اداروں کی پامالی روکنا ضروری ہے

روزنامہ جنگ اتوار 25 جولائی 2004ء

اگر غور و فکر کے لئے ہم تھوڑا سا وقت نکال سکیں تو ہمیں اس نتیجے پر پہنچتے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ آزادی کے بعد قائد ملت کی حیات تک تو ہم نے انتہائی پریشان کن حالات کے باوجود ایک آزاد، خودمختار، خود دار اور غیرت مند قوم کی حیثیت سے وقت گزارا لیکن اس کے بعد ہشت پا سازشی عناصر اس طرح ہمارے جسد سیاسی سے لپٹ گئے کہ اب تک ہم اس سے نجات نہیں پاسکے ہیں اور اقتدار کے بوالہوسوں نے قوم کی پیٹھہ میں چھرا گھونپنے سے کبھی دریغ نہیں کیا پھر آہستہ آہستہ ہمارے دلوں سے بھی احساس زیاں جاتا رہا یہی سبب ہے کہ آج ہمیں نہ قومی مفادات کی فکر ہے نہ ملک کی سالمیت کا خیال نہ قومی عزت و وقار سے ہمیں کچھی زیادہ سروکار ہے۔ 1947ء سے کافی پہلے ہمیں معلوم تھا کہ ہمارا رہنما کون اور کیسا ہے ہم یہ بھی جانتے تھے کہ ہماری منزل کیا ہے۔ منزل تک پہنچنے کا راستہ کونسا ہے ہمیں یہ بھی خبر تھی کہ منزل پر پہنچنے کے بعد ہمیں کیا کرنا ہے نیز یہ کہ حصول منزل کا مقصد کیا ہے لیکن آج ہم بقول شاعر ہم اس مقام پر پہنچ گئے کہ

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہبر کے ساتھہ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

رہنماؤں سے محروم ہماری قوم میں حکمراں بننے کے خواہشمند تو بہت ہیں لیکن ہم نہیں جانتے ہیں کہ وہ ملک میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ قومی مفاد سے ان کی کیا مراد ہے۔ وہ ہمیں کہاں اور کس راستے پر لے جارہے ہیں یا لے جانا چاہتے ہیں اور ہم اندھیرے کمرے میں سیاہ بلی کی تلاش کی کوشش کے مانند قومی مفاد ملک کی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے نام پر ہاتھہ پاؤں مار رہے ہیں لیکن نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ ہمارے ساتھہ بلکہ ہمارے بعد آزاد ہونے والی کئی قومیں قیامت کی چال چل کر اتنی آگے نکل گئی ہیں کہ ان کی گرد تک پہنچنے میں بھی ہمیں عشرے درکار ہوں گے۔ ایک ایک کرکے ہمارے تمام اداروں کو ختم نہیں تو بے اثر بنا کر ضرور رکھہ دیا گیا ہے۔ تقسیم کا ر کا مقصد کام میں آسانی اور تیز رفتاری ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں اداروں کا اپاہج بنانے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ اس عمل سے ایک طرف تو ہمارے جسد قومی کا ہر عضو چور ہے اور اعضائے رئیسہ ایک ایک کرکے جواب دے رہے ہیں ، ہماری سوچ اس قدر ماؤف ہوچکی ہے کہ ہم اپنے اور غیر کے قومی مفاد، اچھے اور برے ، دوست اور دشمن میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم نظر آنے لگے ہیں لیکن اگر ہم چاہیں تو اب بھی امید کے چراغ روشن ہوسکتے ہیں اور ہم چاہیں تو خرابیوں کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں لیکن اس لئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ مضبوط، مستحکم، متحرک اور فعال ادارے ہی قوم کا سب سے بڑا سہارا اور سرمایہ ہوتے ہیں یہی سبب ہے کہ سازشی عناصر نے سب سے پہلے اداروں ہی کا اپنا ہدف بنایا اور آج ملک میں سب سے زیادہ ناپائیدار ادارہ ہے تو وہ جمہوریت ہے، سب سے زیادہ بے وقعت دستاویز یا عہد نامہ ملک کا آئین ہے اگر ہر مقتدر کے پاؤں تلے روندا جاتا ہے تو وہ قانون ہے۔ یہ رجحان فروغ پارہا ہے کہ ہم میں سے مقتدر شخصیت خود کا پاکستان کے لئے لازم و ملزوم قرار دینے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتی بلکہ کچھہ تو اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہنے لگتے ہیں کہ فلاں شخص پاکستان کی پہچان ہے گویا اولیت شخصیت کو حاصل ہے ملک کو نہیں۔ ایوان وزیر اعظم میں 45 دن کے لئے آئے ہوئے وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین کے خیالات یا ان کی حکمت عملی سے تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ان کی حب الوطنی اور خلوص کے بارے میں وہ رائے نہیں ہوسکتیں۔ ان کا یہ عزم بھی قابل ستائش ہے کہ وہ مسلم لیگ کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں اگر ملک میں دو تین سیاسی جماعتیں مضبوط اور مقبول ہوں تو پھر جمہوریت کو بھی استحکام حاصل ہوگا اور اس مقصد کے لئے ملک میں ترقیاتی کاموں کی ذمہ دار مسلم لیگ ہو لیکن اس پر غور کیا جائے تو یہ بات قابل فہم تو نہیں لیکن خطرناک نتائج کی حامل ضرور ہے۔ ترقیاتی کاموں کی نگرانی یا ان کی ذمہ داری ہمیشہ حکومت وقت ہی کی ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت میں ایسا کرنا اس لئے بھی ناقابل عمل ہے کہ آج ملک میں صرف مسلم لیگ ہی کی حکومت نہیں ہے، حکمرانی میں اس کے اتحادی بھی شامل ہیں اور حزب اختلاف بھی تقریباً 130 اراکین پر مشتمل ہے پارٹی کے ذریعے یہ کام کروانا ہوگا جبکہ پارٹی کارکن قانون ، قاعدوں کے پابند نہیں ہوتے نہ انہیں کام کا تجربہ ہوتا ہے ایسی صورت میں سرکاری محکموں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی حالانکہ وہی قانون کے تحت کام کرنے کے پابند ہوتے ہیں انہی کی غفلت پر سرزنش اور بددیانتی پر سزا دی جاسکتی ہے۔ سیاسی سرگرمیوں پر مسلسل پابندیوں کا نتیجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کا فقدان ان کی تربیت مفقود اورلیڈروں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ سرکاری اور جماعتی عہدوں کو یکجا کرنے کا منطقی نتیجہ بھی اقتدار و اختیارات کو چند لوگوں تک محدود کرنا ہوگا۔ بہرحال چوہدری شجاعت حسین کا یہ جذبہ کہ شہر شہر، گاؤں گاؤں ترقیاتی عمل شروع ہوں لیکن یہ پارٹی کی نگرانی سے آزاد نہیں ہوئے تو ملک میں عوامی سطح پر بے چینی اور انتشار کا باعث ہوگا ویسے بھی مقامی سطح پر ترقیاتی کام شہری حکومتوں کے ذمہ ہیں اگر ان سے یہ اختیار لے لیا گیا تو پھر مقامی حکومتوں کو نظام منہدم ہو کر رہ جائے گا جبکہ اس نظام کو مستحکم کرنا ضروری ہے ۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے سیاسی اور جمہوری ثقافت کو فروغ نہ دیا جاسکا نہ اسے مستحکم کیا جاسکے اس لئے حکمراں پارٹی کو ترقیاتی منصوبوں کو ذمہ دار بنانے سے اور چوہدری شجاعت حسین تسلیم کریں گے کہ ہمارے یہاں حکمراں پارٹی کے کارکن اور اس کے قائدین بالعموم ہر قسم کی قانونی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ برسراقتدار پارٹی کے کارکنوں کو آج بھی سرکاری گاڑیوں وار پیٹرول کی سہولت حاصل ہے ۔ یقیناً حکومت اس سے انکار کرے گی لیکن زمینی حقائق کسی کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے مشروط نہیں ہوتے۔ سرکاری پیسہ بلا امتیاز تمام لوگوں کو حق ہوتا ہے صرف برسر اقتدار پارٹی کے لیڈروں اور ان کے کارکنوں کے لئے نہیں، کوئی جوان ان بری اور خطرناک روایت کا خاتمہ کرکے قوم کو سیدھے اور شفاف راستے پر گامزن کرے ؟

No comments:

Post a Comment