کارگل کمیشن کیوں نہیں؟
روزنامہ جنگ ہفتہ 31 جولائی 2004 ء
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اس بیان کے بعد کہ اب سے کوئی پانچ سال پہلے کارگل میں جو فوجی کاروائی کی گئی تھی انہیں اس سے بے خبر رکھا گیا تھا، ملک کے دانشور اور سیاستداں دو واضح طبقوں میں تقسیم ہوگئے ہیں ایک حلقہ زور دے رہا ہے کہ اس معاملے کی حقیقت جاننے کی غرض سے اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جبکہ دوسرا طبقہ جس میں وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین بھی شامل ہیں ایسے کسی عدالتی کمیشن کے قیام کی یہ کہہ کے مخالفت کررہا ہے کہ ایسا کیا گیا پنڈورابکس کھل جائے گا جو قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس خدشے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کے قیام سے پاک بھارت تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جبکہ کمیشن کی تشکیل کے حامی سمجھتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوسکتی ہیں لیکن زندہ قومیں جرأت اور حوصلہ کے ساتھ حقائق کا سامنا کرتی اور غلطیوں سے بہت کچھہ سیکھتی ہیں اور ان کے ازالہ بھی کرتی ہیں اس لئے اس معاملہ کی تحقیقات قومی کردار کی تعمیر میں اچھی پیشرفت ثابت ہوگی۔ پانچ سال بعد ایسے کمیشن کی ضرورت کے سلسلے میں عرض ہے کہ قوموں کی زندگی میں پانچ سال کی مدت کوئی زیادہ نہی ہوتی۔ پاک بھارت تعلقات کے بارے میں تو لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھہ تعلقات کی بہتری سراب سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی ویسے بھی تحقیقاتی کمیشن کے قیام سے تو ان افراد اور اسباب کی حقیقت تک پہنچنے میں مدد ملے گی جن کی منصوبہ بندی سے دونوں ملک ایٹمی جنگ کے بہت قریب پہنچ گئے تھے اور اس طرح وہ غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی جو ہمارے بارے میں سرحد پار موجود ہیں اور نتیجتاً تعلقات کی گاڑی تیزی کے ساتھہ آگے بڑھتی رہے گی۔ ویسے بھی آزاد اور خود مختار قوموں کے لئے ضروری ہے کہ وہ نتائج سے قطع نظر حقائق تک پہنچنے کی کوشش کریں قوم کو معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی واقعہ کیوں پیش آیا اس کے مقصد کیا اور اس کے ذمہ دار کون تھے وہ قومی اور بین الاقوامی پش منظر میں صحیح تھا یا غلط ۔ امریکہ نے 11/9 کے واقعے سے لے کر عراق پر حملہ تک پر کمیشن بنائے جس میں وزیروں اور مشیروں ہی کو نہیں بلکہ خود امریکی صددر جارج بش تک نے پیش ہونے سے گریز نہیں کیا کمیشنوں کی اکثر تحقیقات کو ٹیلیویژن پر براہ راست دکھایا گیا دنیا بھر نے دیکھا کہ کس طرح خارجہ، دفاع اور سلامتی کے امریکی وزیروں کے علاوہ دیگر ذمہ داروں کو تند و تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم سے کمیشن کے علاوہ خود پارلیمنٹ میں کئی مرتبہ سخت اور تیکھے سوال کئے گئے لیکن انہوں نے نہ کسی کو مکا دکھایا نہ اشاروں سے ڈرایا بلکہ مسکراتے ہوئے ان سب کا جواب دیتے رہے۔ ہماری تو حسرت ہی رہی کہ کبھی پاکستان کا صدر اور وزیر اعظم تو درکنار کوئی وزیر مملکت یا کوئی صوبائی وزیر و مشیر یا کسی سیکریٹری پر اس طرح کھلے عام جرح کا منظر دیکھنے کو ملے۔ جہاں تک بھارت کے ساتھہ تعلقات پر برے اثرات مرتب ہونے کا سوال ہے تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا بھارت بھی کبھی اپنے اقدامات کو پاکستان کے ساتھہ تعلقات سے مشروط کرتا ہے بھارت میں تو آج کل بھی کارگل کے بارے میں تحقیقاتی کمیشن کام کررہا ہے پھر کشمیر میں عکسریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے نام پر ہر روز بے گناہ اور معصوم حریت پسندوں کا خون ناحق بہایا جارہا ہے دفاعی بجٹ میں بھاری اضافہ کیا جارہا ہے، جدید ترین ہتھیاروں کے انبار لگائے جارہے ہیں لائن آف کنٹرول پر باڑھ لگائی جارہی ہے۔ اگر ہمارے یہاں چھوٹے بڑے معاملات میں تحقیقات کی روایت قائم ہوجائے توقوم ہر قسم کی بدعنوانی اور مقتدر حضرات کی من مانی کاروائی سے محفوظ ہوسکتی ہے۔ شاید ہم دنیا کی واحد فوم ہیں جو حقائق کو چھپانے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اگر کبھی عوامی دباؤ کے نتیجہ میں کوئی تحقیقاتی کمیشن قائم بھی کردیا جاتا ہے تو کبھی " بہترین قومی مفاد " میں اور " کبھی دوست ممالک سے تعلقات پر منفی اثرات" کے ڈر سے اس کی رپورٹ کو دبا دیا جاتا ہے۔ ہم آزاد ملک کے شہری ہیں ہماری قوم جب ہر قسم کے حالات کا پامردی سے مقابلہ کرنے کا عزم رکھتی ہے تو پھر کسی ایک فرد یا چند افراد کو ہرگز یہ اختیار حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ پوری قوم پر اثر انداز ہونے والے فیصلے خود کرلیں۔
امریکہ میں دو تحقیقاتی کمیشنوں کا نتیجہ بظاہر حکومت وقت کے خلاف ہی گیا جبکہ وہاں انتخابات بھی ہونے والے ہیں اس لئے ہمیں یہ یقینی بنانا چاہئے کہ کمیشن چاہے کارگل کے بارے میں ہو یا کسی اور واقعہ کے بارے میں وہ مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہو۔ بہتر یہ ہے کہ عوامی نمائندوں پر اعتماد کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سے چار چار افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد برابر ہو اور اسکا چیئرمین ایسے شخص کو بنایا جائے جو دونوں ایوانوں کے اراکین میں سب سے زیادہ پرانا رکن ہو۔
No comments:
Post a Comment