خواتین کیلئے مخصوص نشستیں
روزنامہ جنگ اتوار 18 اگست 2002ء
جن اہلکاروں نے 12 اکتوبر 1999ء کو قوم کے متفقہ آئین کو معطل کردیا تھا اب وہی حکمراں یہاں حقیقی اور پائیدار جمہوریت کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے بڑی سرگرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جو راستہ اختیار کیا جارہا ہے وہ خود آئین سے ماورا اور غیر جمہوری ہے جیسا کہ سب جانتے ہیں آئین قومی احساسات اور جذبات کا ترجمان ہوتا ہے جو عوام کے حقیقی منتخب نمائندوں کے ذریعہ بڑے غور و خوض اور بحث مباحثہ کے بعد تشکیل دیا جاتا ہے ہمارے یہاں یہ رہا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے اقلیتوں کیلئے تشویش مخصوص کردیئے جانے کے باوجود بھی مخلوط انتخابات کو رائج کرکے انہیں عام نشستوں سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے یعنی دہرا حق نیا بت، جو صریحا! غیر جمہوری عمل ہے اسی طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے خواتین کے لئے تقریباً 22 فیصد نشستیں مخصوص کرنا بھی ہر لحاظ سے غیر جمہوری اور غیر ضروری ہے اس بات سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرے گا کہ خواتین کو اسلامی معاشرہ میں مساوی حقوق حاصل ہیں لیکن مغرب میں چونکہ آج کل خواتین کے حقوق کا بڑا چرچا ہے اس لئے ہم بھی خود کو روشن خیال اور جدت پسند ثابت کرنے کے لئے اس دوڑ میں شریک ہورہے ہیں ۔ حکمرانوں کا موقف اس سلسلے میں یہ ہےکہ خواتین عام نشستوں سے کھلا مقابلہ کرکے کامیاب نہیں ہوسکتیں اس لئے ضروری ہے کہ ان کے مسائل کو صحیح انداز میں پیش کرنے کے لئے ان کو اسمبلیوں میں نمائندگی دی جائے بالفاظ دیگر خواتین کے معاملات کو خواتین ہی بہتر انداز میں اٹھا سکتی ہیں اب اگر ہم اس کلیہ کو تسلیم کرلیں تو پھر ملک میں اور بھی کئی ایسے طبقے موجود ہیں جن کی مفادات کی بات کرنے والا اسمبلیوں میں پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا جبکہ ہماری اسمبلیوں میں ہمشہ خاتون ارکان موجود رہی ہیں حتیٰ کہ پاکستان کی پہلی مقنّنہ میں بھی جسے دستوریہ کی حیثیت بھی حاصل تھی خواتین موجود تھیں اور یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ ایک خواتین دو مرتبہ اس ملک کی وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہ چکی ہیں۔ بہرحال جن محروم طبقوں کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے ان میں تاجر ، صنعت کار، سابق جج، اساتذہ، وکلاء، صحافی، کسان اور محنت کش شامل ہیں بلکہ اسمبلیوں میں بیروزگاروں کی نمائندگی تو اور بھی ضروری ہے اس لئے کہ ملک میں آج سب سے زیادہ ذہنی اذیت کا شکار یہی طبقہ ہے ان کی مایوسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ان میں سے کئی خودکشی کرچکے ہیں اس لئے ان کے مسائل کو جلد حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو ایوانوں میں لایا جائے پھر جب ہم قوم کو مرد اور خواتین میں تقسیم کرنے پر تلے بیٹھے ہیں تو ضروری ہے کہ مذکورہ بالا طبقوں کی علیحدہ علیحدہ فہرستیں تیار کرواکر ان کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو قوم کے "حقیقی نمائندہ" اداروں میں تبدیل کیا جائے۔ خواتین کیلئے نشستیں مخصوص کرکے یہ سمجھنا کہ اس طرح ان کی عزت و احترام میں اضافہ ہوگا غلط اور بے بنیاد سوچ کا مظہر ہے بلکہ یہ تو ان کی عزت نفس کے منافی ہے کہ ان پر رحم کھا کر انہیں اسمبلیوں میں پہنچایا جائے۔ عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے بہت محترم اور عزیز ہے اسلام میں تو ماں کے قدموں تلے "جنت" بتائی گئی ہے اس لئے یہ بات سمجھہ سے بالاتر ہے کہ عورت کے معاملات کو سمجھنے یا ان کے مسائل کو سامنے لانے اور حل کرنے کے لئے اسمبلیوں میں عورت ہی کا جانا ضروری ہے قومی اسمبلی کو رکن کوئی بھی ہو اور کہیں سے بھی منتخب کیا گیا ہو پوری قوم کے مسائل پر توجہ دینا اس کی ذمہ داری ہے ویسے بھی جمہوری اور مہذب معاشرے میں چونکہ ہر مرد اور عورت کے بالکل برابر کے حقوق ہوتے ہیں ازراء عنایت کسی کو اسمبلی کی رکنیت نہیں بخشی جاسکتی۔ اگر خواتین کیلئے نشستیں مخصوص کرنا مفید ہوتا یا ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت سمجھا جاتا تو پھر امریکہ جو آج جمہوری ملکوں کے لئے سب سے زیادہ قابل تقلید ملک ہے بہت پہلے ایسا کرچکا ہوتا لیکن دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی ۔ امریکہ میں غالباً 1920ء کے بعد خواتین کو کانگریس کی رکنیت کا حق دیا گیا تھا اس کے بعد آج بھی امریکی سینٹ میں صرف 13 اور ایوان نمائندگان میں 61 خواتین منتخب ہوکر پہنچی ہیں لہٰذا اگر حکمراں واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں حقیقی اور پائیدار جمہوریت قائم ہو تو اس کیلئے آئین میں جو نسخہ کیمیا تجویز کیا گیا ہے اس پر عمل کرنے کو یقینی بنایا جائے اور وہ نسخہ ہے آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر عمل۔ ان دفعات میں رکن پارلیمنٹ کیلئے اہلیت اور نااہلیت کی شرائط درج ہیں ان پر پورا اترنے والے نمائندوں پر اگر اسمبلیاں مشتمل ہوں گی تو پھر نہ حکومتوں کو ختم کرنے کے لئے قومی سلامتی کونسل کی ضرورت پڑے گی۔ بہرحال اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ چند خواتین قومی امور کے حوالے سے اسمبلیوں میں پہنچیں تاکہ مشاورت میں شریک ہوسکیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں براہ راست انتخابات ہی کے راستے سے اسمبلیوں میں بھیجا جائے اس کیلئے بس یہ ضروری ہوگا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں اتفاق رائے سے رضاکارانہ طور پر چند نشتیں صرف خواتین امیدواروں کیلئے مخصوص کرلیں اور ان حلقوں سے کوئی بھی مرد امیدوار کھڑا نہ ہو اس طرح انتخابات کے ذریعہ خاتون امیدوار ہی کامیاب ہوں گی یہ زیادہ جمہوری طریقہ ہوگا اور خواتین کیلئے زیادہ پروقار بھی۔ اس طرح پارٹیاں خاتون امیدوار کو بلیک میل بھی نہیں کرسکیں گی۔ اس سلسلہ میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ ہماری آبادی کی بھاری اکثریت دیہات میں رہتی ہے اور شہری کے مقابلہ میں دیہی خواتین زیادہ سنگین مسائل سے دوچار ہیں اس لئے خواتین کی حقیقی نمائندگی کو یقینی بنانے کی خاطر مخصوص مفادات اور اعلٰی طبقہ سے تعلق رکھنے والے شہری خواتین کی بجائے دیہی خواتین کو زیادہ تعداد میں آگے لانا ہوگا۔ مختصر یہ کہ خواتین کی نمائندگی ، انتخابی ہنگامہ آرائیوں سے نجات اور انتخابی اخراجات می کمی جیسے اہم معاملات کی اصلاح میں اگر حکمراں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ مولانا ظفر احمد انصاری کی تیار کردہ رپورٹ کا مطالعہ ضرور کریں اس میں رہنمائی کے لئے بہت سا مواد موجود ہے۔
No comments:
Post a Comment