مسئلہ کشمیر کے حل کی تجاویز
روزنامہ جنگ اتوار 7 نومبر 2004ء
صدر جنرل پرویز مشرف نے بتایا ہے کہ نیویارک میں ملاقات کے دوران بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھہ نے اصرار کیا تھا کہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی نئی تجویز دی جائے اور اسی کے جواب میں انہوں نے کشمیر کو 7 علاقوں میں تقسیم کرنے، آزاد رکھنے، غیر فوجی بنانے یا اقوام متحدہ کے زیر انتظام دینے کی تجویز دی ہے۔ جب ہم ان تجاویز پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح ہم نے اپنے دیرینہ اور مضبوط موقف سے مکمل بریت کا اعلان کرکے اپنے تمام پتے کھول کر رکھہ دیئے ہیں۔ بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سیدھے سادھے بلکہ بھولے بھالے نظر آنے والے لیکن زیرک سیاستداں اکھاڑے میں اترے بغیر ہی ہمیں سیاسی مات دینے میں کامیاب ہوگئے۔ صدر پاکستان کو چاہئے تھا کہ وہ من موہن سنگھہ سے اصرار کرتے کہ تنازع کشمیر کے حل کے لئے نئی یا متبادل تجاویز پیش کریں لیکن س کے برعکس جنرل پرویز مشرف نے اس سلسلے میں پہل کرنا معلوم نہیں کیوں ضروری سمجھا اس سلسلے میں بھارت کی بدنیتی کا اندازہ بھی اس بات سے ہوجاتا ہے کہ اس تجاویز کے بارے میں نئی دہلی سے کسی حوصلہ افزاء ردعمل کے بجائے بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ کہہ کر جنرل پرویز مشرف کے اس فلسفہ کو سفارتی زبان میں تقریباً رد کردیا ہے کہ جموں و کشمیر ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر میڈیا کے ذریعے بات چیت نہیں کی جاسکتی بلکہ ایسی تجاویز مذاکرات میں پیش کی جائیں بھارتی قیادت کی شان بے نیازی دیکھئے کہ کسی بھی قابل ذکر وزیر کی طرف سے اس سلسلے میں کسی قسم کا اظہار خیال نہیں کیا گیا ویسے یہ بات بھی کسی حد تک درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ 57 برس سے تصفیہ طلب تنازع کے بارے میں جس کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی موجود ہوں اور جس کی بناء پر دونوں ملکوں میں جنگیں بھی ہوچکی ہوں اس کے سلسلے میں کسی ایک فرد کی طرف سے ذاتی خواہش کے تحت تجاویز کسی استقبالیہ میں پیش کردی جائیں اور پھر یہ سمجھہ لینا کہ ہم اس تنازع کے حل کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں خود فریبی سے زیادہ کچھہ نہیں ہے جب تک پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام اس کے کسی حل پر متفق نہیں ہوتے اس وقت تک بات نہیں بنے گی اور ایسی صورت میں مذاکرات سے باہر تجاویز پیش کرنا اور قوم کو اس پر اظہار رائے کی دعوت دینا مشق لا حاصل ہی نہیں بلکہ قومی نقطۂ نگاہ سے یہ ایک خطرناک راستہ بھی ہے اس لئے اس پر بحث کرکے دنیا کے انتشار اور دشمن کے سامنے ہم ایک منقسم قوم کی حیثیت سے آجائیں گے ویسے بھی کشمیر کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے اس کا مستقل، پائیدار اور باعزت حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ آزاد اور مقبوضہ جموں و کشمیر ایک اکائی ہے اس لئے مختلف ٹکڑے کرکے اس کا حل اسی طرح ممکن نہیں جس طرح ہم بخار میں مبتلا کسی شخص کے علاج کے لئے پہلے اس کے سر کا بخار اتارنے کی کوشش کریں پھر اس کے بازوؤں کا اس کے بعد دھڑ اور آخر میں دائیں اور بائیں ٹانگوں کا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود ہماری اپنی حکومت کو بھی ان تجاویز کے پیش کئے جانے پر پریشانی کا سامنا ہے ہمارے وزیر خارجہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ تجاویز حرف آخر نہیں اور یہ صدر کی ذاتی رائے ہے صدر یا وزیر اعظم کی بھی ذاتی اور سرکاری رائے میں تضاد ہوگا تو پھر کیا یہ فکری انتشار کی صورت نہیں ہوگی اور اس سے موقف میں کمزوری کو بھی پہلو نمایاں ہوگا جس سے دشمن پورا پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے ہمیں ہر سطح پر اس دوئی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ استصواب رائے کے ذریعے تنازع کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار داد کے مطابق ہے جسے پاکستان کے علاوہ بھارت کی اس وقت کی قیادت نے تسلیم کیا تھا اس لئے ہمیں اسی ایک نکتے پر زور دینا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ یہ کہہ کر اس مسلمہ اصول کو ترک کرنے پر زور دیا جا رہاہے کہ اگر ہم استصواب رائے پر زور دیتے رہے تو سو سال تک لڑتے رہیں گے لیکن ہمیں اچھی طرح سمجھہ لینا چاہئے کہ محدود مصلحتوں، ناجائز بیرونی دباؤ یا کسی طاقت کے مفادات یا ارادوں کی تکمیل کی خاطر کوئی وقتی یا غلط فیصلہ کرلیا گیا تو ایسا فیصلہ نقش بر آب ثابت ہوگا اس لئے کہ خود مختار یا منقسم کشمیر کو اور تو اور کشمیری عوام بھی تسلیم نہیں کریں گے اور نتیجتاً وہاں خانہ جنگی کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا بعض بیرونی طاقتیں بلکہ خود ہماری آستینوں میں چھپے ہوئے دشمن بھی یہی چاہتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند ہمیشہ بدامنی، بے اعتمادی اور غربت کا شکار رہیں۔ مفاد پرست بیرونی طاقتوں کو بخوبی احساس ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تنازعات ختم ہوگئے اور وہ برابری کی بنیاد پر دوستی قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دنیا سے بڑوں کی چوہدراہٹ کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوجائے گا۔ خودمختار کشمیر کے سلسلے میں بھارت اپنی عادت کے مطابق اسے اپن زیر اثر لانے کی کوشش سے باز نہیں آئے گا جس کے جواب میں کشمیری عوام کے ساتھہ پاکستان بھی اس کا توڑ کریں گے اور اس طرح کشمیر آج سے بھی بدتر جھگڑوں اور سازشوں کا مرکز بن کر رہ جائے گا اس لئے عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ کشمیر کے تنازع کو استصواب رائے کے ذریعے ہی حل کرانے کی کوشش کی جائے اور آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدرانہ رائے شماری کے ذریعے تنازع کے حل میں یہ راز بھی پوشیدہ ہے کہ فیصلہ چاہے پاکستان کے حق میں ہو یا بھارت کے حق میں اس سے کسی بھی فریق کو شکست کا احساس ہوگا نہ کسی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اکثریتی فیصلہ کی وجہ سے وہ عناصر بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے جو شرارت کے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں 3 جون 1947ء کے منصوبہ آزادی کے مطابق پاکستان اور بھارت کا قیام عمل میں آیا تو اس منصوبہ کی شرائط کے تحت بھی کشمیر کو تقسیم کیا جاسکتا ہے نہ اسے آزاد حیثیت دی جاسکتی ہے اگر آج ہم نے اس منصوبہ کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی قبول کرلی تو پھر صوبہ سرحد سے بھی یہ آواز اٹھائی جاسکتی ہے کہ ازسر نو ریفرنڈم میں آزادی کی گنجائش بھی رکھی جائے یہ وہ مطالبہ ہوگا جسے محولہ بالا منصوبہ کے مطابق بھی رد کیا گیا تھا ۔ ان کے علاوہ کشمیر سے متعلق بنیادی اصولوں کو ترک کرنے سے پہلے ہمیں ان سوالات کا جواب بھی دینا ہوگا کہ گزشتہ پندرہ سولہ برسوں کے دوران پاکستان کی اخلاقی اور سفارتی حمایت سے جاری تحریک آزادی کے 80 ہزار سے زیادہ شہیدوں کی قربانی کا حساب کون دے گا۔ کیا ان سب کا سودا امن کے غیر یقینی نوبل انعام سے کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے عوام اور پاکستان کی ہر حکومت کی شروع سے یہ خواہش بھی رہی ہے اور کوشش بھی کہ تنازع کشمیر کو حل کرکے دونوں ملک شاہراہ امن و دوستی پر گامزن ہوجائیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ اس کے تصفیہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اس لئے بہتر ہوتا کہ ارباب اقتدار بھارتی قیادت سے یہ ضرور معلوم کر لیتے کہ بھارت کے آئین میں وہ کشمیر سے متعلق ترمیم کرنے کے لئے تیار ہیں یا آئین کی موجودہ صورتحال میں بھی وہ کوئی معاہدہ کرسکتے ہیں؟ لیکن عام خیال یہ ہے کہ بھارت کی کوئی حکومت اپنے آئین سے ماورا کسی تصفیہ کے لئے تیار نہیں ہوگی ایسی صورت میں مذاکرات یقینی طور پر تنسیع اوقات ہوں گے۔ جنرل پرویز مشرف کی خواہش کے مطابق اگر قوم ان کی پیش کردہ کسی تجویز یا استصواب رائے ہی پر متفق ہوجاتی ہے تو کیا من موہن سنگھہ نے ہقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اسے تسلیم کرلیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا تو پھر ہمیں چاہئے کہ ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جائے اس لئے کہ زندہ اور سمجھدار قومیں سراب کے پیچھے نہیں دوڑا کرتیں۔ اپنی تجویز پر قوم کو بحث کی دعوت دینے کا منتقی نتیجہ یہی نکلے گا اور وہ اس طرح کہ وہ عناصر جو اپنے دل میں بھارت سے محبت کی دیوی اور پاکستان سے نفرت کے دیوتا چھپائے بیٹھے تھے اب ان تجاویز کی آڑ میں قوم میں فکری انتشار پیدا کرنے اور پاکستان کے نظریئے پر کلہاڑا چلانے کے لئے کھل کر کام کریں گے اور ان کی موجودگی میں صدر مملکت کے بقول پاکستان کو دشمنوں کی اور کشمیر پر اپنا حق جتانے کی لئے بھارت کو وکیلوں کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ انہوں نے تو یہ کہنا شروع بھی کردیا ہے کہ صدر پرویز مشرف کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز 57 سال پرانی پاکستان کی غلطیوں کے ازالہ کی کوشش ہے۔ گویا تنازع کشمیر کی تمام تر ذمہ داری پاکستان اور مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں کشمیر کے حوالے سے ہم ہی نے بھارت پر کئی جنگیں تھونپی ہیں اور اسی تنازع کا تصفیہ نہ ہونے کا سبب بھی پاکستان کی ہٹ دھرمی ہے۔ اس مسئلہ کے سبب پاکستان کو ہونے والے نقصان پر بھی وہ مگر مچھہ کے آنسو بہاتے ہوئے قوم کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اپنے سے پانچ گنا بڑی طاقت سے مقابلہ ہمارے بس میں نہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج آزاد کشمیر کو وجود بھارت کی منظم اور مسلح افواج کے مقابلہ میں غیر فوجی غیر مسلح لیکن جذبہ جہاد سے سرشار پر عزم عوام ہی کا مرہون منت ہے ایسے عناصر چاہتے ہیں کہ قوم کو بزدلی کو درس دے کر عظیم ہمسایہ کی غلامی نہیں تو کم از کم بالادستی قبول کرلی جائے اسی مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے وہ پاکستان کے بانی اور تحریک آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والی قوم پر یہ بہتان لگاتے ہیں کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ تو لادین پاکستان چاہتے تھے اور اس کے حصول میں وہ کامیاب بھی ہوگئے تھے لیکن بعد میں ایک سازش کے تحت اسلام کے نام لیواؤں نے اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنادیا۔ اس طرح ڈر یہ ہے کہ صدر پرویز مشرف کی تجاویز کا بھارت کی طرف سے تو کوئی مثبت جواب نہیں دیا جائے گا البتہ اپنی قوم کے اندر انتشار اور بے اعتمادی پیدا کرنے کی غرض سے کچھہ لوگ استعمال کرجائیں گے۔ جنرل پرویز مشرف چاہتے ہیں کہ وہ ان تجاویز پر بحث کریں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مخصوص ٹولے اور جی حضوریوں کے بجائے محب وطن دانشوروں کو مدعو کریں ورنہ انہیں راستہ سے بھٹکانے کی سازش کامیاب ہو جائے گی اس میں نقصان صرف پاکستان کا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment