عراق کے خلاف فوجی کاروائی تباہ کن ہوگی
روزنامہ جنگ اتوار 15 ستمبر 2002ء
12 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 57 ویں اجلاس کے آغاز پر امریکی صدر جارج بش نے جو تقریر کی اس کا بیشتر حصہ صدام حسین کو امن و سلامتی کے لئے زبردست خطرہ اور عراق کو القاعدہ کا نیا مرکز قرار دے کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عالمی رہنماؤں سے اپیل پر مشتمل تھا انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر اقوام متحدہ ساتھہ نہیں دیتا تو امریکہ خود یہ کام اپنے طور پر کرے گا چند دن قبل امریکی صدر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ثبوت مل گئے ہیں کہ عراق وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا رہا ہے جو دنیا کیلئے زبردست خطرہ ہیں اس لئے ان کے خیال میں حملہ کرکے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانا ناگزیر ہوگیا ہے لیکن جارج بش کے اپنے وزیروں، مشیروں، اراکین کانگریس اور امریکی عوام کی اکثریت کے علاوہ اسلامی دنیا اور یورپی ممالک میں عراق کے خلاف امریکہ کے عزائم کے سلسلے میں واضح اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے تین ایسے اراکین بھی اس سلسلے میں امریکہ سے واضح اختلاف رکھتے ہیں جنہیں سلامتی کونسل میں کسی بھی قرار داد کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے یعنی چین، فرانس اور روس۔ یہ امر بھی کم اہمیت کا حامل نہیں کہ 1991ء میں عراق پر حملہ کرنے والی فوج کے امریکی کمانڈر جنعل ویزلے کلارک اور میرین کے سابق جنرل انتھونی زینی جو آج بھی مشرق وسطٰی کے لئے امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی ہیں سب کے سب عراق کے خلاف ہر قسم کی کاروائی کے خلاف ہیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بھی امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ عالمی ادارہ کی اجازت کے بغیر عراق کے خلاف کاروائی نہ کرے جنرل اسمبلی میں جارج بش نے عراق کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کردہ قراردادوں کا تو ایک ایک کرکے ذکر کیا لیکن عراق کے مقابلہ میں اسرائیل کا جو تقریباً ایک صدی سے مشرق وسطٰی کے امن و سکون کو تباہ کئے ہوئے ہے مذمت تو دور کی بات ہے قراردادوں پر عملدرآمد کے سلسلے میں ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لائے پھر کشمیر کے حل سے متعلق قراردادیں بھی تو اقوام متحدہ نے منظور کر رکھی ہیں جن پر عمل نصف صدی گزرنے کے بعد بھی نہیں کیا جارہا بہرحال حقیقت یہ ہے کہ امریکہ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کے جاہلانہ اور ظالمانہ اصول پر پوری طرح عمل پیرا ہے وہ عقل و خرد اور عدل و انصاف پر مبنی کوئی بات سننے کے لئے تیار ہے نہ کہنے کیلئے۔
جہاں تک عراق کے پاس مہلک ہتھیاروں کی موجودگی یا ان کی تیاری کا تعلق ہے تو اس کا پول تو امریکہ ہی کے ایک سابق فوجی اسکارٹ رٹر نے یہ کہہ کر کھول دیا ہے کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں ہیں۔ موصوف عراق میں اقوام متحدہ کی معائنہ کار ٹیم کا سربراہ تھے لیکن 1998ء میں ان کے ضمیر نے انہیں یہ اعتراف کرکے اپنے منصب سے مستعفٰی ہونے پر مجبور کردیا کہ وہ امریکہ کیلئے جاسوسی کررہے تھے اگر عراق کے پاس کچھہ ہتھیار ہیں بھی تو اس کے مقابلہ میں کئی سو گنا مہلک اور کثیر تعداد میں اسرائیل کے پاس ہیں جو خود اس کے اپنے تیار کردہ اور امریکہ کے فراہم کردہ ہیں ان ہتھیاروں کے بل پر اسرائیل نے فلسطینی عوام کو غلام اور خطہ کے امن کو غیر یقینی بنا رکھا ہے لیکن امریکہ دراصل اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے ہی کے لئے عراق پر حملہ کرکے عرب دنیا کی دولت کو لوٹنا اور اسے اس قدر کمزار کردینا چاہتا ہے کہ اسرائیل ان پر اپنی حکمرانی قائم کرسکے ویسے بھی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ علاقے کے تمام عرب ملکوں کی تیل کی پیدوار پر اب امریکہ ہی کا تسلط اور تصرف ہے اور اب عرب ممالک کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ان میں چند تو وقت پر اپنا سالانہ میزانیہ تک پیش نہیں کرپارہے۔ پاکستان، ایران، عراق اور شمالی کوریا کے ہتھیاروں اعتراض کرنے والا امریکہ خود اپنے گریبان میں جھانک کر کیوں نہیں دیکھتا کہ اس نے تصور سے بھی زیادہ مہلک ہتھیار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کر اس قدر ذخیرہ کرلیا ہے کہ اگر آج وہ پھٹ پڑے تو ایسی قیامت برپا ہوجائے کہ دنیا میں نہ صرف کوئی ذی روح زندہ بچے بلکہ پہاڑ تک ریزہ ریزہ ہوکر نابود ہوجائیں اس سے کسی کو انکار نہیں کہ ہر قسم کے چھوٹے بڑے جوہری اور کیمیاوی ہتھیارانسانیت کیلئے زبردست خطرہ ہیں اس لئے امریکہ کو چاہئے کہ "دوسروں کو نصیحت خود میاں نصیحت" کی بجائے اپنے ہتھیار ختم کرنے میں پہل کرے اس لئے کہ امریکہ آج ساری دنیا کا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بنا ہوا ہے اسے اپنے اس اعلٰی مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے اس کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے۔ 1990ء میں موجودہ امریکی صدر کے والد نے صدر صدام حسین کو سزادینے کے نام پر مختلف پابندیاں لگا کر عراق کے لاکھوں بچوں، بوڑھوں اور مرد و خواتین کو دودھ اور ادویات کی نایابی اور غذائی اجناس کی کمیابی پیدا کرکے موت کی نیند سلادیا ہے یہ تسلسل اب بھی جاری ہے لیکن صدام حسین آج پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ کی حکمت عملی ہمیشہ ناکام رہی۔ مثال کے طور پر امریکہ کے جنوب میں کیوبا ہاتھی کے پاؤں تلے چیونٹا نظر آتا ہے لیکن وہاں کا صدر فیڈل کاسترو تقریباً 42 سال سے امریکہ کے سینے پر مونگ دلتا آرہا ہے امریکہ کی مخالفت نے معمر قذافی کو مزید مقبول اور مضبوط رہنما بنا دیا ہے۔ اسی طرح نہ ایران کی قیادت کمزور کی جاسکی ہے ویسے بھی کسی ملک کے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی اور اس ملک کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ کا منشور ہر قوم کو اپنے حکمراں منتخب کرنے کا حق دیتا ہے۔ اگر عراق پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ہماری خواہش ہے کہ امریکہ ہوش و خرد سے کام لے اور اپنی قوت دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارا بنانے کے لئے استعمال کرے لیکن اگر کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا گیا تو امریکہ کے لئے خود کو تباہی سے بچانا ممکن نہیں رہے گا۔
No comments:
Post a Comment