کابل پر شمالی اتحاد کا قبضہ امریکی منصوبہ ہے

روزنامہ ایکسپریس ہفتہ 24 نومبر 2001 ء

11 نومبر کو پاکستان اور امریکہ کے صدور متفق تھے کہ شمالی اتحاد کو کابل پر قبضہ نہیں کرنے دیا جائے گا تاکہ وسیع البنیاد حکومت کے قیام میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو لیکن اس بیان کو دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ شمالی اتحاد نے کابل پر قبضہ کرلیا۔ اس سے پہلے وہ مزار شریف اور کئی دوسرے علاقوں پر قابض ہوچکے تھے۔ اپنی روایات کے مطابق شمالی اتحاد نے اپنے زیر قبضہ علاقہ میں دہشت و بربریت کا خوب بازار سرگرم کیا۔ شمالی اتحاد کے فوجیوں اور حامیوں نے خواتین کے برقعے پھاڑ دیئے، شہریوں کو قتل، مدرسہ کے بچوں کو ہلاک کیا گیا، مردوں کی داڑھیاں نوچی گئیں ، پاکستانیوں کو تو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا، زخمی پاکستانی کو اسپتال میں گولی ماردی گئی، بوڑھوں کو مار کر ان کے حلق میں مارٹر کے گولے ٹھونس دیئے گئے ، شہریوں اور امدادی اداروں کا سامان لوٹ لیا گیا اور لاشوں پر ناچ کر فتح کا جشن منایا گیا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار امریکہ اور دنیا کے مظلوموں کی داد رسی کے لئے قائم اقوام متحدہ نے دل دہلادینے والے ان واقعات سے آنکھیں اور زبان دونوں بند کررکھی ہیں جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ افغانستان میں کاروائی کا مقصد " دہشت گردی" کا خاتمہ نہیں بلکہ چھہ سات صدیوں قبل شروع کی گئی صلیبی جنگوں کا تسلسل ہے۔

افغانستان پر شدید بمباری سے الگ افغانوں کا خون بہہ رہا ہے، مسجدیں مدرسے، اسکول اور اسپتال کچھہ بھی محفوظ نہیں حتیٰ کہ امدادی سامان کے گودام بھی تباہ کئے جارہے ہیں تاکہ افغان عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو اور وہ طالبان حکومت کے خلاف میدان میں نکل آئیں لیکن حیرت ہے کہ امریکہ عراق سے صدام حسین کے اقتدار کو ختم کرنے کی مہم ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصہ سے چلائے ہوئے ہے اور اسے کامیابی نہیں ہوئی ہے تو افغانستان میں وہ ایسا کس طرح کرسکتا ہے۔

15 نومبر کو کابل کے قریب بگرام کے ایئر بیس پر برطانوی کمانڈوز کی آمد پر شمالی اتحاد کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ برطانوی فوج کو ہماری اجازت سے یہاں اترنا چاہئے تھا۔ ان کے خیال میں افغانستان میں امن فوج کی تعیناتی بھی غیر ضروری ہے۔ اس کا خیال ہے کہ افغانستان میں اس کی فوج ہی کافی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 1996ء تک افغانستان کے ایک حصے پر شمالی اتحاد کا قبضہ ضرور تھا لیکن وہ علاقہ شدید بدامنی، لاقانونیت بلکہ خانہ جنگی کا شکار تھا۔ اس سے پہلے 15 سال تک افغانستان کسی نہ کسی طرح روس کے حملوں اور پھر قبائل بلکہ مجاہد تنظیموں کی ہوس اقتدار کے نتیجے میں مصائب و آلام میں گھرا رہا۔

سوال یہ ہے کہ امریکی صدر کے واضح اعلان کے باوجود شمالی اتحاد کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ وہ کابل میں اپنی حکومت کے قیام کا اعلان کردے اور دعویٰ کرے کہ افغانستان میں امن فوج کی ضرورت ہے نہ وہاں حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں غیر ملکیوں کو مداخلت کا حق ہے۔ شمالی اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ خود وسیع البنیاد حکومت کے لئے مختلف رہنماؤں کو دعوت دیں گے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی کہا جارہا ہے کہ وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل میں تاخیر کا سبب شمالی اتحاد ہے۔ پاکستان کے لئے خاص طور پر تشویش کا پہلو یہ ہے کہ امریکہ ، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے شمالی اتحاد کی اس کاروائی کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا بلکہ روس نے تو سرکاری سطح پر اس حکومت سے باقاعدہ رابطہ قائم کرلیا ہے۔ اقوام متحدہ نے تو برہان الدین ربانی کو پہلے ہی افغانستان کا صدر تسلیم کررکھا ہے، ایسے میں ہوتا تو اتحاد ہرگز ایسی حرکت نہ کرتا اور صدر بش بھی اس اقدام کی مذمت کرتے لیکن امریکہ ایسا کیوں کرنا چاہے گا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں 80ء کی دہائی میں جانا ہوگا جب افغانستان پر روس نواز جماعتوں کے ساتھہ روس سے بھی نبرد آزما تھے۔ مسئلے کو حل کرنے کی غرض اقوام متحدہ نے 1982ء میں ایک کمیشن بنایا لیکن یہ کمیشن تفریح طبع کے لئے جینوا میں کبھی کبھار اجلاس منعقد کرکے اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا، اس کے علاوہ کچھہ بھی نہیں کیا گیا۔ اس میں ایک طرف روس تھا اور دوسری طرف افغان عوام اور ان کے ساتھہ پاکستانی ، عرب اور دیگر مسلمان ملکوں کے مجاہدین جو جہاد میں شریک تھے۔ امریکہ کی حمایت روس مخالف گروہ کو حاصل تھی لیکن شاید امریکہ کا منصوبہ اس وقت بھی وہی تھا کہ جس قدر مجاہدین شہید ہوں گے ، یہود و نصاریٰ کی قوت میں اسی قدر اضافہ ہوگا لیکن جب روس تھک ہار گیا تو اس کے ایک سفارت کار نے 8 فروری 1988ء کو اس وقت کے پاکستانی صدر کو کہہ دیا کہ افغانستان کے سلسلے میں کوئی معاہدہ ہوتا ہے یا نہیں، روس وہاں سے چلا جائے گا۔ روس اور امریکہ دونوں کی یہ خواہش تھی کہ کسی سمجھوتے پر اتفاق رائے نہ ہوتا کہ افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوکر رہ جائے۔ 14 اپریل 1988ء کو پاکستان اور افغانستان میں روس کی قائم کردہ حکومت کے نمائندوں نے جینوا میں ایک معاہدے پر دستخط کردیئے۔ اس موقع پر روس اور امریکہ کے وزرائے خارجہ بھی ضامن کی حیثیت سے موجود تھے معاہدہ اس قدر ناقص تھا کہ اس میں آئندہ کی حکومت کے بارے میں کوئی رہنمائی نہیں تھی بلکہ اس کی گنجائش تھی کہ روس اپنی حکومت کو کس قدر ہتھیار فراہم کرنا چاہےم کرتا رہے۔ روس نے تو اس پر عمل کیا لیکن امریکہ نے راہ فرار اختیار کر لی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں فاتح روس نواز فوج کے پاس ہتھیاروں کا ذخیرہ ہوگیا۔ اگر معاہدے میں نمائندہ حکومت کی تشکیل کی شرط ہوتی تو پھر روس کو تاوان ادا کئے بغیر نہیں جانے دیا جاتا لیکن وہ کابل میں اپنی حکومت چھوڑ کر 15 فروری 1989ء کو باعزت طور پر واپس لوٹ گیا۔ اس کے بعد وہی ہوا ، ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا اور جہاں جس قبیلے یا کمانڈر کو موقع ملا اس نے اپنی حکومت قائم کرلی۔ متعدد بار قبائلی عمائدین اور کمانڈروں کے اجلاس ہوئے تاکہ کوئی قابل قبول لائحہ عمل تلاش کیا جاسکے لیکن کبھی کسی کمانڈر اور کبھی کسی قبائلی سردار نے اس کی راہ میں روڑے اٹکادیئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کی خود افغانوں کے ہاتھوں تباہی اور بربادی جاری رہی۔ امریکہ اور روس کی خواہش کے مطابق یہ سب کچھہ ہوتا تہا لیکن ایک مدرسے کے کم عمر طالب علم کو اغوا کرکے اس کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تو اس مدرسے کے ایک استاد ملا عمر چند ساتھیوں کے ساتھہ میدان میں نکلے۔ مجاہدین کا قافلہ بنتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کے تقریباً 95 فیصد علاقے پر " طالبان" کی حکومت قائم ہوگئی۔ اس حکومت نے اور کچھہ کیا ہو یا نہ کیا ہو ملک میں مثالی امن و امان ضرور قائم کردیا، لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوگئی، قانون کی بالادستی حاصل ہوئی، قتل، خواتین کا اغوا اور ان کی بے حرمتی، لوٹ مار اور چوری چکاری کی لعنت کا موثر انداز میں خاتمہ کردیا گیا۔ لیکن آج کے دور میں طالبان کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ افغانستان میں اسلامی نظام کو نافذ کردیا تھا۔ مغرب کے لئے اس سے بڑی دہشت گردی کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی اس زمانے میں یورپ یا امریکہ کے بجائے خدا کا نام لے۔ بہرحال حالات وہاں پہنچ گئے جن سے آج کا بچہ بچہ بخوبی واقف ہے۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن اور ان کی القاعدہ تنظیم کے بعد طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر مختلف پابندیاں عائد کردیں اور تباہ حال افغانستان مرید تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا لیکن انسانی حقوق کے علمبردار کسی بھی ملک نے امریکہ اور اقوام متحدہ سے یہ معلوم کرنے کی جرأت نہیں کہ کہ " دہشت گردی" کا ثبوت کیا ہے؟ اور آج دنیا کے انصاف پسند لوگوں کی بھاری تعداد افغانستان کے خلاف کاروائی کو اس لئے کھلی جارحیت سمجھہ رہی ہے کہ یہ سب کچھہ بغیر ثبوت ہورہا ہے، امریکی صدر یا برطانیہ کے وزیر اعظم کی طرف سے یہ کہنا تو ثبوت نہیں کہ " مجھہ پر اعتماد کرو" اگر بات اعتماد کرنے ہی کی ہے تو پھر ہم ملا محمد عمر کی بات پر اعتماد" کیوں نہ کریں جو ایک باعمل مسلمان ہیں۔

عالمی لیڈروں نے طالبان کے سلسلے میں یہ زیادتی بھی کی کہ 95 فیصد علاقے پر حکومت قائم کرلینے، امن و امان کو یقینی بنانے اور پست وغیرہ کی کاشت پر مکمل پابندی لگانے والی حکومت کے بجائے 5 فیصد علاقے پر قابض حکومت کو تسلیم کیا۔ اگر طالبان کی حکومت اقوام متحدہ اور اقوام عالم کے دھارے میں شامل ہوتی تو آج افغانستان کے بے گناہ شہری جس عذاب میں مبتلا ہیں وہ اس سے بچ جاتے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ طالبان کے بجائے اگر کوئی اور حکومت ہوتی وہ دیکھتی کہ پوری دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اور سرحدوں کے چاروں طرف قائم ملک ایک جان ہوکر اس کے خلاف متحد ہوگئے ہیں تو وہ دہشت سے زمین میں دھنس جاتی۔ آج نشانہ چوکنے "والی بمباری" کے سبب افغانستان میں دیہات اور قصبے صفحہ ہستی سے مٹ رہے ہیں اور شہروں کی آبادی اس بہانے ختم کی جارہی ہے کہ وہاں طالبان چھپے ہوئے ہیں ۔ مسجدوں اور مدرسوں کو بھی اسی بنا پر نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن اسپتال اور امدادی سامان کیوں تباہ کئے جارہے ہیں، یہ کوئی نہیں بتاتا۔ شمالی اتحاد نے جس لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا آغاز کیا ہے اس کی ذمہ داری براہ راست امریکہ و یورپ پر عائد ہوتی ہے اس لئے انہوں نے ہی شمالی اتحاد کو مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس کیا ہے۔ پھر امریکی بمبار طیارے آبادی پر حملے کرکے شمالی فوجوں کو آگے بڑھنے کے لئے راستے دے رہے ہیں۔

اب جب کہ شمالی اتحاد کابل پر قابض ہے ، آئندہ حکومت کی تشکیل میں بھی اس کا پلہ بھاری رہے گا اور یہ بھی خطرہ ہے کہ نمائندہ حکومت کی تشکیل میں مہینے نہیں کئی برس لگ سکتے ہیں تاکہ امریکہ اپنے ہر اول دستے شمالی اتحاد سے کام چلاتا رہے۔ نمائندہ حکومت کے قیام سے ملک میں " امن و امان" کا خطرہ ہے جب کہ امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے مفاد میں ہے کہ افغانستان مزید چند برسوں تک خانہ جنگی اور بدامنی کا شکار رہے۔ اس طرح لاکھوں بچے غذا اور ادویات کی کمی کے سبب اور ہزاروں خواتین اور مرد سردی ، بھوک اور بیماری کی نذر ہوجائیں گے۔

کابل پر قبضہ کے سلسلے میں شمالی اتحاد کا کہنا ہے کہ اس نے امریکہ کے مشورے سے یہ کاروائی کی اور یہی بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے اس لئے کہ شمالی اتحاد امریکی مزاج پر پورا اترنا ہے۔ اس کے رہنما امریکہ سے بھی زیادہ سیکولر ہیں۔ امریکہ کی یہ بھی خواہش ہوگی کہ وہ دنیا مسلمانوں کے قتل کی ذمہ داری سے بچ جائے اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہے کہ افغانستان پر شمالی اتحاد کی حکومت قائم رہے یا پھر حکومت سازی اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ کابل میں جس طرح مختلف دھڑوں اور قبائل سے تعلق رکھنے والے سردار اور کمانڈر جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں اس سے خطرہ ہے کہ وہاں خوں ریزی کا آغاز نہ ہوجائے اور طالبان سے پہلے کے حالات لوٹ آئیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ سب کچھہ امریکہ کے مفاد میں ہے۔ وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ یا تاخیر امریکہ کو خطے میں غیر معینہ مدت تک ٹھہرنے کا جواز فراہم کرے گی اور امریکہ کا اصل منصوبہ بھی ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ چین، پاکستان ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا راستہ روکنے کے لئے اس خطے میں تادیر ڈیرا جمائے۔ وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل میں سنجیدگی کے ساتھہ کوئی کوشش نہیں کی گئی جب کہ 11 ستمبر کے سانحہ واشنگٹن و نیویارک کے فوراً بعد امریکہ اوردوسرے ممالک کی طرف سے افغانستان میں ایسی حکومت کے قیام کی باتیں شروع ہوگئی تھیں لیکن ہم دیکھہ رہے ہیں کہ امریکہ سیاسی عمل کی طرف قطعی توجہ نہیں دے رہا۔ اس نے خود کو صرف فوجی کاروائی تک ہی محدود کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جو کوششیں کی جارہی ہیں ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ بڑی نیم دلی کے ساتھہ ہورہی ہیں اس لئے اس شبہ کو تقویت مل رہی ہے کہ امریکہ سیاسی کے بجائے فوجی حل پر یقین رکھتا ہے۔ خاص طور پر ان مسلمان ممالک میں عراق ، لیبیا، سوڈان اور ایران اس کی مثال ہیں۔ فلسطین میں اس کا معیار عدل بالکل مختلف ہے۔ شمالی اتحاد اور امریکہ کی نیت کے سلسلے میں جن خدشات اور خطرات کا اظہار کیا جارہا ہے خدا کرے کہ وہ غلط ثابت ہوں اور افغانستان میں جلد ایسی حکومت کی تشکیل میں کامیابی حاصل ہوجائے جو افغان عوام کے جذبات ، احساسات اور ثقافت کی نمائندہ اور عکاس ہو اور ملک میں پائیدار امن و امان بحال ہوجائے تاکہ وہاں تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے سنہرے دور کا آغاز ہوجائے اور پاکستان اور ایران کے کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افغان اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔

No comments:

Post a Comment