بلدیاتی انتخابات میں نگراں مقرر کرنے کا معاملہ
روزنامہ جنگ اتوار 28 ربیع الاول 1426 ھ 8 مئی 2005ء
چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے بالآخر یہ فیصلہ کر ہی لیا گیا کہ بلدیاتی انتخابات سے پہلے بلدیاتی ادارے تخیل اور ناظمین کی جگہ نگراں مقرر کردیئے جائیں گے بین الصوبائی اجلاس میں مقامی حکومتوں کے حکم میں کل 77 ترامیم منظور کی گئی ہیں جو صوبائی حکومتیں بذریعہ حکم نافذ کریں گی۔ ان کے مطابق بلدیاتی اداروں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کردار کو وسعت دینے سے متعلق ضابطہ کار کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بغیر مقامی حکومت کمیشن کی سفارش پر کسی بھی ضلعی ناظم کو برطرف کرنے کا اختیار صوبائی وزرائے اعلٰی کو حاصل ہوجائے گا ان ترامیم کے بعد مقامی حکومتوں کے ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلی آجائے گی اور عملاً وزیر اعلٰی کو ان اداروں پر بالادستی حاصل ہوجائے گی البتہ 5 کے اضافہ کے ساتھہ شہری ضلعی حکومتوں کی تعداد نو ہوجائے گی جو ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ ابھی چند روز پہلے دیہی ترقی اور بلدیات کے وزیر مملکت ظفر اقبال وڑائچ اور قومی تعمیر نو بیورو کے چیئرمین دانیال عزیز کے بیانات اس ضمن میں آئے تھے ان میں اول الذکر کا کہنا تھا کہ ایڈمنسٹریٹروں کے تقرر کے بغیر اگر انتخابات کروائے گئے تو بااثر ضلعی ناظم بدعنوانیوں اور دھاندلیوں کے بل بوتے پر دوبارہ عوام پر مسلط ہوجائیں گے جس کے سبب حکومت کی نیک نامی کم ہونے کا خطرہ ہے لیکن قومی تعیمر نو بیورو کے چیئرمین نے یہ کہہ کر چونکا دیا تھا کہ اب تک وہ اس نظام کو بچانے کے چوکیدار بنے ہوئے ہیں ورنہ صوبائی حکومتیں تو اس کے درپے ہیں اور وہ عوامی اختیار ختم کرکے ملک میں انگریزوں کا فرسودہ نظام دوبارہ لانا چاہتی ہیں نیز یہ بھی کہ صوبائی حکومتوں کی ضد کے آگے مجبور ہوکر ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے ہوں گے۔ وزیر مملکت کا بیان دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ملک میں بدقسمتی سے بدعنوانی کی جڑیں بہت گہرائی اور ان کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ان سے وہ ادارے بھی محفوظ نہیں رہے جن کا قیام کا بنیادی مقصد ہی سیاسی اور مالی منفعت سے بالاتر ہوکر شہریوں کی خدمت کے جذبہ کو فروغ دینا اور ملک کے چپہ چپہ پر ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانا تھا۔ البتہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ نگراں (انڈمنسٹریٹر) کے تقرر کے بغیر انتخابات کے انعقاد سے حکومت کی نیک نامی کیوں کر کم ہوگی اس لئے کہ ہر قسم کی بدعنوانی اور دھاندلی سے پاک غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخاب کروانے کی ذمہ داری انتخابی کمیشن کے ساتھہ خود صوبائی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ ایسے میں عوام اگر کسی موجودہ بااثر یا بے اثر ناظم کو پھر منتخب کرلیتے ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں نہ حکومت کے لئے یہ کسی بھی صورت روا ہے کہ وہ اپنے کسی ناپسندیدہ ناظم کو ناکام اور اپنے پسندیدہ ناظم کو کامیاب کروانے کے جتن کرے ایسی صورت میں انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکے گا اس سے حکومت اور انتخابی کمیشن دونوں ہی کی بڑی بدنامی بھی ہوگی وار حکمرانوں کی جمہوریت پسندی اور انتخابی کمیشن کی غیر جانبداری کا مجرم کھل جائے گا اور انتخابات اسے لوگوں کا اعتماد بھی ختم ہوجائے گا۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ ہر حکومت نے بلدیاتی اداروں کو ہمیشہ اپنا حریف سمجھتے ہوئے بیشتر وقت انہیں معطل ہی رکھا۔ موجودہ بلدیاتی نظام صدر جنرل پرویز مشرف کا رائج کردہ ہے اور سب سے زیادہ وہی اسے جاری رکھنا اور کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً تمام ہی صوبائی حکومتیں اس سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ طویل تعطل کے بعد بحال کردہ مقامی حکومتوں کی طرف سے ایسے ترقیاتی منصوبے مکمل کرلئے گئے یا شروع کئے گئے جو شہریوں کے لئے باعث اطمینان ہیں حالانکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے ان کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے حکمراں ذمہ داریوں سے آزاد سارے اختیارات اپنے ہاتھہ میں رکھنا چاہتے ہیں وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ دنیا بھر میں شہری حکومتوں کا تصور مقامی سطح پر عوام کے مسائل کو حل اور ان کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی ہے اس لئے حکومتیں ان کے ساتھہ بھرپور تعاون کرتی ہے۔ بھارت کا پنچایتی نظام افادیت اور کارگزاری کے لحاظ سے دنیا کے بہترین اور کامیاب نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے ہمارے برعکس وہاں حکومت اور نوکر شاہی خود اس نظام کو تقویت پہنچانے میں پیش پیش رہی ہیں وہ جانتی ہیں کہ اس طرح حکومتیں بڑت اور سنگین مسائل کی طرف توجہ دینے کے لئے وقت اور وسائل نکال لیتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں سیاست اور عوامی نمائندگی کا تصور اس قدر محدود ہوکر رہ گیا ہے کہ اراکین اسمبلی تو دور کی بات ہے مرکزی وزراء تک اپنے حلقہ انتخاب سے ماورا سوچنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ یہ سوچ حال ہی کی پیداوار ہے ورنہ بہتوں کو معلوم ہے کہ مولوی فرید احمد چٹگام کے ایک دور دراز علاقے سے منتخب رکن قومی اسمبلی تھے لیکن جب وہ کراچی ، لاہور یا اسلام آباد آتے تھو تھرپارکر ، چولستان، تربت اور صوبہ سرحد کے لوگ ان تک اپنے مسائل پہنچاتے تھے اور وہ ان کے حل کے لئے بھرپور کوشش کرتے تھے۔ مولوی فرید احمد کو لوگ اس لئے ترجیح دیتے تھے کہ وہ بہت فعال متحرک اور بے باک تھے ورنہ اس دور کا رکن قومی اسمبلی سمجھتا تھا کہ پورا پاکستان اس کا حلقہ ہے اسی طرح رکن صوبائی اسمبلی پورے صوبہ کی نمائندگی اپنا فرض سمجھتا تھا لیکن اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے اور ہم اپنی ذات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں حد تو یہ ہے کہ نامزد وزیر اعظم شوکت عزیز کو اس مقصد کے تحت تھرپارکر سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب کروایا گیا تاکہ علاقہ کی قسمت کھل جائے۔ کامیابی کے بعد وہ اس حلقہ کی نمائندگی سے تو دستبردار ہوگئے لیکن یہاں کے لئے انہوں نے اربوں روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہم تو چاہتے ہیں کہ ملک کے ہر علاقے کے لئے اس سے بھی زیادہ رقم کے منصوبے شروع کئے جائیں لیکن وزیر اعظم کی طرف سے صرف اپنے حلقہ انتخاب پر رقم کی یہ بارش اس لئے قابل فخر قرار نہیں دی جاسکتی کہ اس کے پیچھے کارفرما محرکات وزیر اعظم کے شایان شان نہیں ملک کا ہر پسامندہ علاقہ وزیر اعظم کی توجہ کا یکساں مستحق ہونا چاہئے۔
اگر قانون میں ترمیم کے بعد شہری حکومتوں کو ختم کرکے نگراں کے تقرر کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو اس سے ملک کی حزب اختلاف کی طرف سے اس مطالبہ کا جواز پیدا ہوجائے گا کہ قومی اور صوبائی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے ساتھہ ہی تمام وزارتیں ختم کرکے وہاں بھی نگراں مقرر کئے جائیں اور انصاف بھی اس کا متقاضی ہوگا کہ حکمراں اپنے لئے بھی وہی انتظام بخوشی قبول کریں جو آج وہ خود ناظمین کے سلسلہ میں کررہے ہیں۔ اس سے عوام کو بھی بڑی حد تک اطمینان ہوجائے گا کہ انتخابات میں دھاندلیاں نہیں ہوں گی حالانکہ بقول پیر صاحب پگارا فرشتوں کو انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے سے روکنا پھر بھی مشکل ہوگا ویسے بھی ہمیں اب بلدیاتی اور قومی ہر سطح پر شفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہوگا اس لئے کہ اور تو اور امریکہ کی خواہش بھی یہی ہے اور آج امریکہ کی خواہش حکم کا درجہ رکھتی ہے اورہم تو ٹھہرے اس کے انتہائی بااعتماد دوست اور حلیف ہمیں اس کا پورا اہتمام کرنا چاہئے کہ انتخابات پر یورپی یونین ، دولت مشترکہ یا امریکہ کی انگلی نہ اٹھا سکے لیکن ان سب سے زیادہ یہ کہ خود پاکستان کے عوام انتخابات کو صاف ستھرا سمجھیں۔
یہ بیان کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی نظام کو ختم کرکے ملک میں انگیزوں کا فرسودہ نظام دوبارہ لانا چاہتی ہیں حزب اختلاف کے کسی رہنما سے نہیں بلکہ قومی تعمیر نو بیورو کے موجود چیئرمین سے منسوب ہے۔ ایک ذمہ دار منصب پر فائز سرکاری شخصیت کا یہ کہنا ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت پسندی کے بلند بانگ دعوؤں کے پیچھے آمر مطلق چھپے بیٹھے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے یہاں تقریباً ہر ادارے کو چاہے اس کا تعلق مالیات و سرمایہ کاری سے ہو، صنعت و تجارت سے ہو یا فلاح عامہ سے ہو اگر ختم نہیں تو مفلوج ور بے اثر بنا کر ضرور رکھہ دیا گیا ہے یہاں تک کہ مجالس قانون ساز بھی اپنا بھرم بلکہ افادیت تیزی سے کھوتی جارہی ہے۔ انتخابات سے چند ماہ پہلے کئی ضلعوں کو تقسیم کرکے منتخب ناظمین کو ہٹانے کے پیچھے یہ حکمت عملی بھی نظر آتی ہے کہ بلدیاتی نظام کو مکمل طور پر صوبائی حکمرانوں کی صوابدید سے مضبوط قرار دے کر ان کو بے وقعت ثابت کردیا جائے یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ بالا دست ادارے کے منتخب نمائندے نچلی سطح پر منتخب عوامی نمائندوں کو بیک جنبش قلم گھر بٹھادیں ایسا کرنا جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے کھلا انحراف ہے۔ ہمیں اس سے بچنا چاہئے اور عوام کے ہر منتخب نمائندے کو اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment