پولیس کا کردار اور سیاست

روزنامہ جنگ اتوار 19 دسمبر 2004 ء

سیاست میں ملوث ہونے کے باعث پولیس کا نظام تباہ ہوگیا ہے، پولیس کی سوچ بدلنی ہوگی اور پولیس کی کارکردگی اور رویئے سے ہی حکومت کی کارکردگی کا پتہ چلتا ہے ۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے انتہائی مختصر الفاظ میں کئی عشروں پر محیط ایک ایسی تلخ حقیقت بیان کردی ہے جس سے کوئی بھی ذی شعور پاکستانی انکار نہیں کرسکتا۔ دنیا کے ہر مہذب، متمدن ، آزاد اور جمہوری معاشرہ میں ہر سطح کے سرکاری ملازم کے لئے سیاست شجر ممنوعہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں منافقت اور استحصال بیجا کا کاروبار اس قدر فروغ پا چکا ہے کہ عام شہریوں کے مقابلہ میں آج مختلف سرکاری ادارے ہی سیاست پر قابض ہیں اور امور مملکت پوری طرح ان ہی کی مرضی اور صوابدید کے تابع آچکے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ سرکاری ملازم سیاست کا کل پرزہ بننے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے لیکن جب آئینی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے "نااہل" افراد چور دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے لگے تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنے قدم جمانے کی خاطر سرکاری اہلکاروں کو سیاسے میں ملوث کریں ادھر سرکاری ملازمین کو بھی اپنا مفاد ان طالع آزا حکمرانوں کا آلہ کار بننے میں نظر آیا جبکہ 25 مارچ 1948ء کو سرکاری اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے واضح الفاظ میں یہ بتادیا تھا کہ "آپ کو خادم کی حیثیت سے فرض ادا کرنا ہے۔ آپ کا اِس سیاسی جماعت یا اُس سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں یہ آپ کا کام بھی نہیں ہے۔" بانی پاکستان نے اس موقع پر بھی فرمایا تھا کہ " آپ تو شہری خادم ہیں اس لئے جو جماعت اکثریت حاصل کرلے گی وہی حکومت بنائے گی اور آپ کا فرض اس حکومت کی خدمت کرنا ہے۔" اس سے مراد محض یہ تھی کہ سرکاری ملازمین حکومت وقت کے احکامات اور حکمت عملی کے تحت کام کریں گے برسراقتدار پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے نہیں۔

وزیر اعظم کے بیان سے یہ تاثر ابھرا ہے گویا پولیس از خود سیاست میں ملوث ہوگئی حالانکہ ایسا نہیں ہے سچی بات یہ ہے کہ پولیس کو سیاست میں ملوث ہونے پر مجبور کیا گیا ہے اور اس کی پوری ذمہ داری شہری اور فوجی صاحبان اقتدار پر عائد ہوتی ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا پولیس کو سیاست میں دھکیلنے والے وہ حکمراں ہیں جو عوام میں جڑیں نہیں رکھتے سیاست میں ملوث کئے جانے کے نتیجہ میں پولیس کا اہم اور معزز ادارہ بدنام، تباہ و برباد اور ذلیل و رسوا ہوکر رہ گیا ہے ہمیں یہ اچھی طرز سمجھہ لینا چاہئے کہ سیاسی جماعتوں سمیت کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری ادارہ میں سیاسی کھیل شروع ہوگیا تو وہ جماعت اور وہ ادارہ اپنی افادیت سے محروم ہوکر بے وقعت ہوجائے گا۔ سیاسے کے سبب پولیس کے ادارہ کی بربادی کے کھلے دل سے اعتراف کے بعد وزیر اعظم کے پیش نظر یقیناً اس سے بھی زیادہ اہم ادارہ یعنی فوج کو اس قسم کی صورتحال سے بچانا ہوگا۔ اگر خدانخواستہ اس ادارہ میں شکست و ریخت کے آثار بھی نمایاں ہوگئے تو ہمارا بحیثیت قوم زندہ رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا اسلئے کہ ہمارا ازلی دشمن عرصے سے ایسے ہی کسی موقع کی تاک میں بیٹھاہے۔ شہریوں کی جان، مال اور عزت و آبرو اور امن و امان کی محافظ پولیس ہوتی ہے لیکن ملک و قوم کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کی ضامن فوج ہوتی ہے ہم سب جانتے ہیں کہ قوم کا وجود اور اس کی زندگی آزادی اورخودمختاری سے مشروط ہے۔ ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ الحمدللہ ہماری افواج تربیت، نظم و ضبط، حب الوطنی اور جذبہ جاں نثاری کے لحاظ سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جاتی ہے اور اس کا یہ امتیاز اور تشخص قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ افواج پاکستان کو غیر عسکری اور غیر پیشہ ورانہ یعنی سیاسی سرگرمیوں سے قطعی دور رکھا جائے۔ کسی قسم کی پریشان کن صورتحال سے بچنے کے لئے ہمیں چاہیئے کہ "جس کا کام اسی کو ساجھے" کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے مقتدر اور بااثر حضرات کا رویہ قابل قدر نہیں رہا وہ اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنوانے، انہیں ہراساں کروانے اور انہیں گرفتار کرواکے رسوا کرنے تک سے باز نہیں آتے بلکہ انتہا یہ ہے کہ مصنوعی مقابلوں میں لوگوں کو قتل تک کروانے میں یہاں عار نہیں آتی لیکن اپنے دور کے رستم و سہراب جب ایوان اقتدار سے محروم ہوجاتے ہیں تو پھر ان کے ساتھہ وہی کچھہ کیا جاتا ہے جو وہ خود کرتے رہے تھے۔ ہمارے یہاں علاقہ کا چوہدری اور وڈیرہ ہی نہیں حکمران پارٹی کے ادنیٰ کارکن بھی ہٹلر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال معاشرہ کے لئے عذاب سے کم نہیں ہوتی اور آج ہم بدقسمتی سے ایسے ہی دوراہے سے گزر رہے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں بھرے بازاروں میں دن دہاڑے قتل، اغوا ، چوری، ڈکیتی اور دکانوں، کوچوں اور بسوں میں لوٹ مار کے واقعات کے علاوہ کار، موٹر سائیکل اور موبائل فون کا سرعام چھین لینا عذاب ہی کی مختلف صورتیں نہیں ہیں؟ اس تکلیف دہ کیفیت کے باوجود حکمرانوں کی طرف سے "سب ٹھیک ہے" کی راگنی لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی تو ہے ہی لیکن اس سے جگ ہنسائی کا سامان بھی ہوتا ہے۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے یہ بالکل صحیح کہا کہ "پولیس کی کارکردگی اور رویئے ہی سے حکومت کی کارکردگی کا پتہ چلتا ہے۔ باالفاظ دیگر کسی بھی حکومت وقت کا چہرہ دیکھنا ہوتو وہاں کی پولیس کے رویہ کا جائزہ لے لیا جائے اسطرح آج حکومت کا چہرہ پولیس کے رویہ کے سبب بڑا ہی بھیانک منظر پیش کررہا ہے۔ یہ تو بجا ہے کہ "پولیس کا ہے کام خدمت عوام کی" لیکن یہ غور طلب ہے کہ عوام لفظ "خدمت" کو "زحمت" سے کیوں بدل دیتے ہیں۔

وزیر اعظم شوکت عزیز کہتے ہیں کہ پولیس کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی لیکن حقیقت میں سوچ پولیس کو نہیں حکمرانوں کو بدلنی ہوگی۔ جس طرح پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے بالک اسی طرح اچھائی اور برائی بھی اوپر ہی سے نیچے کی طرف آتی ہے۔ حکمراں اگر اپنے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کی تکمیل کی خاطر پولیس کو استعمال کرنا چھوڑ دیں، پولیس میں بھرتی کیلئے مقررہ کردہ معیار پر عملدرآمد یقینی بنالیں تو پولیس کا محکمہ فی الحقیقت عوام کی خدمت کا بہترین ادارہ ثابت ہوسکتا ہے اور عوام اس سے ڈرنے اور دور بھاگنے کے بجائے اس سے محبت کرنے لگیں لیکن اس کے لئے زبانی کلامی تبلیغ سے کام نہیں چلے گا پولیس کو عوامی خدمت کا قابل فخر ادارہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کے چھوڑے بڑے اہلکاروں کو معقول تنخواہ دی جائے ان کو رہائش، تعلیم اور صحت کے میدان میں تمام ضروری سہولتیں اور مراعات دی جائیں۔ آج ہم بجا طور پر دعویٰ بھی کرتے ہیں اور فخر بھی کہ موٹر وے یا سپر ہائی وے کی پولیس انتہائی دیانتدار اور فرض شناس بھی ہے اور وہ کسی کو بھی قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے یہ لوگ آسمان سے نہیں اترے ہمارے ہی معاشرے کے افراد ہیں لیکن انہیں اتنی تنخواہ مل جاتی ہے کہ وہ اپنی تمام جائز ضروریات بآسانی پوری کرلیتے ہیں اس لئے وہ رشوت اور بدعنوانی کی طرف راغب ہی نہیں ہوتے ویسے بھی انسان فطرتاً شریف النفس اور دیانتدار ہوتا ہے وہ ہر حال میں برائی اور حرام خوری سے بچنا چاہتا ہے لیکن کسی کو بھرتی ہونے اور تبادلہ کروانے کے لئے بھی رشوت دینی ہوگی یا اسے ہر ہفتہ جیسا کہ مشہور ہے اپنے افسر کو طے شدہ نذرانہ پیش کرنا ہوگا تو وہ یہ نذرانہ انہی سے وصول کرے گا جن کی خدمت پر اسے مامور کیا گیا ہے پولیس کا تعلق براہ راست عام شہریوں کی خدمت اور امن و امان کے قیام سے ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس میں فرشتے نہیں فرشتہ صفت جوانوں کی بھرتی کو یقینی بنایا جائے ہمارے حکمرانوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی سوچ ، اپنے رویہ اور اپنے قول و فعل میں انقلابی تبدیلی لائیں جب تک ایسا نہیں ہوتا پولیس اور عوام ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے رہیں گے اور گھروں ، گلیوں اور بازاروں میں قانون کی دھجیاں بکھرتی رہیں گی۔ معقول تنخواہ اور ضروری سہولتوں کے بعد بھی کوئی بدعنوانی میں ملوث پایا جائے تو اسے سرعام پھانسی پر لٹکادیا جائے اسلئے کہ ایسا کرنے والا عادی مجرم اور معاشرہ اور اس کے اقدار کا دشمن ہی قرار پائے گا۔

No comments:

Post a Comment