لاتعلقی کا رویہ
روزنامہ جنگ اتوار 30 مئی 2004ء
سوچ و فکر کے لحاظ سے آج قوم تین واضح طبقوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک طبقہ تو ایسا ہے جو حکومت کے ناجائز کاموں کی بھی بھرپور تعریف و تائید کرتا ہے۔ دوسرا طبقہ حکومت کے جائز اقدامات میں بھی کیڑے نکالنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور تیسرا طبقہ وہ ہے جو ہر معاملہ پر "سانوں کیہہ" یا "میری بلا سے" کہہ کر اس طرح اطمینان سے بیٹھہ جاتا ہے گویا ملک کے حال اور مستقبل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ "سانوں کیہہ" قسم کی سوچ مایوسی اور ناامیدی کی انتہائی نفسیاتی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے اور اس کے ذمہ دار خارجی عوامل ہوتے ہیں جو اچانک نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اور غیر محسوس انداز میں ذہنوں کو اس طرح متاثر کرتے ہیں کہ لوگ سنگین اور اہم قومی اور ملکی معاملات سےبھی لاتعلق ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اپریل 1953ء میں محلاتی سازشوں میں مصروف ایک مفلوج گورنر جنرل ، وزیر اعظم کو معزول کرتا، اسمبلیوں کو توڑتا اور آئین کی دھجیاں بکھیرتا نظر آتا ہے۔ طویل انتظار کے بعد 1956ء میں قوم کو آئین نصیب ہوتا ہے لیکن سرحدوں کی حفاظت پر مامور افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف 7 اکتوبر1958ء کو شب خون مار کر عوامی حکومت اور آئین کو ختم کردیتا ہے۔ 1969ء میں ایک اورکمانڈر انچیف اس آئین کو پامال کرتا ہے جو 1962ء میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔ برسراقتدار جنرل سے ساز باز کے نتیجے میں سیاستدانوں کا ایک گروہ 1970ء کے انتخابات کو عملاً مسترد کر کے ملک کے دولخت ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ آخری سپاہی تک لڑنے کا دعویٰ کرنے والا ایک اور جنرل 16 دسمبر 1971ء کو بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تاریخی ہزیمت رقم کردیتا ہے۔ 1977ء میں ایک اور جنرل نے سیاسی حکومت کو ختم اور 1973ء کے متفقہ آئین کو لپیٹ کر طاق میں رکھہ دیا۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں سیاستداں ہوں یا جنرل ان میں سے اکثر کا مقصود اقتدار ہی رہا ہے۔ عدالتوں سے انصاف، پولیس سے امن و امان کی ضمانت، سرکاری اہلکاروں سے ہمدردی، عوامی نمائندوں سےمسائل کا حل ، عوام کے نام پر عوام کے مرضی اور خواہشات کے خلاف اہم فیصلے، قومی خودمختاری کا سودا، اچھی حکومت میں بروں کی بھرتی، اہلیت کے نام پر نااہل لوگوں پر نوازشیں، جمہوری اداروں کا بار بار جھٹکا، قومی عزت و وقار کو کھیل بنا لینا اس سے عام لوگوں کی ملکی معاملات میں عدم دلچسپی کو پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
منتخب عوامی نمائندوں کی بدعہدی کا اور حکومت کو اپنی مضبوطی کی خاطر بیشتر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی شہرت رکھنے والوں کو اپنی صفوں میں شامل کرلینا شرمناک مثالیں ہیں۔
انتخابات کے بے نتیجہ ثابت ہونے کے سبب پندہ بیس فیصد سے زیادہ لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرتے۔ انتخابات کے موقع پر ملک میں آئین، ضابطہ اور اخلاق کی پابندی نہ امیدوار کرتے ہیں، نہ سیاسی جماعتیں ، نہ انتخابی عملہ، نہ حکومت، نہ انتخابی کمیشن اور نہ خود رائے دہندگان، آئین میں امیدوار کی اہلیت کے بارے میں سخت شرائط کے باوجود نہ تو کوئی صاحب "صغیرہ" اس سے محروم رہتا ہے اور نہ "صاحب کبیرہ"۔
مہنگے فروش، ذخیرہ اندوز، دو نمبر مال فروخت کرنے والے، کم ناپنے اور کم تولنے والے رمضان ہو یا عید ہر موقع پر سرگرم رہتے ہیں۔ گاڑیوں کی چوری، چھینا چھپٹی، سرعام بسوں کے مسافروں کی لوٹ مار ہمارے یہاں زندگی کا معمول ہیں۔ غور کیجئے کہ بھوک کی وجہ سے جہاں خودکشی مفقود تھی اب کوئی دن ایسی خبروں کے بغیر نہیں گزرتا۔ کراچی عرصہ دراز سے بدامنی کی آماہ جگاہ بنا ہوا ہے۔ بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت سب ٹھیک ہے کا راگ الاپتی رہتی ہے۔ ہر حکمران آکر ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ اور اچھی حکومت دینے کا وعدہ کرتا ہے لیکن وہ وعدہ کبھی ایفا نہیں ہوتا۔ عوام غلط یا صحیح یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے داخلی معاملات ہوں یا تعلیمی پالیسی، نصاب، ترقیاتی منصوبے، فوجی قوت میں کمی، بجلی، گیس، ٹیلیفون، جائیداد حتٰی کہ پانی کے نرخ کا تعین سب امریکہ یا مالیاتی اداروں کے اشاروں پر کیا جاتا ہے۔ جمہوری اصولوں کی پاسداری کی باتوں کو مداخلت بیجا اور امریکی فوجیوں کی دراندازی کو غلط فہمی قرار دینا بھی مضحکہ خیز ہے۔ ایسے میں عام آدمی "سانوں کیہہ" نہ کہے تو اور کیا کرے۔
کفر کے فتوے اور "آزادی مساجد" کی تحریکیں ، تاجروں کا کم تولنا وار کم ناپنا، ٹرانسپورٹ کے من مانے کرائے، مسافروں کے ساتھہ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک، ٹیکسوں کی بھرمار، بجلی کی فراہمی میں بلاوجہ تعطل، پانی کی فراہمی میں کمی، مضر صحت پانی کی فراہمی، چور اچکے اور ڈاکوؤں کا کراچی جیسے شہر میں چلتی ہوئی بسوں اور ویگنوں کے مسافروں کو لوٹ لینا اور قانون کی زد سے صاف بچ نکلنا ہی ہمارے معاشرے کا طرہ امتیاز بنتا جارہا ہے۔
کوئی بھی سرکاری محکمہ ایسا نہیں جو بدعنوانی سے پاک ہو۔ سبکدوش ہونے والے سرکاری ملازمین کی پنشن ان کی خودکشی یا طبعی موت کے بعد ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں کسی بھی پاکستانی کی زبان پر "سانوں کیہہ " یا "میری بلا سے" جیسے الفاظ نہیں تھے۔ تعلیمی اداروں میں اسکاؤٹنگ کے علاوہ مباحثوں اور مذاکروں کا باقاعدگی سے انعقاد ہوتا تھا۔ طالب علم مقررین کے دوروں سے قومی یکجہتی فروغ پاتی تھی۔ مختلف سرگرمیوں کے سبب اجتماعیت کا احساس بھی اجاگر ہوتا تھا اور لوگ احساس محرومی کا شکار ہونے سے بھی بچے رہتے تھے لیکن ایوب خانی مارشل لا نے صحت مند اور تعمیری، سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں کو ختم کردیا جس کے نتیجے میں عوام گھٹن کا شکار ہوگئے۔ سیاسی جماعتوں کی رضاکار تنظیموں پر پابندی لگادی گئی۔ آج جلسے، جلوسوں میں جو ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اس کا سبب تربیت یافتہ رضاکاروں کا نہ ہونا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے نوجوانوں پر فوجی تربیت ختم کردی جبکہ ہمارے "آئیڈیل" یعنی امریکہ میں تو نوجوانوں کے لئے فوجی تربیت لازمی ہے اور آج عراق میں ایسے ہی فوجی بڑی تعداد میں بھیجے گئے ہیں۔ بھارت کی سیاسی جماعتوں کی رضاکار تنظیمیں صرف جلسے، جلوسوں ہی کے موقع پر نہیں ہنگامی حالات میں امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں لیکن بدقسمتی سےہمارے یہاں ایسی کوئی تنظیم نہیں ہے اور اس طرح نوجوانوں اور عوام کو قومی خدمت اور ملکی امور سے دور کر دینے کی سازش کی گئی جو خودکشی کے مترادف ہے۔ اب دیکھئیے کہ حکومتی سطح پر 5 فروری کو کشمیری حریت پسندوں سے کھل کر اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے نہ 23 مارچ کے عہد کی تجدید۔ امریکہ سے حالیہ دوستی کے بعد 28 مئی کے عظیم تاریخی کارنامے پر بھی ہم نادم ہونے لگے ہیں۔ 6 ستمبر کے کارناموں پر بھی پردہ ڈالا جارہا ہے مبادا کوئی دفاع وطن کے لئے جان کی بازی لگادینے والوں کو جہادی ہونے کا طعنہ دے دے۔ 9 نومبر کا دن ہم نے گانے والوں کے حوالے کردیا ہے۔ 25 دسمبر قائد اعظم کے یوم پیدائش پر بھی سانتا کلاز کا سایہ گہرا ہوتا جارہا ہے البتہ ہم یکم جنوری کی رات کو ایسی شان سے مناتے ہیں کہ مغرب والے بھی رشک کرتے ہیں پھر ویلنٹائن ڈے بھی اسی شان سے منانے لگے۔ "بسنت" کا تو کہنا ہی کیا اس نے تو خوشی کے تمام دنوں کو مات دے دی ہے اس جشن کو شان دوبالا کرنے کے لئے ہمارے پڑوس سے معروف اور غیر معروف فلمی اداکاراؤں، اداکاروں، سیاسی اور رضاکار مرد و خواتین ہزاروں کی تعداد میں لاہور آتی ہیں اور یہ لوگ واہگی کے راستے واپس جاتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ "نفرت کی لکیر کو ختم ہونا چاہئے" تو ہم تالیاں بجاتے ہوئے اپنے مہمانوں کو رخصت کرتے ہیں۔ پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے زبان اور لباس کسی بھی لحاظ سے پاکستانی نظر نہیں آتے لیکن قومیں اپنی قومی زبان ، قومی لباس، اقدار، روایات اور ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہماری پہچان مغربی لباس اور انگریزی زبان ہرگز نہیں ہوسکتے لیکن یہ تمام عوامل مل کر عوام کی بھارتی اکثریت کو "سانوں کیہہ " یا "میری بلا سے" کہنے پر مجبور کرتی ہے۔
No comments:
Post a Comment