مسلم حکمرانوں کو سوچنا چاہئے
روزنامہ جنگ ہفتہ 18 ستمبر 2004 ء
پچھلے دنوں دہشت گردوں کے خلاف دنیا میں کسی بھی جگہ پیشگی حملے کرنے کا ارادے کا اظہار کرکے بالآخر روس نے بھی امریکہ کے نقش قدم پر چلنے کا اعلان کردیا۔ اس وقت یہ اختیار امریکہ بڑی آزادی بلکہ فراخدلی کے ساتھہ استعمال کررہا ہے۔ پیشگی حملہ کرنے کی دوڑ میں روس کے شامل ہونے کے بعد ڈر ہے کہ اب دنیا دو واضح حصوں میں تقسیم ہوکر رہ جائے گوآج بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں لیکن اب جو منظر نامہ ابھر کر سامنے آرہا ہے اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ نے اس فیصلے کی غیر مشروط حمایت کی ہے چین نے بھی پہلی بار کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھہ تعاون کے لئے تیار ہے۔ امریکہ اور اسرائیل پہلے ہی سے ایسا کرتے آرہے ہیں ویسے اسرائیل نے مزید یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اسلامی جہاد کے خلاف لڑائی میں روس کا فطری اتحادی اور اس کے شانہ بشانہ ہے تاہم یورپی یونین نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور فرانس یہ چاہتا ہے کہ یہ معاملہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں زیر بحث لایا جائے اقوام متحدہ طرف سے کہا گیا ہے کہ پیشگی حملوں کے سلسلے میں بین الاقوامی پر عمل کرنا ضروری ہے۔ بسلان کے اسکول میں یرغمالیوں کی رہائی کوشش میں سیکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد یہ کہنا کہ " اب روس کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ اچھے اور برے دہشت گرد میں کوئی فرق نہیں " صرف مسلمان دانشوروں ہی کے لئے نہیں بلکہ خود روسی حکمرانوں اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے دیگر اور مخبری کے ارادوں کے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے اس لئے مذکورہ اسکول میں سرکاری کاروائی کے آغاز ہی پر یہ اعلان کردیا گیا کہ یرغمال بنانے والوں میں دس عرب ہیں جو ہلاک کردیا گیا جبکہ روسی حکومت کئی روز تک یہ نہیں بتاسکی کہ وہاں یرغمال بنائے جانے اور ہلاک و زخمی ہونے والوں کی صحیح تعداد کیا تھی ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ روسی حکومت اور ذرائع ابلاغ کے پاس معلومات کا وہ کونسا ذریعہ تھا کہ اسکول میں پڑی سینکڑوں لاشوں میں سے دس کی شہریت کے ساتھہ شناخت اس طرح فوری طور پر ممکن ہوگئی جو بقول ان کے دہشت گرد تھے۔ 11ستمبر2001ء کو نیویارک اور واشنگٹن پر حملوں کے وقت بھی ایسا ہی ہوچکا ہے کہ حملہ کے دو ڈھائی گھنٹوں کے اندر اندر مغربی ذرائع ابلاغ اور امریکی حکام کو یہ " ثبوت" مل گئے کہ ان حملوں کی ذمہ دار القاعدہ ہے کئی دنوں تک نیویارک میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے اوپر بتائی جاتی رہی جو اب گھٹتے گھٹتے تین ہزارسے بھی کم رہ گئی اور حیرت انگیز طور پر واقعہ کی تحقیق کی فوری ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ البتہ اس واقعہ کے ردعمل کے طور پر افغانستان کو تباہ کردیا گیا اور اس کے بعد عراق کی صورت بگاڑ کر رکھہ دی گئی ہے ۔ امریکہ کے تیور بتارہے ہیں کہ اب ایران ، شام یا سوڈان میں سے کسی ایک کی باری ہے۔ پاکستان کی ایٹمی طاقت بھی امریکہ کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہی ہے حالانکہ امریکی صدر کے بقول پاکستان تعاون نہ کرتا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی کامیابی کسی طور ممکن نہیں تھی۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ پیشگی حملوں کا حق بھارت بھی جلد حاصل کرلے گا۔ ڈر یہ کہ ہمارے حکمراں کہیں بھارتی حکمرانوں کے ساتھہ کسی معاہدہ کے نتیجے میں مزید حضرات کا سامان نہ کر بیٹھیں۔ ہم امریکہ سے موجود دوستی کو غلامی میں بدل دیں یا بھارت سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی خاطر جہاد سے لاتعلق ہوجائیں۔ مگر بھارت ہم سے ہرگز خوش نہیں ہوگا وہ پیار اور محبت کے ساتھہ یہ کہہ کر اکھنڈ بھارت کی بات کریگا کہ دونوں ملکوں کے درمیان قائم سرحد مصنوعی ہے اسے ختم کردیا جائے اور وہ آج بھی اس مقصد کے لئے خاموشی کے ساتھہ کام کررہا ہے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی سوچ سے مرعوب ہماری قیادت کے حوصلے پست ہوچکے ہیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم اس حقیقت پر ضرور غور کرتے کہ امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے واقعات پاکستان ، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیاء ، افغانستان اور عراق ہی میں کیوں ہورہے ہیں اور ایسا کیوں کر ہوا کہ اسپین میں جیسے ہی ایسی پارٹی کامیاب ہوئی جو عراق پر امریکی جارحیت کے خلاف تھی تو کیوں کر مسافر ٹرین کو دہشت گردی کا نشانہ بنادیا گیا اور اس کا سبب کیا ہے کہ ان تمام واقعات کا ہدف امریکی شہری امریکی مفادات کے بجائے صرف مسلمان ہوتے ہیں اور ان کا الزام " مسلم دہشت گردوں" ہی پرلگایا جاتا ہے اور ان حملوں کو بلاتامل امریکہ مخالف کاروائیاں قرار دیدیا جاتا ہے یعنی " مسلمان دہشت گرد" اپنے ہی بھائیوں کو ہلاک اور زخمی کی جائیدادوں کو تباہ کرکے امریکہ کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ایک ایسی کثیر القوی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں جس میں خاص طور پر ان مسلمان ملکوں کے ماہرین شامل ہوں جہاں دہشت گردی کے واقعات پیش آتےرہتے ہیں تاکہ عالم اسلام میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کی چھان بین کرکے یہ دیکھے کہ ان واقعات کے پیچھے حقیقت میں کس کا ہاتھہ ہے اگر ایسا کرنے والے واقعی مسلمان ہیں تو معلوم کیا جائے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں۔ اس کمیٹی کے پیش نظریہ حقیقت بھی رہنی چاہئے کہ کسی واقعے کے پیش آتے ہی امریکہ فوراً کیوں کود پڑتا ہے اس سلسلے میں امریکہ کے پورے کردار کا جائز لینا ضروری ہے ۔ مجوزہ کمیٹی کو ہر قسم کے حکومتی اثرات سے بالاتر ہوکر آزادی کے ساتھہ کام کرنے کی اجازت ہو تاکہ صحیح صورتحال دنیا کے سامنے لائی جاسکے یہ کمیٹی اسلامی امہ تنظیم کے تحت بھی قائم کی جاسکتی ہے لیکن کیا مسلم قیادت ایسا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے؟ ویسے ملائیشیاء کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے مسلم امہ کے حکمرانوں کی کمزوری کو یہ کہتے ہوئے کھول کر بیان کردیا ہے کہ " ہم دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں۔" اسی کمزوری کے سبب ہم امریکی مفاد کو اپنا مفاد قرار دے رہے ہیں اور افغانستان ، عراق اور فلسطین میں شہید ہونے والوں کی ہمدردی میں ایک لفظ تک بولنے کی جرأت سے محروم ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ آزاد خود مختار اور زندہ بیدار قوموں کا شیوہ تو نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment