بھارت کی تاریخ میں تحریف کا اعتراف

روزنامہ جنگ اتوار 13 جون 2004 ء

بھارت میں نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی ایک ایسی خبر آئی ہے جو ہمارے بعض دانشوروں پر یقیناً بجلی بن کر گری ہوگی جو پاکستان میں لکھی جانے والی تاریخ اور یہاں رائج نصاب تعلیم کو مذہبی عصبیت، رجعت پسندی اور تنگ نظری کا نمونہ اور بھارت میں لکھی جانے والی تاریخ اور نصاب تعلیم کو رواداری، ھقیقت پسندی اور وسیع النظری کا شاہکار سمجھتے رہے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ واجپائی دور حکومت میں بھارت کی بری طرح مسخ کردہ تاریخ اور ہندو نواز نصاب تعلیم کو ازسر نو ترتیب دیا جائے گا یعنی بھارت کے دانشور اس کا کھلے دل سے اعتراف کررہے ہیں کہ بھارت کی تاریخ میں بڑے پیمانے پر تحریف کی گئی ہے۔ ہمارے بعض دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت میں مرتب کردہ تاریخ ہر قسم کی عصبیت ، فرقہ ورایت اور منافرت سے پاک ہے لیکن برا ہو بھارت کے نئے برسراقتدار اتحاد کے ممتاز دانشوروں اور ماہرین تعلیم کا کہ انہوں نے یہ حقیقت کھول کر رکھہ دی کہ متعصب اور انتہا پسند ہندو مورخوں نے اقلیت بالخصوص مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا ہے یہی نہیں بلکہ تاریخ سے گاندھی جی کے قاتل کا نام بھی محض اس لئے حذف کردیا گیا کہ وہ اس انتہا پسند ہندو جماعت کا کارکن تھا جس کی کوکھہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لیا تھا۔ واجپائی حکومت میں انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر مرلی منوہر جوشی نے انتہا پسند ہندوؤں کے نقطہ نظر سے تاریخ کو ازسر نو لکھوانے کا اہتمام کیا تھا جس میں اقلیتوں کو نہ صرف غیر ملکی بلکہ انہیں بھارت کے مسائل کی اصل جڑ اور مغلوں کے دور حکومت کو بھارت کی تاریخ کا سیاہ دور قرار دیا گیا ہے۔

کانگریس پارٹی کی 1996 میں ختم ہونے والی حکومت میں وزیر تعلیم کا کہنا ہے موجودہ تاریخ میں مسلم اقلیت کو واضح الفاظ میں بدیسی قرار دے کر انہیں بھارت دشمن تک لکھا گیا ہے۔ اس طرز عمل سے مسلمانوں میں بے چینی کا پیدا ہونا فطری امر تھا واجپائی دور حکومت میں تعلیمی پالیسی ساز اداروں سے ایسے مورخین اور ماہرین تعلیم کو ہٹادیا گیا جن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ علمی بد دیانتی میں ان کا ساتھہ نہیں دیں گے۔ کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے بھی یہ واضح کردیا ہے کہ تعلیمی نصاب اور تاریخ میں کی گئی ہر قسم کی تحریف کو ختم کیا جائے یہاں اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد اپنے ملک کے بعض دانشوروں پر واضح کرنا ہے کہ بھارت میں ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہے اس میں بڑا کھوٹ ملا ہوا ہے وہاں ہندو مذہبی جنونی بڑی تعداد میں موجود ہیں جس کی نشاندہی کبھی کبھار خود وہیں کے انصاف پسند لوگ کرتے رہتے ہیں ۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم بھارت نوازی میں بھارتیوں سے بھی دو قدم آگے رہتے ہیں اور یہ مان کر ہی نہیں دیتے کہ بھارت کا کوئی مورخ تاریخ کو اس قدر مسخ بھی کرسکتا ہے۔

مشترکہ مذہبی اور تاریخ و ثقافت کی وکالت بالواسطہ طور پر پاکستان کی صورت میں علیحدہ وطن کے قیام کی مخالفت کے مترادف ہے جب کہ ان کے خیال میں ہر وہ شخص تنگ نظر، متعصب اور مذہبی انتہا پسند ہے جو یہ کہتا، لکھتا اور سمجھتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے نام پر پاکستان حاصل کیا اور یہ کہ جنوبی ایشیا کی ہندو اکثریت مسلمانوں کے دین، ایمان ، ثقافت اور اقدار و روایات کے سخت خلاف تھی جن صاحبان علم و و حکمت نے ان تلخ حقائق پر مبنی تاریخ کو بیان کیا ہمارے دوستوں کے خیال میں انہوں نے حقائق کو مسخ کرکے اسے تاریخ کا نام دے دیا لیکن یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آج بھارت میں کروڑوں مسلمان رہ رہے ہیں تو کیا یہ زیادہ اچھا نہیں ہوتا کہ ایک ارب ہندوؤں کے مقابلے میں تقریباً 50 کروڑ مسلمان ہوتے تو ان کی مرضی اورتائید کے بغیر کوئی حکومت بھی تشکیل نہیں پاسکتی تھی اور اس طرح وہ بادشاہ گر بن کر بالواسطہ پورے خطے پر حکومت کرتے لیکن اس سوال کا جواب ڈھونڈنےکے لئے اگر ہم 1937 میں چلے جائیں اوریوپی ، سی پی ، بہار، اڑیسہ ، مدارس اور بمبئی میں قائم کانگریس حکومتوں کی کارکردگی پر نگاہ ڈالنے کی زحمت گوارا کرلیں تو دیانتدارانہ فیصلہ یہی ہوگا کہ ایک علیحدہ علیحدہ وطن کی حیثیت سے پاکستان کا قیام ناگزیر تھا۔ اس دوران یوپی، سی پی اور بہار وغیرہ میں مسلمانوں کے خلاف شدید نوعیت کے فسادات بھی ہوئے لیکن اس وقت کی صوبائی حکومتیں ان کا الزام بھی مسلمانوں پر لگا کر انہیں پریشان کرتی رہتی تھیں مسلمان طلباء و طالبات کے لئے "بندے ماترم" کا گانا لازمی قرار دے دیا گیا یہ ہندوؤں کا ایک ایسا قومی نغمہ ہے جس میں کافرانہ اور مسلم دشمن بند بھی تھے۔ کئی مقامات پر اذان پر بھی یہ کہہ کر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی کہ اس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ سی پی اور بہار میں اسکولوں کے مسلمان طلبا کو "السلام علیکم" کے بجائے "نمستے" اور رام جی کی جے" کہنے کے علاوہ سرسوتی دیوی کے سامنے ہاتھہ جوڑ کر پوجا کرنے پر مجبور کرنے کی بھی مذموم کوشش کی گئی تھی حتیٰ کہ ایک مراسلہ کے ذریعے صدر مدرسین کو ہدایت کی گئی کہ وہ گاندھی جی کے یوم پیدائش پر ان کی تصویر کے سامنے کھڑے ہوکر پوجا کریں۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر "ہندوستانی" کو ذریعہ تعلیم قرار دیا گیا۔ گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگادی گئی اور گاؤ کشی کے جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا کانگریس کو یقین تھا کہ مسلمان اپنے بچوں کو پڑھنے کے لئے مندر میں نہیں بھیجیں گے اس لئے "ودیا مندر" یعنی " مندر مدرسہ" کا منصوبہ شروع کیا گیا تاکہ مسلمان بچے تعلیم سے محروم رکھے جائیں۔ مذکورہ کانگریسی دور حکومت میں مسلمانوں کے ساتھہ ظالمانہ اور متعصبانہ سلوک کی تمام تفصیل اس رپورٹ میں موجود ہے جو پیر پور کے راجہ سیّد محمد مہدی کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی نے 1938 کے آخر میں پیش کی تھی یہ " پیر پور رپورٹ" کے نام ہی سے معروف ہے اور اس کمیٹی کا مقصد دوران حکمرانی کانگریسی حکومتوں کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھہ کی گئی زیادتیوں کے بارے میں ثبوت کے ساتھہ تحقیق کرنا تھا۔

اس رپورٹ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اکتوبر 1938 میں سندھ مسلم لیگ اور اس کے بعد 23 مارچ 1940 میں منظور کردہ قرارداد پاکستان کا حقیقی پس منظر کیا تھا۔ لیکن آخر میں سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ہمارے دانشور کا نگریسی رہنماؤں کی طرف سے بھارت میں رائج تاریخ کے بارے میں جس حقیقت کا افشا کیا گیا ہے اسے تسلیم بھی کرنے کے لئے تیار ہیں یا ان کانگریسی دانشوروں پر بھی عصبیت ، عدم رواداری اور رجعت پسندی کا الزام لگا کر اپنی روش پر قائم رہتے ہیں یا نہیں لیکن ہمیں پھر بھی امید رکھنی چاہیئے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے اور ہندو ذہنیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے مذکورہ پیر پور رپورٹ کا ہی مطالعہ بھی بہت ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment