بھارت اور سلامتی کونسل کی مستقل نشست

روزنامہ جنگ اتوار 26 ستمبر 2004 ء

بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ ایک ارب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت کو سلامتی کونسل میں مستقل نشست نہ دینا جدید دنیا سے ہم آہنگ نہیں لیکن اگر ٹونی بلیئر کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر چین،بھارت،امریکہ،روس،انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے زیادہ آبادی والے ملک مستقل رکنیت کے حقدار قرار پائیں گے اور برطانیہ اور فرانس جیسےکم آبادی والے ملکوں کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت سے ہاتھہ دھونا پڑجائیں گے۔ ٹونی بلئیر اور من موہن سنگھہ کی یہ باتیں اقوام متحدہ میں ان اصلاحات کی کوششوں کا حصہ ہیں جن کا شوشہ کوئی ایک عشرے پہلے چھوڑا گیا تھا لیکن آج دنیا کی قسمت کے ٹھیکیدار شاید یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا نفسیاتی طور پر اقوام متحدہ کی ہیئت میں ان تبدیلیوں کیلئے تیار ہے جو وہ لانا چاہتے ہیں۔ امریکہ چند ماہ پہلے سلامتی کونسل میں بھارت کی موجودگی کی ضرورت پر زور دے چکا ہے۔ بھارت ، جاپان ، جرمنی اور برازیل نے "انجمن ستائش باہمی" قائم کرلی ہے یعنی چاروں ملک مستقل رکنیت کیلئے ایک دوسرے کی دد کریں گے۔ پاکستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی راہ روکنے کی پوری کوشش کرے گا لیکن اگر واقعی اقوام متحدہ میں اصلاحات لانا مقصود ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد میں اضافہ نہیں بلکہ دنیا کو مستقل اراکین کی لعنت سے چھٹکارا دلایا جائے۔ آج کی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل اور دس غیر مستقل نمائندے ہیں غیر مستقل ممبر دو سال کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں پانچ مستقل اراکین یعنی امریکہ ، چین ، روس ، برطانیہ اور فرانس میں سے ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرار دار کے خلاف رائے دے دے تو وہ قرار داد مسترد ہوجاتی ہے چاہے کونسل کے دس عام اور باقی چار مستقل اراکین اس قرارداد کے حامی کیوں نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چند کروڑ افراد کی آبادی کا کوئی ایک ملک بھی اس حق استرداد کے سہارے ساری دنیا کے جذبات و احساسات پر پانی پھیر سکتا ہے اس طرح یہ ایک انتہائی ظالمانہ حق ہے جو پانچ ملکوں کو حاصل ہے دراصل اقوام متحدہ کے دو اہم اعضاء ہیں ایک جنرل اسمبلی جو تمام رکن ممالک پر مشتمل ہوتی ہے آج 190 سے بھی زیادہ ملک اس کےممبر ہیں۔ دوسرا سلامتی کونسل جو اقوام متحدہ کی اصل روح ہے اس کے فیصلوں پر عملدرآمد تمام ملکوں کیلئے لازمی ہوتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اگر قرار داد کی زد کسی ایک مستقل ممبر یا اس کے کسی حواری پر پڑی تو اس قرار داد کی مخالفت میں رائے دےکر اسے بے اثر بنا دیا گیا۔ مثال کےطور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں آج تک کوئی ایسی قرارداد منظور نہیں کی جاسکی جس میں نام لئے بغیر بھی اسرائیل کی مذمت اور اس کے کسی منصوبہ کی مخالفت کی گئی ہو اس لئے کہ امریکہ نے ایسی ہر قرار داد کو مسترد کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جان علیحدہ علیحدہ پانچ مستقل نمائندوں کے ہاتھوں میں ہے۔ آج دنیا میں آزادی، خود مختاری ، جمہوریت اور انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں میں امریکہ سرفہرست ہے لیکن سلامتی کونسل میں اس کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کا یرغمالی بنا ہوا ہے اور امریکہ نے اقوام متحدہ کو یرغمال بنا رکھا ہے اقوام متحدہ کی رائے کو ٹھکراتے ہوئے امریکہ نے عراق کو جس بدترین جارحیت کا نشانہ بنایا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج بھی دنیا میں چنگیز اور ہلاکو کی نسل پوری طرح سرگرم عمل ہے اسلئے دنیا کو پانچ مستقل اراکین کے تسلط سے بچانا ضروری ہے نہ کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین میں اضافہ کیا جائے اقوام متحدہ کے استحکام اور اس کے وقار میں اضافہ کیلئے بھی ضروری ہے کہ مستقل رکنیت کی شق ختم کرکے دنیا کو حق استرداد کی ستم سامانیوں سے نجات دلائی جائے دنیا کے صرف پانچ ملکوں کو لامحدود اختیارات دینا دنیا کے تمام آزاد اور خود مختار ملکوں کے انسانوں کی توہین کے مترادف ہے اسلئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 23اور27کی شق 3 میں اس طرح ترمیم کی جائے کہ مستقل اراکین کی گنجائش ختم ہوجائے اور اس کے تمام اراکین کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق آج کسی قرار داد کی منظوری کیلئے ضروری ہے کہ 15 میں سے کم از کم نو ممبروں کی حمایت حاصل ہو لیکن اس کیلئے یہ بھی لازمی ہے کہ پانچ مستقل اراکین میں سے کسی ایک بھی منفی ووٹ نہ ہو۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ قرار داد کی منظوری کیلئے تو کم از کم نو ممبروں کی حمایت ضروری ہے جس میں مستقل ممبر کا منفی ووٹ اس قرار داد کو بے اثر بنانے کیلئے کافی ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی اور بے وقعتی کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں عراق پر حملہ اقوام متحدہ کی مرضی کے برخلاف اور اس کےاصولوں کی انتہائی سنگین خلاف ورزی ہے جس کی نشاندہی عالمی ادارہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے اس کے افتتاحی اجلاس کےموقع پر خود کی ہے البتہ یہ بات قابل غورہے کہ اس سچ کے بیان کےلئے انہیں ڈیڑھ سال کیوں انتظار کرنا پڑا کیا ایسا کرکے وہ خود بھی شریک جرم قرار نہیں پاتے بہرحال ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ ایسا عمداً کیا گیا اور اس کا مقصد محض عراق کی تباہی کو یقینی بنانا تھا اگر اقوام متحدہ آج امریکہ سے آزاد ہوتا اور سیکریٹری جنرل میں اس ادارہ کے شایان شان اخلاقی جرأت ہوتی تو امریکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے خلاف جارحیت کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اگر ایسا کرلیا جاتا تو اس جرم میں اسے ہرقسم کی پابندیوں میں جکڑ دیا جاتا یہی نہیں خود کوفی عنان کو بھی جرم کو چھپانے اور اقوام متحدہ کے وقار کو پامال کرنے کے الزام میں اور نہیں تو جنرل سیکریٹری کے منصب سے ضرور ہٹادیا جاتا ۔ اگر آج دنیا بیدار اور اس کی رائے عامہ منظم ہوتی یا وہ اسلام دشمنی کا شکار نہیں ہوری یا جارحیت کا نشانہ مسلم ملک کے بجائے کوئی عیسائی یا یہودی ملک ہوتا تو دنیا دیکھتی کہ حملہ آور جرائم کی عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہے لیکن بدقسمتی سے مسلمان قیادت خود پست ہمت اور احساس کمتری کا شکار ہے اس لئے ایسا ممکن نہیں۔ بہرحال اگر اقوام متحدہ کو پہلی عالمی جنگ کی کوکھہ سے جنم لینے والی جمعیت اقوام کے حشر سے بچانا ہے تو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق تمام ملکوں کو برابری کا درجہ دینا ہوگا اور مظلوم اقوام کو انصاف فراہم کرنا اور ظالم اور جابر ملکوں کا ہاتھہ روکنا ہوگا لیکن اس کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ پہلے اقوام متحدہ کو امریکہ کے تسلط سے نجات دلائی جائے جب تک امریکہ کی لاٹھی کو توڑا نہیں جائے گا اس وقت تک دنیا میں ظلم و جبر کا سلسلہ دراز ہوتا رہے گا دنیا میں امن و آتشی، آزادی، انصاف اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ ایک آزاد، طاقتور اور غیر جانبدار ادارہ ہے۔ آج دنیا کے مسلمان ہی نہیں امن پسند عیسائی ، یہودی اور ہندو سب ہی شدت کے ساتھہ یہ محسوس کررہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کو امریکہ بددیانتی پر مبنی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی کیلئےاستعمال کرتا ہے۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارہ (IAEA) کے ذریعہ پہلے وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ہوّا کھڑا کیا گیا پھر مختلف پابندیاں لگا کر دس لاکھہ بچوں سمیت پندرہ لاکھہ انسانوں کی ہلاکت کا سامان کیا اس پر صبر نہیں آیا تو آسمان سے آگ برسانے کا سلسلہ شروع کرکے بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پرجت گیا ، وہاں بہنے والے خون سے بھی دل کی پیاس نہیں بجھتی تو اب ایران کی جوہری صلاحیت پ واویلا مچانا شروع کردیا اور بغیر کسی جواز کے سوڈان میں اپنی فوجیں اتارنا چاہتا ہے اگر امریکہ واقعی جوہری ہتھیاروں سے نفرت کرتا ہے تو پھر اسرائیل کی ایٹمی صلاحیت سے کیوں چشم پوشی کی جارہی ہے۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارہ کے نمائندوں کو ویسے تو اسرائیل جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن دنیا کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کیلئے ایک مرتبہ کارنامہ دے بھی لیا تو ہم نے دیکھا کہ اسرائیل حکام کے سامنے ان کا رویہ خوشمندانہ بلکہ معذرت خواہانہ تھا لیکن وہی نمائندے جب ایران جاتے ہیں رو ان کا رویہ تحکمانہ ہوجاتا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے بالکل صحیح اور بروقت مشورہ دیا ہے کہ قیام امن کیلئے امریکہ کو اہم کردارادا کرنا چاہئے لیکن اس کیلئے پہلے خود امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی جارحیت کو ترک کرنا ہوگا صدر پاکستان کا یہ انتباہ بھی بروقت ہے کہ اسلامی دنیا اورمغرب کے درمیان آہنی دیوار پردہ حائل ہونے سے پہلے کچھہ اقدامات کونا ہوں گے، اگر دنیا بے آج ظلم اور نانصافی کا راستہ نہیں روکا تو کل ایک ایک کرکےہر ملک اس وحشت و بربریت کا شکار بنایا جاتا رہے۔

No comments:

Post a Comment