شاید ہم کچھ کرنا ہی نہیں چاپتے

روزنامہ جنگ اتوار 17 اکتوبر 2004 ء

یہ تو ہمیں تسلیم ہے کہ دنیاوی علوم و آگہی اور سائنس و ٹیکنالوجی اور عکسری قوت کے لحاظ سے آج یورپ اور امریکہ دنیا میں سب سےزیادہ ترقی یافتہ ہیںلیکن اہل مغرب کے اس دعوے کی تائید نہیں کی جاسکتی کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ مہذب اور متمدن، آزادی اور انسانی حقوق کے محافظ ہیں۔ بحیثیت مجموعی مغرب کا یہ دعویٰ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا کہ وہاں عورت کو مردوں کے مساوی حقوق اور عزت و احترام حاصل ہے۔ بیلجیئم کے وزیز خارجہ نے حال ہی میں ان تہذیبوں کو جہاں عورتوں پر سترپوشی کے لئے زور دیا جاتا ہے برا بھلا کہہ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ایسے کرنا عورت کو کمتر درجہ دینے کے مترادف ہے موصوف کو وہ عناصر بھی پسند نہیں جو جنسی مساوات کی مخالفت کرتے ہیں انہوں نے اپنے بیان میں نام تو نہیں لیا لیکن ان کی تقریباً تمام باتوں کا مقصد بالواسطہ اسلام کے پیروکاروں کوہدف تنقید تضحیک بنانا ہے۔ مغرب کی چکا چوند سے متاثر ہو کر بیشتر مسلمان حکمراں اور دانشور بیلجیئم کے وزیر خارجہ کے خیالات کے بڑی حد تک ہمنوا ہیں لیکن جو لوگ شے کی حقیقت کو دیکھنے والی نظر رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آزادی ، انسانی حقوق اور مساوات مرد و زن کے دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ان دعوؤں کے پول افغانستان، عراق اور فلسطین میں آئے دن کی بمباری اور ابو غریب جیل میں قید مردوں اور عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک، گوانتاناموبے ، خلیج میں بغیر مقدمے چلائے مسلمانوں کی قید تنہائی سے کھلتے جارہے ہیں۔ آج مسلمان کتنے ہی گئے گزرے کیوں نہ ہوں اگر عورت کا احترام کہیں باقی ہے تو وہ صرف مسلم معاشرہ ہی ہے۔ یہ دعویٰ نہ تو خوش فہمی کی بنا پر ہے نہ کسی عصبیت کا نتیجہ ابھی ہم دیکھیں گے کہ ، ہمارا دعویٰ کتنا سچا ہے۔ بیلجئیم کے وزیر خارجہ کو اعتراض ہے کہ خواتین کو جسم ڈھانپنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اچھا لباس اور اچھا زیور عورت ہی کوزیب دیتا ہے اور مردوں کے لئے ریشم اور سونے کا استعمال حرام ہے لیکن مغرب جو مادہ پرستی کی دوڑ میں اندھا ہوچکا ہے اس نے آہستہ آہستہ عورت کو پہلے سونے، چاندی کے زیور سے محروم کیا اور اسے بناوٹی دھاتوں سے بہلایا جانے لگا پھر اسے ڈاروں کے نظریۂ ارتقا کے مطابق ابتدائی دور میں دھکیل کر لباس سے محروم کردیا گیا مغرب میں عورت کے احترام کا معیار کیا ہے؟ یہی نا کہ اسے ہرقسم کی اشیائے صرف کی تشہیر کا ذریعہ بنانے کی خاطر اسے بے لباس منظر عام پر لایا جائے مغرب یہ الزام لگاتا ہے کہ مشرق یا عالم اسلام میں عورت محکوم اور مجبور ہے اور کئی علاقوں کی خواتین متحرک خیموں (Moving Tents) کا نمونہ پیش کرتی ہیں اور مسلم معاشرے پر مرد پوری طرح مسلط ہیں لیکن دیکھنے والی آنکھہ تو یہ دیکھتی ہے کہ مسلم معاشرہ میں مرد پھٹے پرانے لباس کو بھی گوارا کرلیتا ہے لیکن عورت کو چاہے وہ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کسی بھی حیثیت میں ہو مکمل لباس مہیا کرتا ہے۔ عورتوں کے لباس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے "اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اور اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں (یعنی گھونگھٹ ڈال لیا کریں) یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ شریف، باحیا اور خاندانی عورتیں ہیں لونڈیاں یا اخلاق باختہ نہیں) اور ستائی نہ جائیں۔ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے (الاحزاب ۵۹)۔

اس کے برعکس مغرب میں مرد بیک وقت تہہ در تہہ کئی لباس زیب تن کئے رہتا ہے لیکن عورت بیچاری کو گرمی، سردی یا برسات کوئی بھی موسم ہو چند گرہ کپڑا بالائے ناف اور چند گرہ کپڑا زیر ناف استعمال کے لئے دیا جاتا ہے اسے بے لباس کرکے مردوں کی محفلوں کو اس کے رقص سے گرمایا جاتا ہے بیشتر کلبوں اور محفلوں میں مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی عورت کے ساتھہ آئے چاہے وہ عورت کوئی بھی ہو۔ اعتراض ہوتا ہے کہ مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرلیتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی ان کی بیویاں خود کو محفوظ سمجھتی ہیں اس کے بر خلاف جہاں مردوں کو ایک سے زیادہ شادی کی اجازت نہیں وہاں میاں اور بیوی بے اعتمادی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ مرد اپنی زندگی میں کتنی ہی عورتوں کو طلاق اور اسی طرح عورت مرد سے طلاق حاصل کرتی ہے اس کے علاوہ وہاں مغرب میں طلاق کا تناسب مشرق یا مسلم معاشرے کے مقابلہ میں بہت زیادہ ایسا کیوں ہے اس کی وضاحت خود مغرب کو کرنی ہے کہ کیا ایسا جنسی مساوات کا نتیجہ ہے یا عورت کو انسان کے بجائے ہاتھہ کا میل سمجھنے کا۔ مغرب جمہوریت اور انسانوں کے اظہارخیال کی آزادی کا بڑا عملبردار بنتا ہے لیکن ابھی ترکی کی پارلیمنٹ میں ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا تھا جس میں مرد اور عورت کی بدکاری کو جرم قرار دیا جانا تھا لیکن اس مسودہ اورسے بدکاری سے متلعق شق کو نکالنا پڑا اس لئے کہ ترکی یورپی یونین کی رکنیت کا امیدوار ہے اور یورپی یونین ایسے کسی ملک کو رکنیت دینے کے لئے تیار نہیں جس میں بدکاری کو جرم قرار دیا گیا ہو۔ ترکی ہی کی پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن کی رکنیت کو اس لئے ختم کردیا گیا کہ وہ سر کو ڈھانپتی تھی یعنی وہ یہ ثابت کررہی تھی کہ وہ مسلمان ہے۔ ابھی فرانس میں عورتوں خاص طور پر تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم مسلمان بچیوں پر سر نہ ڈھانپنے کی پابندی لگادی گئی ہے جو اسلام بیزاری کی بدترین مثال ہے حالانکہ کہا یہ جارہا ہے کہ تمام طالبات پر یہ پابندی ہے کہ ان کے لباس سے مذہب پرستی کا اظہار نہ ہو۔ اگر مسلمان قیادت واقعی بیدار اور جرأت مند ہوتی تو وہ اپنے اپنے ملکوں میں بھی غیر ملکیوں پر شریفانہ لباس کی پابندی لگاسکتی تھی یہ بے حسی کی علامت ہے کہ مغرب ہمیں لباس اور فکروعمل کی آزادی دینے کے لئے تیار ہے نہ آئین و قانون سازی اپنی اقدار کے مطابق کرنے دیتا ہے ہم بھی مغرب کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنس پرستی، عریانیت اور فحاشی کو فروغ دینے سے باز رہا جائے وہ ہماری سوچ تک پر پابندی لگائے جارہے ہیں اور ہم ان کی ڈگڈگی پر ناچتے چلے جارہے ہیں ۔ مسلمان حکمرانوں اور مسلمان دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مغرب میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور فحاشی کے سیلاب سے نہ صرف اپنے خطوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی تدابیر کریں بلکہ خود مغرب کو بھی یہ بتانے کی کوشش کریں کہ وہ آزادی کے نام پر عورت کو استحصال کرنے اور محض جنسی تسکین کا ذریعہ بنانے کی نہیں بلکہ تکمیل انسانیت کا ذریعہ بنائیں۔

No comments:

Post a Comment