اظہار خیال کی آزادی؟
روزنامہ جنگ اتوار 9 جنوری 2005ء
اظہار خیال کی آزادی کے حق کو بھرپور لیکن من مانے انداز میں استعمال کرنے کا ڈھنگ تو کئی ملک کے بعض کالم نگاروں سے سیکھے ایسا کرتے وقت وہ اخلاقی اور معاشرتی اقدار و روایات اور قومی عزت و وقار تک کو کچلنے میں بھی کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں نقطہ اسلام اور مسلمان اس سے چڑ ہے 4 جنوری کو روزنامہ جنگ میں پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کو "بیکار" قرار دیتے ہوئے وہ شکایت کرتے ہیں کہ " پاکستان نے اپنی منصبی ذمہ داریوں سے تجاوز کرتے ہوئے جگہ جگہ شہریوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کررکھی ہے۔"
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کم از کم موجودہ دور حکومت میں پہلی مرتبہ کھلم کھلا اسلامی شعائر حتٰی کہ عقیدہ جہاد سے بریت کے بعد اب داڑھی اور پردہ کا بھی مذاق اڑایا جانے لگا ہے اور ایسا کرنے والے مغرب کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ " جدید اور روشن خیال" کے ماننے والے ہیں جبکہ اللہ جل شانہ کے نزدیک خالق دین صرف "اسلام" ہے جو ہرقسم کی توصیف سے بالاتر ہے۔ جن لوگوں کو آج سرکاری ملازمت وغیرہ کے سلسلہ میں شہری سے اس کا مذہب پوچھنے پر اعتراض ہے کل کو وہ اس پر بھی معترض ہوسکتے ہیں کہ رشتہ کرتے ہوئے لوگ فریق ثانی کا مذہب یا مسلک معلوم کرتے ہیں۔ ملازمتوں کے سلسلہ میں بھارت میں جب لوگوں کا مذہب معلوم کیا جاتا ہے تو ہمارے کسی دانشور کو اس پر حیرت ہوتی ہے نہ اعتراض۔ ایک کالم نگار کا یہ کمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنی بات کو منوانے کی خاطر عام قصے کہانیاں اور مفروضات و اختراعات اس انداز میں پیش کرتے ہیں گویا و تاریخ کے ناقابل تردید حقائق اور چشم دید واقعات ہوں۔
وقت، حالات اور ضرورت کے مطابق اپنے موقف میں تبدیلی بھی ان کیلئے کوئی مشکل کام ہے نہ ناپسندیدہ فعل انہیں اس کی بھی پرواہ نہیں کہ ان کی تحریریں تضاد بلکہ غلط بیانی کی شاہکار کی صورت میں اختیار کرلیتی ہیں۔ پچھلے دنوں " یہ رات" کے اس اندھیرے میں انہوں نے وہ واقعات بتائے اور وہ مناظر دکھائے جو اب تک ہماری نظروں سے اس لئے اوجھل تھے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا انہوں نے انکشاف کیا کہ مارچ 1949ء میں پاکستان کی پہلی مجلس دستور ساز میں منظور کی جانے والی قرارداد مقاصد کے منظوری کے پیچھے ایسے عالم تھے جو امریکہ کے اشارے پر آئین سازی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتے تھے۔
مذکورہ کالم کو نچوڑ یہ ہے کہ اس ملک میں جو بھی غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر اخلاقی کام ہوئے ہیں ان سب کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں اور ان کے قائد اعظم کی خواہشات کی تکمیل کی خاطر یہاں اسلامی شریعت کے عین مطابق نظام حکومت کے قیام کے دل سے خواہاں رہے ہیں نیز یہ کہ بانیان پاکستان کم فہم لوگ تھے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد علمائے اسلام کے زیر اثر آگئے اور ملک کو مذہبی ریشہ دوانیوں کی آماہ جگاہ بنا کر رکھہ دیا۔ کالم میں اسلامی سوچ رکھنے والے علماء اور عوام کو جن الزامات سے نوازا گیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں:
بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام، قائد اعظم محمد علی جناح کا قتل، قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت، ملک غلام محمد کی بحیثیت گورنر جنرل ، خواجہ ناظم الدین کی برطرفی پہلی دستوریہ اور ملک کے عارضی دستور کا خاتمہ، اسکندر مرزا کا برسراقتدار آنا 7 اکتوبر 1958ء کے آئین کی منسوخی کے ساتھہ کابینہ اور پارلیمنٹ کا خاتمہ اور مارشل لاء کا نفاذ، 27 اکتوبر کو اسکندر مرزا کی معزولی، مارچ 1969ء میں جنرل یحیٰی کے ہاتھوں جنرل ایوب خان کی معزولی اور آئین کا خاتمہ، مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی اور مذہب کے نام پر لوگوں کا قتل عام، انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹ ، سقوط ڈھاکہ، 1973ء کے آئین کا اسلامی رنگ، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جانا، جنرل ضیاء الحق کا اقتدار پر قبضہ، افغانستان پر روسی قبضہ کے خلاف "جہاد" کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی دہشت گرد کاروائیاں، روس کی تحلیل، افغانستان میں طالبان کا اقتدار اور وہاں مثالی امن و امان کا قیام اور پوست کا مکمل خاتمہ۔
جناب پر یہ کشف بھی معنی خیز ہے کہ 1965ء میں پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت کی ذمہ دار بھی مذہبی قیادت ہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ بھارت نے حملہ کرکے کوئی زیادتی نہیں کی تھی۔ جن کار ہائے سیاہ کا سہرا مذہبی عناصر کے سر باندھنے کی جسارت کی گئی ہے ان میں ہر ایک پر ایک کالم لکھا جاسکتا ہے لیکن اس کی ضرورت اس لئے نہیں کہ قوم اس کج فکری کے پیچھے چھپے مقاصد کو خوب سمجھتی ہے ویسے بھی جو کچھہ لکھا گیا ہے اس کی کوہ قاف کی پریوں کی کہانیوں سے زیادہ حقیقت نہیں ہے لیکن ہمیں ان باتوں سے چوکنا ضرور رہنا ہے۔
ایسی تحریروں کا مقصد چاہے کچھہ بھی ہو لیکن ڈر یہ ہوتا ہے کہ کچے ذہن والے لوگ ان اختراعات کو کہیں اس طرح سچ نہ سمجھنے لگیں جس طرح بچے پریوں کی کہانیوں کو سمجھتے ہیں ویسے ہمیں یہ بھی سمجھہ لینا چاہئے کہ چند عناصر ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ کھل کر پاکستان اسلامی نشاۃ ثانیہ کی غرض سے قائم کیا گیا ہے اس لئے یہ عالمی دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز ثابت ہوسکتا ہے ایسے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابھی سے دبوچ لیا جائے تاکہ دنیا اسلامی دہشت گردوں سے محفوظ بنائی جاسکے۔ ویسے عقل کے اندھے اور ہٹ دھرم تو وہی بات کہیں گے جو کہتے آرہے ہیں لیکن جب ہم اپنے ملک کی 57 سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج تک یہاں جتنے بھی منتخب یا مسلط حکمراں آئے ان میں سے کوئی بھی عالم دین نہیں تھا نہ برسراقتدار آنے والی کسی سیاسی جماعت کے منشور میں اسلامی نظام کے نفاذ کو بنیادی حیثیت دی گئی بلکہ ایسے منشور پر سامنے آنے والی جماعتوں کو کبھی آگے بڑھنے ہی نہیں دیا گیا اس لئے کہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اسلامی طرز زندگی سے بچنا چاہتے ہیں وہ اس سلسلہ میں بابائے قوم کے اس اعلان کو حوالہ دیتے ہیں کہ پاکستان میں ملائیت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے جبکہ ملائیت کا مطلب ہرگز اسلامی نظام حکومت نہیں اور اسلام کی تاریخ میں مغربی معنوں میں کبھی ملائیت قائم نہیں ہوئی اسلام تو متقیوں کو آگے لانے پر زور دیتا ہے البتہ مغرب پاپائیت کے شدید تسلط میں صدیوں رہا ہے اور Theocracyسے مراد پاپائیت ہی ہے جو ایک زمانہ میں مذہبی جنونیوں کا ٹولہ تھا۔
جب بابائے قوم ایمان اتحاد اور تنظیم کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد اسلامی شریعت پر مبنی آئین اور نیک لوگوں کے ذریعہ حکمرانی ہے بہرحال 5 جنوری کو جناب نذیر ناجی نے جنگ میں جو بات لکھی ہے ہمیں توقع رکھنی چاہئے کہ وہ خود بھی اس پر عمل کریں گے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ "تحسین یا تنقید میں شاندار صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر تھوڑی سی توجہ حقائق پر بھی صرف کردی جائے تو اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔"
No comments:
Post a Comment