آزادی فلسطین کے علمبردار شہید شیخ احمد یٰسینؒ

روزنامہ جنگ جمعرات 25 مارچ 2004ء

22 مارچ کی صبح نماز فجر کے بعد شیخ احمد یٰسین کو شہید کردیا گیا۔ اس کاروائی کے لئے اسرائیل نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے میزائل سے حملہ کیا۔ شیخ احمد یٰسین بچپن میں کھیل کود کے دوران پیش آنے والےحادثہ کے نتیجہ میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے۔ ان کی بنیائی بھی کمزور تھی اور اتنا آہستہ بولتے تھے کہ چھوٹے کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی باآسانی ان کی آواز سن نہیں پاتے تھے۔ حصول علم کے سلسلہ میں مصر میں اپنے قیام کے دوران وہ اخوان المسلمین سے متاثر ہوئے وہ ایک جید عالم دین بھی تھے۔ ایسی شخصیت کو اسرائیل نے کیوں شہید کیا؟ اس کا واحد سبب یہ تھا کہ شیخ احمد یٰسین سرزمین فلسطین کو یہودی تسلط سے مکمل آزادی کے علمبردار تھے۔ ان کا یہ پختہ عقیدہ تھا کہ اسرائیل کی غلامی سے نجات صرف جہاد کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ جسمانی معذوری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ زندگی کی نعمت سے بھرپور لطف اندوز ہونے سے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔اور ان کی پرلطف زندگی ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ نگاہوں میں کانٹوں کے بستر پر گذری لیکن ایک مومن کے لئے تو وہ پھولوں کی سیج پر زندگی کا لطف اٹھاتے تھے۔

انہوں نے آزادی فلسطین کی عملی جدوجہد کے لئے حماس کے نام سے جہادی تنظیم قائم کی۔ شیخ احمد یٰسین کو اسرائیل میں عمر قید کی سزا بھی دی گئی اور انہیں اس سے پہلے بھی راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا لیکن ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انہیں یہ یقین تھا کہ موت کو ایک وقت آنا ہے۔ اس کا استقبال کیدڑ کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ شیر کی طرح ، شیخ احمد یٰسین نے تو ایک مجاہد کی طرح شہادت کا انتظار کیا اور اللہ تعالٰی نے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرما کر اپنے جوار میں بلا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوت ایمانی کا کرشمہ تھا کہ انہوں نے فلسطین کے بچوں، بوڑھوں اور جوان مردوں اور عورتوں میں جہاد کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جذبہ اور شوق پیدا کردیا کہ جوان تو جوان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور ڈیڑھ سالہ بچہ کی جوان ماں تک دشمن کو ہلاک کرنے کی غرض سے اپنے جسم سے بم باندھ کر منزل شہادت کے لئے نکل کھڑی ہوئیں۔ جس قوم کے افراد اپنے دین و ایمان اور آزادی کے لئے جان دینے پر اتر آئیں ان کو دنیا کی کوئی طاقت ختم کرسکتی ہے نہ غلام بناسکتی ہے۔ ویسے بھی حق تو ہے ہی غالب آنے کے لئے اور باطل کو راہ فرار اختیار کرنی ہے۔ باطل کس قدر بزدل اور ڈرپوک ہوتا ہے اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے اپنے عوام کو خوف سے نکالنے کی غرض سے شیخ احمد یٰسین جیسے معذور شخص کی زندگی کے چراغ کو گل کرنا ضروری سمجھا لیکن اسرائیل کے لئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کہ اس کھلی دہشت گردی کے بعد لاکھوں شہید ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسرائیلی قاتل طیاروں کی پرواز کے باوجود شہید کے جنازے میں شرکت کرکے انتقام انتقام کا نعرہ بلند کرتے رہے اس سے اسرائیل کو بخوبی معلوم ہوگیا ہوگا کہ ایک شیخ احمد یٰسین کے خون کے ہر قطرہ سے بیسیوں مجاہدین میدان میں نکل آئیں ہیں۔ یہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں نے جس طرح اس واقعہ کی مذمت میں مظاہرے اور بیانات جاری کئے ہیں اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ شیخ احمد یٰسین محض حماس کے زہنما ہی نہیں تھے وہ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیلے ہوئے ہر اس مسلمان کے دل میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھے، جس کے سینہ میں فریضہ جہاد کا جذبہ موجزن ہے۔

شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نے اس واقعہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قابل قبول اور بلاجواز قرار دیا ہے جب کہ اسرائیل کا وجود محض برطانیہ کی ہٹ دھرمی کے سبب ہے اور امریکہ اس کی سرپرستی کرتا ہے ۔ ترکی، مصر اور دوسرے مسلمان ملکوں میں لوگوں کا سڑکوں پر نکل آنا فلسطین کی آزادی بلکہ ہمتِ مسلمہ کی بیداری کی علامت اور اس کی یکجہتی اور اسرائیل کے لئے پیغام مرگ ہے۔ شیخ احمد یٰسین تو اپنی زندگی کا وہ عظیم الشان مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے یعنی شہادت اور وہ اللہ تعالٰی کے دربار میں اعلٰی مقام اور دائمی حیات کے مستحق قرار پاگئے ہیں لیکن اسرائیل ان کے تصور سے بھی کانپتا رہے گا۔ شیخ احمد یٰسین کی شہادت کے پس منظر پر غور کرتے ہیں تو نہ چاہنے کے باوجود ہمیں اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اسرائیل آئے دن جس بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھہ نہتے مسلمانوں کا خون بہارہا ہے اس کی اس دہشت گردی کا سرپرست اعلٰی امریکہ تو ہے ہی لیکن مسلمان ملکوں کے سربراہ اور حکومتیں بھی عرض مقدس میں اس معصوم اور بے گناہ خون کی ارزانی کے بالواسطہ ذمہ دار ہیں۔

امریکہ کو آج صلیبی جنگ کے آغاز کا جو حوصلہ ملا ہے بدقسمتی سے اس کے ذمہ دار بھی وہی مسلمان حکمران ہیں جو اسلامی فہم و فکر کی صلاحیت نہیں رکھتے یا اپنے اقتدار کو اللہ تعالٰی کی رضا سے نہیں امریکہ کی خوشنودی سے مشروط سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 21 ویں صدر کی صلیبی جنگ میں یہ حکمران امریکہ کے ہر اول دستہ کے طورپر کام کررہے ہیں۔ اگر مسلمان حکمران یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی آزادی ان کی خودمختاری اور انکی جان و مال اور عزت و آبرہ اور تہذیب و ثقافت کی تباہی اور بربادی میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوتو انہیں چاہئے کہ وہ امریکہ کی جارحیت میں اس کا حلیف بننے سے انکار کردیں۔ یہود و نصاریٰ کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برادری مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔ اللہ تعالٰی کے حکم کی روشنی میں وہ ایسا کرنے کے ہرگز مجاز نہیں وہاں مسلمان، مسلمان کا اور یہود و نصاریٰ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق بن سکتے ہیں اور آج ہم تو باہم دست و گریباں ہیں لیکن دشمن ایک ہے۔

ہمیں سوچنا چاہئے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہوں یا فلسطین ، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا اور کوسوو اور ایسے ہی دیگر علاقوں میں کسی بھی تحریک آزادی کی حمایت مغرب نہیں کرتا اس لئے کہ ان تمام خطوں کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کا الزام لگا سکتے ہیں۔ چیچنیا کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دے سکتے ہیں لیکن وہ مشرقی تیمور میں مداخلت کرکے ایک آزاد عیسائی ریاست قائم کرواسکتے ہیں۔

اگر مسلمان حکمران اور عام مسلمان حالات کا بغور جائزہ لے کے مغرب کی منافقت کو جتنی جلد سمجھہ لیں اتنا ہی خود ان کے لئے بھی اور امت کے لئے بھی بہتر ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس واقعے کی مذمت تو کی لیکن کاروائی کا کوئی عندیہ نہیں دیا ، اب سلامتی کونسل کا جو اجلاس طوہاً و کرہاً بلایا گیا ہے وہ فلسطین کی درخواست پر ہورہا ہے اور قطعی امید نہیں کہ اس میں قرار داد مذمت منظور کرلی جائے گی، اس لئے کہ امریکہ ہر گز برداشت نہیں کرے گا کہ اشاروں کنایوں میں بھی اسرائیل کے خلاف کوئی بات کی جائے۔ مسلم امہ کو چاہئے کہ وہ امریکہ سے آزاد ممالک کے ساتھہ مل کر اسرائیل کو لگام دیں ورنہ آہستہ آہستہ اس کا عفریت ہر آزاد ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کر ختم کردے گا۔ یہ کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ اسرائیل کے نام نہاد وزیر اعظم نے شیخ احمد یٰسین کو شہید کرنے کی کاروائی کی نگرانی خود کی اور اب اسرائیل نے یاسر عرفات اور لبنانی حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصر اللہ سمیت فلسطینی قیادت کو نشانہ بنانے کا اعلان کردیا ہے لیکن پوری دنیا خاموش ہے خاص طور پر مسلمان حکمران تو ایسے خاموش ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھہ گیا ہو۔

جب تک دنیا متحد ہوکر اسرائیلی دہشت گردوں کے خلاف امریکہ کا ساتھہ دینے سے انکار نہیں کرے گی۔ اسرائیل نہتی آبادیوں پر اسی طرح گولے برسانا اور بچوں، خواتین اور نوجوانوں کو شہید کرتا رہے گا۔ " اسلامی عسکریت پسندی" کے بھوت کی بجائے امریکہ کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کو لگام دے جو اصل دہشت گرد ہے، لیکن اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے تمام مسلم ممالک افغانستان، عراق ور جنوبی وزیرستان میں امریکہ کے کھیل میں اس کا ساتھہ دینے سے انکار کردیں لیکن ایسا کرنے کے لئے جرأت کی ضرورت ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں۔

No comments:

Post a Comment