اپنوں پہ خفا اور غیروں سے وفا
روزنامہ جنگ پیر20 ستمبر 2004 ء
ملک کے مختلف علاقوں خاص طور پر وانا وغیرہ میں القاعدہ یا " دہشت گردوں" کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال پر جب قومی رہنماؤں ، دانشوروں یا صحافیوں کی طرف سے بجا طور پر اعتراض سامنے آتا ہے تو حکمرانوں کی طرف سے قوم کو یہ کہہ کر دھمکانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو امریکہ خود یہ کام کرتا اس طرح گویا ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ اپنی ہی فوج کے ذریعے اپنے ہی ہم وطنوں کو بمباری اور ہر قسم کی اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنانا قومی مفاد میں ہے۔ جوں جوں طاقت کے استعمال میں تیزی آتی جارہی ہے ہمارے فوجی جوان اپنے بھائیوں کے ہاتھوں شہید ہورہے ہیں۔ قبائل کے مکانات مسمار بھی کئے جارہے ہیں اور ان کی نقل و حرکت پر اس طرح کی پابندیاں بھی لگائی جارہی ہیں کہ وہ اپنے مریضوں کو اسپتالوں تک بھی نہیں لے جاسکتے ان کے کاروبار ختم کئے جارہے ہیں کھانے پیینے کی اشیاء کی فراہمی محدود کی جارہی ہے ہیلی کاپٹروں سے لیزر میزائیلوں کا نشانہ بنا کر ان کو ہلاک و زخمی کیا جارہا ہے یقیناً ہلاک و زخمی ہونیوالوں میں غیر ملکی بھی ضرور شامل ہوں گے لیکن ہمیں یہ بہرحال تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کاروائی کا سب سے زیادہ نشانہ پاکستانی ہی بنائے جارہے ہیں۔ اس لئے کہ ہماری کاروائی اپنی ہی سرزمین پر ہورہی ہے اس طرح معلوم نہیں کیوں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ہم بھی بدقسمتی سے اسرائیل کے نقش قدم پر چل رہے ہیں وہاں بھی فلسطینیوں کے ساتھہ ایسا سلوک کیا جاتا ہے لیکن وحشیانہ سلوک کرنے والا بہرحال مسلمان نہیں، یہودی ہے۔ اس سلسلے میں خود ہمارے اپنے ذمہ دار حضرات ہمارا کس طرح مذاق اڑارہے ہیں اس کا اندازہ اس بیان سے بخوبی ہوجاتا ہے ہے کہ " صدر مشرف دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کا ساتھہ نہ دیتے تو پاکستان کا بلواڑہ بنادیا جاتا" اگر یہی بات بھارت کا کوئی لیڈر ہمارے بارے میں کہہ دیتا تو سوچئے کہ ہمارا رد عمل کتنا شدید ہوتا لیکن ہم اب اتنے بے بس ہوگئے ہیں اور بے حس بھی کہ ایسی باتوں پر " ہماری بلا سے" کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں ۔ اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر ہم دہشت گردی کے خلاف کاروائی کے سلسلہ میں دنیا کو مطمئن نہ کرسکے تو ہمیں بھی بمباری کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور یورپی ممالک تجارت کے حوالے سے اپنی رعایتیں واپس لے سکتا ہیں اس طرح کی باتوں سے قوم میں مایوسی کے ساتھہ احساس کمتری اور بزدلی پیدا ہورہی ہے اور جو قوم مایوس، مرعوب اور بزدل بن جاتی ہے اس کا زندہ رہنا محال ہوجاتا ہے بقول شاعر مشرق
چیتے کا جگر چاہئے ، شاہین کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ
جہاں تک دنیا کا ہم سے خوش اور مطمئن ہونے کا تعلق ہے تو اس کا معیار تو اللہ نے بڑے صاف الفاظ میں بتادیا ہےکہ " یہود و نصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلو ۔" (سورۃ بقرہ آیت 120) اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آج امریکی اور مغربی قیادت پاکستان کی قیادت سے جس طرح راضی ہے، کیا اس کا سبب وہ تو نہیں ہے جس کی نشاندہی اوپر کی گئی ہے اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہئے کہ ہم مسلمانوں کے قتل میں امریکہ کی تقلید کررہے ہیں اوراسطرح تو ملک و قوم کا مستقبل محفوظ نہیں بلکہ مخدوش اور غیر محفوظ ہوتا رہے گا۔ بچپن سے ہم یہ بات سنتے بھی آئے ہیں اور پڑھتے بھی کہ " پہلے سوچو پھر بولو" ویسے تو اس کا اطلاق ہر انسان کے منہ سے نکلنے والے ہر جملے پر ہوتا ہے اور بات اگر قومی امور یا بین الاقوامی تعلقات سے متعلق ہوتو اس کیلئے سوچئے کے علاوہ مشورہ لینا بھی انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔ لیکن ایسی باتیں جس ہلکے پھلکے انداز میں ہمارے یہاں کہی جارہی ہیں ان سے " پہلے پاکستان" کے نعرے کے ساتھہ قومی مفادات کے بارے میں بھی غیر سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم دیکھہ رہے ہیں کہ اب خود امریکہ اور یورپ کے لوگوں کی اکثریت بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ آزادی، خود مختاری، انسانی حقوق اور تہذیب و ثقافت کو سب سے سے زیادہ خطرہ اگر آج کسی ملک سے ہے تو وہ صرف امریکہ ہے اور ہم اس کے سب سے بڑے اتحادی ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا ہے کہ ہم بلا چوں چرا کسی کے ظالمانہ اور من مانے کو تسلیم کرلیں۔
ویسے بھی وانا میں کاروائی کیلئے ہم جو جواز پیش کرتے ہیں اس میں ہماری نظر ان کے خطرات مضمرات تک نہیں پہنچی کہ کل کو ہمیں کہیں یہ بھی نہ کہنا پڑ جائے کہ " آزاد کشمیر اور پاکستان کے فلاں علاقہ میں فوجی کاروائی کرکے دہشت گردوں کے کیمپ ہم تباہ نہیں کرتے تو بھارت یہ کام خود کردیتا" پاکستان الحمدللہ ایک مضبوط اور طاقتور ملک ہے اس کے باشندے بہادر اور فوج جانباز ہے وہ اپنے وطن عزیز کا دفاع کرتا خوب جانتے ہیں اس لئے ہماری طرف سے یہ تاثر دینے کی قطعی ضرورت نہیں کہ پاکستان کوئی ایسا گیا گزرا ملک ہے کہ یہ کسی کی غلامی قبول کرلے گا۔ یہ الگ بات ہےکہ خود ہم نے اس کو دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا ہے ہم نے اس کے مادی وسائل سے غیر ملکی بینکوں کے پیٹ بھرے ہیں اور آج بھی ایسے ہر لحاظ سے کمزور کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
لیکن یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ 1947ء کے پُر آشوب اور غیر یقینی حالات میں بھی ہم نے کامیابی کے ساتھہ دشمن کو ہر میدان میں مات دی ہیے تو پھر آج ہم حالات کا مقابلہ کرنے سے کیوں کترا رہے ہیں جبکہ ملک الحمدللہ پہلے کے مقابلے میں آج ایک ہزار گناہ بہتر حالت میں ہے۔ ہمیں ہر طاقتور کے سامنے سر بسجود ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رقبہ، آبادی، وسائل اور عکسری قوت کے لحاظ سے امریکہ کے مقابلے میں کیوبا کی مثال ہاتھی اور چوہے سے مختلف نہیں لیکن کیوبا چار عشروں سے بھی زیادہ مدت سے امریکہ کی ہر قسم کی پابندیوں اور دھمکیوں کے مقابلے میں پامردی اور مستقل مزاجی کے ساتھہ ڈٹا ہوا ہے اور اپنی آزادی اور خودمختاری کے سفر کو عزت و وقار کے ساتھہ جاری رکھے ہوئے ہے تو ہم ایسا کرنے کی جرأت کیوں نہیں رکھتے۔
ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہئےکہ موجودہ جنگ کو جسے آپ جو بھی نام دے لیں حقیقت میں عالم اسلام کے خلاف کھلی صلیبی جنگ ہے اور امریکہ کے صدر جارج بش نے 16 ستمبر 2001ء کو صاف بتادیا تھا کہ یہ صلیبی جنگ ہوگی جو طویل عرصے تک جاری رہے گی لیکن بدقسمتی سے اس جنگ میں ہماری جانی، مالی اور اخلاقی قربانیاں امریکہ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اگر ہم اس جنگ سے خود کو دور کرسکیں تو یہ نہ صرف پاکستان اور عالم اسلام بلکہ خود امریکہ کے مفاد میں بھی بہتر ہوگا۔ اسطرح دنیا میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ رک جائے گا۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم ملست اسلامیہ کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ ایسا کرنا انتہائی آسان ہے اس کے لئے اللہ نے ہمیں باہمی مشاورت کی ہدایت فرمائی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ملک کی قسمت کے فیصلہ کا اختیار کسی ایک فرد کو ہر گز نہ دیا جائے چاہے وہ کتنا ہی بڑا محب وطن اور معاملہ فہم کیوں نہ ہو عصر حاضر میں قائد اعظم سے زیادہ مخلص ، زیرک ، معاملہ فہم قائد نہیں گزرا لیکن وہ بھی مشاورت کے اصول پر سختی کے ساتھہ عمل کرتے رہے۔ انہوں نے قوم پر کوئی فیصلہ مسلط نہیں کیا یہی نہیں اللہ نے اپنے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ملّی امور میں فیصلہ کے لئے مشاورت کا پابند بنایا تھا تو ان کے امتی کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ بااختیار ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کو ہم یہ تاثر نہ دیں کہ ہم چودہ کروڑ عوام فکر و تدبر کے لحاظ سے بانجھہ ہیں۔ اس قوم میں سوجھہ بوجھہ اور تدبر و تفکر کے لحاظ سے عظیم لوگوں کی کمی نہیں ہے ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ملک میں قومی اسمبلی بھی موجود ہے ، سینٹ بھی قائم ہے اور صوبائی اسمبلی بھی کام کررہی ہیں۔ لیکن اگر فیصلے کا اختیار صرف ایک ہی فرد کو حاصل ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ ان اداروں اورتاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کی حیثیت محض نمائشی ہے جن کو ختم کرکے ہم ماہانہ اربوں روپے بچا سکتے ہیں اور ویسے بھی آج کل ہمارا زور صرف دولت کے ذخیرہ پر ہی ہے۔ عوامی مسائل کے حل کی طرف نہیں لیکن یاد رکھنا ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے کہ " میری امت کا فتنہ مال ہے " کہیں ہم ایسے ہی کسی فتنے کا شکار تو نہیں ہوگئے۔
No comments:
Post a Comment