قائد اعظم اور 11 اگست کی تقریر

روزنامہ جنگ اتوار 10 فروری 2002 ء

یہ قومی المیہ بھی ہے کہ ملک کا ایک خاص طبقہ فکر جو محدود ہونے کے باوجود بڑا مؤثر ہے یہ جانتا ہے نہ مانتا ہے کہ بابائے قوم نے 11 اگست 1947ء سے پہلے یا اس کے بعد بھی کبھی کچھہ اظہار خیال فرمایا ہے کسی کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ قائد اعظم کی کسی تقریر کو آئین کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کریں اور وہ یقیناً خلوص دل اور نیک نیتی کے ساتھہ یہ سمجھتے ہوں گے ہماری قوم کو تنگ نظری، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پسندی کے الزامات سے بری قرار دینے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے لیکن اس کےبرعکس سوچ رکھنے والوں پر یہ تہمت لگانا کہ وہ پاکستان کے وجود اور سالمیت کو آخری تباہی کے اس دہانے پر لے آئے جہاں وجود اور عدم وجود کے درمیان بہت معمولی فرق رہ گیا تھا۔ ہر گز درست قرار نہیں دیا جاسکتا اسی طرح یہ سمجھنا یا یہ سمجھانے کی کوشش کرنا کہ 11 اگست کی تقریر کے ذریعہ قائداعظم نے پاکستان میں اسلام کی حاکمیت کی بجائے سیکولر یا مذہب سے بیگانہ مملکت کے قیام کا اعلان کردیا تھا نہ ہوشمندانہ ہے نہ یہ دیانت کے معیار پر پورا اترتا ہے۔

اگر ہم بغور دیکھیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ جن نامساعد حالات میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا وہ کئی پہلوؤں سے پہلی اسلامی ریاست کے قیام سے وقت کے حالات سے زیادہ مختلف نہ تھے مدنیہ منورہ میں قائم ہونے والی پہلی مسلم ریاست کے سربراہ تو اللہ جل شانہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اورپاکستان کا سربراہ اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ادنیٰ غلام اور امتی تھا لیکن جب وہ 11اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کہہ رہا تھا کہ "آپ آزاد ہیں" آپ عبادت کے لئے اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں آپ اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے آزاد ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آپ دیکھیں گے کہ نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان مسلمان۔

مذہب کے حوالہ سے نہیں کیونکہ یہ تو ہر فرد کے ذاتی عقیدے کا مسئلہ ہے بلکہ صرف سیاسی اعتبار سے اور وہ بھی ایک ہی ریاست کے شہری کی حیثیت سے۔ تو وہ دراصل مسلمانوں کو ان کے فرائض یاد دلارہا تھا اور غیر مسلموں کو ان کے حقوق کی ضمانت دے رہا تھا اس لئے کہ پاکستان میں کسی خاص طبقہ کی حکومت قائم نہیں ہورہی تھی یہان مسلمانوں کی ایک ایسی مملکت عالم وجود میں آرہی تھی جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی محمد علی جناح نئی مملکت کے گورنر جنرل کے منصب پر فائز نہیں ہورہے تھے وہ بانی پاکستان بھی تھے، برصغیر کے مسلمانوں کے بے تاج بادشاہ بھی تھے اور اس پاکستانی قوم کے بابا بھی تھےجس میں غیر مسلم بھی شامل تھے وہ مجلس دستور ساز کے جن اراکین سے مخاطب تھے انہیں خوب معلوم تھا کہ اسلام تو نام ہی عدل وانصاف، رواداری، روشن خیالی، انسان دوستی اور ترقی پسندی ہے یہ چھوٹے بڑے، کالے گورے، امیر و غریب اور عربی و عجمی کے مابین ہر قسم کے امتیاز سے بالا تردین ہے۔

قائد اعظم کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی وہ مصلحت کوش تھے، اپنے اصولوں سے انحراف کرسکتے تھے ، اللہ کی طاقت کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھک سکتے تھے انتہائی بے رحمانہ ہے اس لئے کہ ان کے بڑے سے بڑے دشمن نے بھی کبھی ان پر سیاسی بددیانتی، موقع پرستی یا خوف و لالچ کا الزام نہیں لگایا وہ سچے، کھرے، بے باک ، نڈر اور ہر قسم کی منافقت اور ریاکاری سے پاک مسلمان تھے گزشتہ صدی کی پہلی دہائی میں جب قائد اعظم نے مسلمانوں کے ترجمان کی حیثیت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا آخر وقت سے ان کی کسی لغزش یا کمزوری کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی اسلام کے بارے میں ان کا فہم وقف علی الادلاد کے سلسلہ میں کوششوں سے نمایاں رہا ہے۔ آئیے قائد اعظم کے اپنے فرمودات کی روشنی میں 11اگست1947ء کے خطاب کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

14 اگست 1947ء کو انتقال اقتدار کے موقع پر وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے غیر مسلموں کے ساتھہ رواداری اور حسن سلوک کے سلسلہ میں جب شہنشاہ اکبر کے نقش قدم پر چلنے کی بات کی تو قائد اعظم نے اس دستور ساز اسمبلی میں اکبر کو نمونہ تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ " رواداری اور حسن سلوک کا جو مظاہرہ اکبر نے کیا وہ کوئی نئی بات نہیں تھی یہ تو تیرہ سو سال پہلے ہمارے پیغمبر نے اپنے قول و فعل سے اپنے مفتوح یہودیوں کے ساتھہ بہترین سلوک کرکے بتادیا اور ان کے عقیدے اور ایمان ایمان کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ احترام کیا۔"

"ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے (فوجی افسران سے خطاب 11 اکتوبر1947ء)۔

" آئیے ۔۔۔ پاکستان کی تشکیل و تعمیر کے لئے کچھہ تدبیر کریں جو آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت بھی ہے۔ ( تقریر 30 اکتوبر 1947ء )

" اگر ہم ہر معاملہ میں تحریک اور رہنمائی قرآن مجید سے حاصل کریں تو میں پھر کہوں گا کہہ آخری کامیابی ہماری ہوگی۔" جلسہ عام (لاہور 30 اکتوبر 1947ء )

" آپ کو اپنی ذات میں فقط مجاہدوں کا سا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ( جلسہ عام لاہور 30 اکتوبر 1947ء )

"مسلمان کے لئے اس سے بہتر وسیلہ نجات اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ حق کی خاطر شہید کی موت مرے ۔" (جلسہ عام لاہور 30 اکتوبر 1947ء )

" ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات و اصولوں پر رکھیں۔" ( شاہی دربار میں 14 فروری 1948ء )

" ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزماسکیں ۔" ( اسلامیہ کالج پشاور 1948ء )

" میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھہ سکتا جو دیدہ و دانستہ اور شرارتاً یہ پروپیگینڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ ۔ ۔ ہم دستور پاکستان بنائیں گے اور دنیا کو دکھائیں گے کہ یہ رہا ایک اعلیٰ آئینی نمونہ۔ " ( کراچی بار ایسوسی ایشن 25 جنوری 1948ء )۔

" اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ (آئین) جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ۔ ۔ ۔ ۔"( امریکی نامہ نگار سے انٹرویو فروری 1948ء)۔

" اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تحصیص اور مشوروں سے کیا کرو۔ (سبی دربار 14 فروری 1948ء )۔

" اپنے آپ کو شرارت پسند پروپیگینڈہ بازوں اور خود غرض اشتعال انگیزوں کا آلہ کار نہ بننے دیجئے۔" (جلسہ عام ڈھاکہ 28 مارچ 1948ء )

ویسے بھی قائد اعظم تو خیر بابائے قوم تھے لیکن اس طرح تقریریں آئین کا حصہ بننے لگیں تو کل اور بھی حاکم اپنی تقریر کو آئین کا حصہ بنانے کی کوشش کرے گا اور اس طرح ایک وقت آئے گا کہ آئین ان تقریروں کے پلندہ میں دب کر نظروں سے اوجھل ہوجائے گا اور اگر 11 اگست کی تقریر ہی کی بات ہے تو پھر قائد اعظم کی تمام تقاریر کو کیوں یہ حق نہ دیا جائے اس سلسلہ میں یہ البتہ کہا جاسکتا ہے کہ چند جید علماء ، ممتاز دانشوروں اور صاحبان علم و فن پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو قائد اعظم کی تمام تقاریر کا بغور جائزہ لے اور ان کے حاصل مطالعہ پر مشتمل ایک دستاویز تیا کی جائے اور دیانتداری اور غیر جانبداری کےساتھہ نتیجہ اخذ کرکے قوم کو بتایا جائے کہ قائد اعظم اسلام سے " آزاد" پاکستان چاہتے تھے یا ایک اسلامی مملکت ان کا مطمع نظر تھا۔

No comments:

Post a Comment