امریکی ادارے کو سیاسی جماعتوں کی یقین دہانی

روزنامہ جنگ اتوار 5 ستمبر 2004ء

جمعہ کو شائع ہونے والی یہ خبر کہ "پاکستان کی چار سیاسی جماعتوں کی قیادت نے گلوبل ایکشن پلان پر دستخط کرکے امریکہ کے ایک ادارے کو تحریری طور پر یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں خواتین کو آگے لائیں گے اور ویمن لیڈر شپ کی مدد کریں گے" ان چار بڑی سیاسی جماعتوں نے جن میں دو کا تعلق حکمراں اتحاد سے بھی ہے امریکہ کے ایک ادارے کو اس کی تحریری یقین دہانی کیوں کروائی ہے؟ ایسا کرنے کی ضرورت کیا محسوس کی گئی اس کی وضاحت تو متعلقہ سیاسی پارٹیوں کے قائدین ہی کرسکتے ہیں لیکن اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے معاملات میں امریکی مداخلت کس حد تک بڑھ چکی ہے۔

اس کا ایک توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ افراد اور غیر سرکاری اداروں سے بڑھ کر بات اب سیاسی جماعتوں تک پہنچ گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ملک کے مفادات اس کی قومی روایات اور ثقافت کی محافظ ہوتی ہیں وہ اپنی حکمت عملی مرتب کرنے اور اپنے منشور تیار کرنے جیسے تمام معاملات میں آزاد ہوتی ہیں اس میں نہ دوسری جماعتیں مداخلت کرسکتی ہیں نہ حکومت انہیں لائحہ عمل مرتب کرنے کی ہدایت یا مشورہ دینے کی مجاز ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ امریکہ کی کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ ایک ادارے سے اس قسم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس سے ہمیں یہ سمجھہ لینا چاہئے کہ مغرب اور مشرق سے ہم پر ثقافتی لیغار کس شدت سے جاری ہے ہی اور اور امریکہ کے حکمراں بھی پیار اور محبت کے ساتھہ ہمیں خطرناک انجام کی دھمکیاں دینے سے باز نہیں آتے مغرب کے غیر سرکاری ادارے ہمارے تعلیمی نظام، ہماری خاندانی روایات و اقدار پر کس طرح وار پر وار کئے جارہے ہیں اور اب کھلے دروازوں یعنی سیاسی جماعتوں کے راستے بھی ہمارے لئے غیر محفوظ بنا دیئے گئے ہیں او اس کا وسیلہ بھی ہم خود ہی بن رہے ہیں۔

انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات ان کی

انہی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی

اسلام میں خواتین کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ ہمارے یہاں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت ہی سے نہیں محض عورت ہونے کے ناتے بھی وہ انتہائی محترم بلکہ مقدس ہے جبکہ مغرب میں اب ان رشتوں کا تقدس باقی تہا ہے نہ عورت کی عزت محفوظ ہے وہاں عورت کے لباس کو تار تار کرکے اسے محض وسیلہ اشتہار بنادیا گیا ہے خود امریکہ میں 1922 میں خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا جبکہ ہمارے یہاں اس وقت بھی سیاسی تحریکوں میں بی اماں جیسی خواتین کا نمایاں کردار موجود تھا وہ محض نعروں کے لئے کبھی استعمال نہیں کی گئیں۔ 1947ء میں تشکیل پانے والی پاکستان کی پہلی دستوریہ میں بھی خواتین موجود تھیں جو معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ وزیر ، سفیر اور گورنر ہی نہیں بلکہ ہمارے یہاں تو دو مرتبہ ایک خاتوں وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز رہ چکی ہیں اور آج بھی ملک میں کم از کم دو سیاسی جماعتوں کی قیادت خواتین کو حاصل ہے اور وہ دونوں با اختیار ہیں نمائشی نہیں۔

پاکستان میں خواتین کو آگے لانے کے معاہدے اس لئے بھی ناقابل فہم اور غیر ضروری ہیں کہ ہمارے یہاں تو چودہ سو سال پہلے سے عورت کو ایک باوقار مقام حاصل رہا ہے کتنی ہی بزرگ خواتین ہیں جن سے احادیث مبارکہ اور آپکی مصروفیات اور آپ کی پسند و ناپسند کا پتہ چلتا ہے ایسی پاک خواتین بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہیں جن سے خلیفہ وقت تک مشورے لیتے تھے۔ ہماری مقتدر سیاسی جماعتوں نے خواتین کی قیادت کو آگے بڑھانے میں مدد کرنے کی یقین دہانی کرواکر بلاواسطہ یہ تسلیم کرلیا ہے کہ ہمارے یہاں خواتین پسماندہ اور حقوق سے محروم ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ترقی خواتین کے سلسلے میں ہم نے امریکی ادروں کو ٹھیکیدار کیوں تسلیم کرلیا ہے یہ ناقابل فہم بھی ہے قابل اعتراض بلکہ باعث تشویش بھی۔ ایسا کرکے گویا ہماری سیاسی قیادت نے بیچارگی کا اعتراف کرلیا ہے اور یہ بات قومی وقار کے منافی لگتی ہے۔ اگر خواتین کسی شعبہ میں پیچھے نہیں ہیں اگر ان کو میدان سیاست میں مزید آگے لانا مقصود ہے تو ہماری سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ اسلام کی روشنی میں خود آزادانہ فیصلے کریں ان کو عام نشستوں سے کھڑا کرکے کامیاب کروائیں نہ کہ اپنے روشن خیال بلکہ امریکہ نواز ثابت کرنے کے لئے ہم کسی غیر ملکی ادارے کے سامنے اپنی آزادی اور خود مختاری کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ ایسا ہی ہے تو امریکہ جیسے بڑے ملک کے سامنے اگر دنیا کے ملک سرنگوں ہورہے ہیں تو کسی کے لئے اس پر حیرت اور اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی اسمبلیوں میں موجود ہیں اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں حجاب بھی کوئی رکاوٹ نہیں تو پھر ہم کیوں احساس کمتری کا شکار ہوکر امیرکہ یا کسی اور ملک کے اداروں یا حکومتوں کی بالادستی قبول کرنے جارہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں جنس ، زبان اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کے ساتھہ امتیاز کی قطعی کوئی گنجائش نہٰں نہ اسمبلیوں میں جانے پر کوئی پابندی ہے ان کے لئے اسلام میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف حیا اور ستر کے لحاظ سے ہے جن کا پورا کرنا ضروری ہے اور اس شرط سے مرد بھی آزاد نہیں ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ مناسب لباس میں رہیں۔ باقی معاملات میں خواتین مردوں کے برابر حقوق رکھتی ہیں۔

آج ہم امریکی ادارے سے ہدایت لینے لگے تو کل وہ آگے بڑھ کر خواتین کے لباس پر بھی ہمارے ہی ذریعے قینچی چلوائیں گے پھر شادی بیاہ کو مرد و عورت کا ذاتی معاملہ قرار دے کع لڑکیوں کے گھروں سے فرار کی راہ بھی ہموار کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد ہمیں یہ ہدایت بھی دی جاسکتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عورت کی عورت سے اور مرد کی مرد سے نکاح کی بھی حمایت کریں یا اسے قانون کا تحفظ دلوائیں جیسا کہ مغرب کے کئی ملکوں میں ہے اور اس طرح ہمارے پورے نظام ہی کو تباہ و برباد کرکے رکھہ دیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ مغربی ادارے خواتین کو آگے لانے کی کوششوں کے لئے امداد بھی دیتے ہوں لیکن اگر کوئی سیاسی جماعت آج اس طرح معاہدہ کرتی ہے تو اس سے ملک کی سیاسی نظام، سیاستدانوں اور قوم کے بارے میں منفی سوچ کا پیدا ہونا ضروری ہے ملک کے اندر بھی عوام میں امریکہ مخلاف جذبات کے سبب ایسا کرنے والی سیاسی جماعتوں کے بارے میں اس خیال کا ابھرنا ضروری ہے کہ یہ پارٹیاں غیر ملکی اداروں کے دباؤ میں آکر انہی کے مقاصد کی تکمیل کے لئے کام کررہی ہیں۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہمارے سیاسی قائدین ملک کو کہاں لے جارہے ہیں۔

امریکہ کی سابق وزیر خارجہ نے بھی ایک ادارہ قائم کرکے جنوبی ایشیاء کے مسلمان ممالک میں خواتین لیڈروں کی مدد کے پروگرام میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی 13 سرکردہ خواتین سیاستدانوں کو ماسٹر ٹرینر بنانے کی منظوری دیدی ہے۔ اب تک تو ہم اس کا رونا روتے رہے کہ حکمراں امریکی مفادات کے لئے کام کررہے ہیں اور وہاں سے ڈکٹیشن لیتے ہیں لیکن اب صورت یہ سامنے آئی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں خواتین کے لئے ماسٹر ٹرینر مقرر کرنے کی منظوری تک امریکہ کی ایک سابق وزیر خارجہ دے رہی ہیں ایسا ہونا ہماری توہین کے مترادف ہے لیکن ہم اسے بھی اپنے لئے عزت و وقار کی بڑی علامت سمجھہ رہے ہیں کیا۔ آزاد قوموں کے لئے ایسا کرنا موت کے مترادف ہے۔ ہمیں ملک کو خودمختار، آزاد اور فکر و تدبر کی مالک قیادت درکار ہے جو قوم کی عزتِ نفس کا تحفظ کرسکے اور اسے دوسروں کے مفادات کے لئے استعمال نہ کرے۔

No comments:

Post a Comment