دہشت گردی کا ذمہ دار اسرائیل ہے
روزنامہ ایکسپریس بدھ 5 دسمبر 2001ء
امریکہ نے فلسطینی انتظامیہ اور اس کے سربراہ یاسر عرفات کو یروشلم اور حیفہ میں 2 دسمبر کے خودکش حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ حملوں کے ذمہ دار افراد کو گرفتار کریں اور صرف بیانات تک محدود نہ رہیں۔ امریکہ نے ساتھہ ہی یہ بھی کہا کہ یاسر عرفات کی انتظامیہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہی ہے۔ چند ہفتوں قبل بھی وہ ایک اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کو دہشت گرد کاروائی قرار دیتے ہوئے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا تھا اور اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش سے خود کو علیحدہ کرلیا تھا۔ یہ قابل ذکر بات ہے کہ 11 ستمبر کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے فلسطین کے سلسلے میں اپنے رویے میں نمایاں تبدیلی کرلی تھی یہاں تک کہ برطانوی وزیر اعظم نے یاسر عرفات کے ساتھہ لندن میں اپنی پریس کانفرنس کےموقع پر فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کیا تھا۔ مسلم ممالک کے ساتھہ امریکہ کے بڑھتے ہوئے دوستانہ رویے پر اسرائیل نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو امریکہ نے اسرائیل کو شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ جھڑک دیا جس پر مشرق وسطٰی کے مسلم ممالک نے خوشی اور اطمینان کا اظہار بھی کیا تھا اور افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکہ کی بھرپور حمایت پر متفق ہوگئے تھے۔ امریکہ کے لئے یہ ممکن نہیں تھا زیادہ دیر اپنے اس رویے پر کاربند رہ سکے۔ اس نے فوراً ہی یہ باور کروانا ضروری سمجھا کہ وہ ہر طرح اسرائیل نواز ہے۔ فلسطینی حریت پسندوں کی کاروائی کے نتیجے میں کسی اسرائیلی کی ہلاکت کو امریکہ " دہشت گردی" بلکہ " مسلم دہشت گردی" قرار دینے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتا لیکن فلسطین پر قابض اسرائیلی فوجیوں کی ظالمانہ کاروائیوں کے نتیجے میں کمسن بچے، معصوم خواتین اور نہتے نوجوان شہید کردیئے جائیں تو امریکہ سمیت کسی بھی مہذب قوم کو اس کے خلاف ایک لفظ تک بولنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ امریکہ کو آج دنیا کی واحد بڑی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن اس کا کردار اس بڑائی کی نفی کرتا ہے۔ آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کا سب سے بڑا دعویدار ہے لیکن اس قدر تنگ نظر بھی ہے کہ فلسطینی، کشمیری اور چیچن عوام کی تحریک آزادی کو " دہشت گردی" اور افغانستان کی آزادی کے تحفظ کے لئے لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ وہ عراق کی خود مختاری کو پامال کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا۔ مغرب بعض وقت سوال کرتا ہے کہ مسلمان اس سے ناراض کیوں ہیں؟ اس کا جواب بہت ہی سادہ اور صاف ہے کہ مغرب نے مختلف حربوں سے عالم اسلام کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ برطانیہ نے ایک سازش کے تحت اس مقدس سرزمین پر اسرائیل کی حکومت کو قائم کرکے عالم اسلام کے قلب میں چھرا گھونپا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ فلسطین سے یہودی آبادی کو کبھی کسی نے نہیں نکالا۔ انہوں نے از خود نقل مکانی کی۔ فلسطین پر خلیفہ ثانی سیدنا عمر کے دور میں مسلمانوں نے فتح حاصل کی۔ اس وقت وہاں عیسائی موجود تھے اور یہودی اقلیت میں ہونے کے سبب کسی شمار میں نہیں آتے تھے لیکن انیسویں صدی کے آخر میں یہودی دانشوروں نے طے کیا کہ فلسطین دنیائے اسلام کا دل ہے ، وہاں جا کر اپنی حکومت قائم کرنی ہے تاکہ اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکا جاسکے۔ یہودی اپنی دولت و ثروت اور علم و فن کی بنا پر یورپ اور امریکہ میں بہت بااثر تھے۔ انیسویں صدی برطانیہ کی صدی تھی اور یہودیوں نے کمال ہوشیاری سے برطانیہ کو اس بات پر قائل کرلیا کہ مشرق وسطٰی میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک یہودی مملکت قائم کی جائے۔ پہلی عالمی جنگ کے موقع پر چونکہ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو مسلمان ملکوں کی حمایت درکار تھی، مسلمانوں کو دھوکا دینے کی غرض سے برطانیہ نے یہ وعدہ کرلیا کہ علاقے میں یہودی مملکت قائم نہیں کی جائے گی لیکن 1917ء میں برطانیہ کو خلافت عثمانیہ کو نشانہ بنانا لازمی تھا اس لئے اپنے وزیر خارجہ آرتھو بالفور کو فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کا اعلان کرنے کا اختیار دے دیا۔ اس کو " اعلان بالفور" ہی کہا جاتا ہے اور اس کی ضرورت اس لئے پڑی کہ فلسطین میں اس وقت آباد 75 ہزار یہودیوں نے برطانیہ کی مدد کے لئے اپنی مملکت کے قیام کی شرط عائد کی تھی۔ اس سے پہلے ہی ایک منصوبے کے تحت مختلف ممالک کے یہودی آ آ کر فلسطین میں آباد ہونے لگے تھے۔ ابتدا میں مسلمان اس سازش کو نہیں سمجھہ پائے لیکن جب خطرہ محسوس ہوا تو وہاں فسادات ہونے لگے لیکن برطانیہ کو فلسطین کی انتظامیہ کے اختیارات بھی مل گئے تھے اس لئے اس نے وہاں یہودی آبادکاروں کی آمد کی کھلی اجازت دیدی۔ یہودیوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ شروع میں ایسے لوگ وہاں جاکر آباد ہوں جو عربوں سے لڑائی جھگڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ دوسری عالمی جنگ کے موقع پر ذرائع ابلاغ میں یہودیوں کے ساتھہ ظلم و جبر کی بے بنیاد داستانیں پھیلائیں گئیں، لوگوں کو جرمنی اور دوسرے ملکوں سے لا لا کر فلسطین میں آباد کرنے کا سلسلہ تیز تر کردیا گیا۔ 1948ء میں فلسطین کی سرزمین پر " اسرائیل" نام کی نام نہاد مملکت قائم کردی گئی۔ وہاں فسادات کا سلسلہ تو پہلے ہی جاری تھا اس میں مزید شدت آگئی۔ اب یہودیوں کو اپنی فوج اور پولیس کے ساتھہ برطانیہ کی مکمل حمایت اور عملی تعاون بھی حاصل تھا۔ فسادات کے نتیجے میں وہاں سے مسلمانوں کی ہجرت شروع ہوگئی اور اسرائیل آہستہ آہستہ اردن، لبنان ، شام حتیٰ کہ مصر کی حدود میں بھی داخل ہوگیا۔ اسے فوجی مہمات میں برطانیہ اور امریکہ کی بھرپور مدد حاصل رہی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ارض مقدس کا بیشتر حصہ یہودیوں کے قبضے میں آگیا۔ چند برس پہلے ایک امن معاہدہ کے تحت فلسطین کی جلا وطن حکومت کو محدود علاقے میں " انتظامیہ" قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی لیکن وہ ایک نمائشی فیصلہ تھا۔ اس کے تحت آزاد فلسطینی " مملکت" کا قیام بھی عمل میں آنا تھا لیکن اسرائیل ، امریکہ کی حمایت و تعاون کے ساتھہ مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے اس فیصلے پر عملدرآمد میں روڑے اٹکاتا رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے مستقبل سے مایوس مسلمانوں نے پھر سے تحریک آزادی شروع کردی۔ گو فلسطینی انتظامیہ اس سے بالکل علیحدہ ہے لیکن عوام فوجی ہیلی کاپٹروں، بھاری ٹینکوں اور مہلک ہتھیاروں کے سامنے ڈٹ کر اپنے لئے ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اسرائیلی فوجی فلسطینی بچوں، خواتین اور مردوں کو جب اور جہاں چاہتے ہیں نشانہ بنادیتے ہیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار کسی بھی مغربی حکومت یا ادارے کو بہیمانہ قتل و غارت گری کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں ہوتی کیوں کہ وہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کی ناراضگی مول لے کر دہشت گردی کا نشانہ بننا نہیں چاہتے۔ یہودی اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی تمام پالیسیاں یہودی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔ اس کے خلاف کسی بات سے موساد حرکت میں آجاتا ہے۔ موساد دراصل خود ایک " دہشت گرد" تنظیم ہے جسے یہودی حکومت کی چھتری تلے کام کرنے کی مکمل سہولت حاصل ہے۔
آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ فلسطین میں دہشت گرد کون ہیں، خودکش حملہ آور یہودی فوجیوں اور ٹینکوں پر حملہ کرنے والے یا وہ اسرائیلی فوجی جو ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں اور توپوں سے نہتے حریت پسند فلسطینیوں کو شہید ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔کوئی کچھہ بھی لے، اسرائیلی ہر لحاظ سے دہشت گرد قرار دیئے جانے کے مستحق ہیں۔ اگر امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی سے اسرائیل آج محروم ہوجائے تو کل دنیا سے اس کا نشان معدوم ہوجائے ۔ خودکش حملے فلسطینیوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جب نہتے، مجبور اور بے بس انسانوں کو دو ایٹمی طاقتیں مل کر ظلم و جبر کا نشانہ بنانے میں نظر نہ آنے والی تیسری ایٹمی طاقت اسرائیل کی ہر طرح سے مدد کریں گی تو پھر لوگ اس کے جواب میں اور کیا کرسکتے ہیں؟
دنیا آج نہیں تو کل تسلیم کرنے پر مجبور ہوگی کہ دہشت گردی کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔ پھر مسلمانوں کے دلوں میں امریکہ کے خلاف نفرت کیوں بڑھتی جارہی ہے اس کا ذمہ دار بھی خود امریکہ ہی ہے۔ یہ کس قدر افسوس ناک ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں تحریک آزادی جاری ہے۔ مسلمان ہی " دہشت گردی" میں ملوث قرار دیئے جارہے ہیں۔ عراق پر بیجا پابندیوں کے نتیجے میں لاکھوں معصوم بچے ہلاک ہوجائیں تو امریکہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا، سوڈان کی فیکٹریوں کو تباہ کرنے ، لیبیا کو جارحیت کا نشانہ بنانے، ایران کے خلاف کاروائی کرنے اور افغانستان پر میزائلوں کی بارش کرنے ہی کو اگر انصاف اور آزادی کی حمایت قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر فلسطینی بھی خودکش حملوں کے علاوہ ظالم کے خلاف اور کون سا ہتھیار استعمال کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔
دنیا بھر کی انصاف پسند قوموں کا فرض ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے نظریے کی قید سے خود کو آزاد کروائیں وگر نہ کل ان کے ساتھہ بھی یہی سلوک کیا جاسکتا ہے۔ مغرب تو باشعور کہلاتا ہے، اسے تاریخ سے زیادہ آگہی ہوگی کہ کوئی قوم ہمیشہ ایک مقام پر نہیں رہتی، نشیب و فراز اور عروج و زوال سے سب ہی کو دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن دانا اور دوربیں اقوام اپنے عروج کے زمانے میں حق و انصاف کی حدود کو توڑ کر آپے سے باہر نہیں ہوتیں۔ آج ساری دنیا کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے اس سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ حق و انصاف اور احترام آدمیت کے تصور کو عملی شکل دی جائے۔ ایک امریکی یا ایک عیسائی کی موت پر غمگین ہونا اور ہزاروں مسلمانوں کی موت پر خوشی سے جھوم اٹھنے کا انداز جب تک نہیں بدلتا اس وقت تک خود کش ہوائی حملوں اور دھماکوں سے نجات نہیں مل سکتی۔ اگر دنیا کو امن و سلامتی اور محبت و الفت کا گہوارہ بنانا مقصود ہے تو اسلام کے اس اصول پر کاربند ہونا پڑے گا کہ تمہاری دوستیاں اور تمہاری دشمنیاں کسی پر ظلم و جبر کا بہانہ نہ بنیں۔
No comments:
Post a Comment