی جنگ کا نشانہ ماضی کی طرح آج بھی صرف ایسے جوان بنائے جارہے ہیں جو اسلام کی فہم زیادہ رکھتے اور اس اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ عالم اسلام آج پھر انتہائی عدم استحکام اور غیریقینی کیفیت کا شکار ہے۔ صاحبان بصیرت یہ بات غلط نہیں کہہ رہے کہ ہمارے لاکھہ دعوئوں کے باوجود پاکستان کی عزت و وقار اور اس کی سالمیت و آزادی آج سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہے، یہ قابل فخر نہیں بلکہ باعث تشویش ہے کہ امریکہ جنرل پرویز مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا سب سے زیادہ قابل اعتماد حلیف قرار دے لیکن پاکستان کو القاعدہ کا سب سے بڑا ٹھکانہ، مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کیلئے تربیتی کیمپوں کا ذمہ دار بھی گردانتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جوہری اثاثوں کے سلسلے میں بھی مسلسل یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمارے یہ اثاثے غیر محفوظ ہاتھوں میں ہیں جو کسی وقت بھی انتہا پسندوں کے ہاتھہ لگ سکتے ہیں۔ آزاد اور خود مختار ملک کے حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ محدود مفادات اور ذاتی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کے مفادات کو فوقیت دیں۔ فیصلے کرتے وقت اگر ہم نے مشاورات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایت کو نظر انداز کردیا تو تباہی و بربادی اور ذلت اور رسوائی کو اپنے لئےمقدر کرنے کے ذمہ دار ہونگے اور تاریخ ہمیں نشان عبرت کے طور پر یاد رکھے گی۔ اگر ہم تاریخ میں زیادہ دور جانا نہیں چاہتے تو زیادی سے زیادہ چھہ عشروں ہی پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر دیکھہ لیجئے قرآن کی یہ بات بلا خوف تردید ثابت ہوجائے گی کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے وہ تو آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ فلسطین میں یہودی اور عیسائی وہاں کی اصل آبادی مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر قتل کرنے اور اپنی سرزمین سے ہجرت پر مجبور کردیتے ہیں ایک دوسرے کے ہمنوا ہیں، بھارت کے مقابلے میں عیسائیوں نے مسلمانوں کوکھلی ناانصافیوں کا نشانہ بنا کر پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران عیسائی اور یہودی لاکھوں مسلمانوں کی اذیت ناک ہلاکت اور ان کو تباہ کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے اس سے پہلے مصر پر حملہ کرکے اسرائیل کے مقابلے میں اسے کمزور کرنے میں ان کا کردار واضح ہے۔ خود ہمارے ساتھہ امریکہ نے کیا کیا ہے ان میں سے چند کا ذکر تو خود جنرل پرویز مشرف نے مذکورہ بالا کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کردیا لیکن اور بھی بہت کچھہ ہے جو کہا نہیں گیا۔ یہودی اور عیسائی حکمرانوں ، دانشوروں اور مفکروں کا کمال یہ ہے کہ شمالی آئرلینڈ میں عیسائی فرقوں میں جاری خانہ جنگی کو عیسائی دہشت گردی کا نام دیتے ہیں نہ بوسنیا اور کوسووو وغیرہ میں لاکھوں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل اور عفت مآب مسلمان خواتین کی بے حرمتی کے مجرموں کو عیسائی دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ آج بھی وہاں اجتماعی قبریں دریافت ہورہی ہیں لیکن کسی کی آنکھہ نم نہیں ہوتی اس لئے کہ وہ قبریں مسلمانوں کی ہیں اس کے مقابلے میں منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث آسٹریلیا کی ایک عیسائی عورت کو انڈونیشیاء میں سزائے قید دیدی جاتی ہے تو دنیا کو سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔ جب تک ہم قاتل اور دہشت گرداور اس کے مذہب کو الگ الگ خانوں میں نہیں رکھیں گے اس وقت تک یہ دنیا تصادم ، عدم اعتماد اور بدامنی کی لعنتوں سے نجات نہیں پائے گی۔
No comments:
Post a Comment