امریکہ اور بھارت کا باہمی دفاعی معاہدہ
روزنامہ ایکسپریس بدھ 12 دسمبر 2001ء
امریکہ اور بھارت کے مابین کثیر الجہت اور کثیر المقاصد فوجی تعلقات کی وہ بلی جو عرصے سے تھیلے میں بند تھی بالآخر چار دسمبر کو اس وقت باہر آگئی جب نئی دہلی سے جاری کئے جانے والے مشترکہ اعلامیہ میں امریکہ اور بھارت کے درمیان طے پائے جانے والے فوجی تعاون کے معاہدے کی خبر دی گئی۔ معاہدے کے مطابق دونوں ملک خصوصی فوجوں کی تربیت اور دہشت گردی کو روکنے اور جنوبی ایشیا میں حفاظتی اقدامات کرنے کے لئے ملکر کام کریں گے۔ علاوہ ازیں امریکہ کی طرف سے بھارت کو ریڈار، ہلکے جنگی طیاروں کے پرزے اور دوسرا اہم فوجی سامان بھی دیا جائے گا۔ پاکستان کے نقطہ نگاہ سے یہ معاہدہ بیک وقت باعث اطمینان بھی ہے اور باعث تشویش بھی لیکن ہمارے حکمرانوں کے لئے باعث حیرت بلکہ ناقابل یقین ہوگا۔ اس لئے کہ گیارہ ستمبر کے بعد ہر سطح سے اور بار بار پاکستان کے ساتھہ مضبوط اور مستقل بنیادون پر دوستی کے امریکی وعدوں کی بازگشت ابھی تک کانوں میں گونج رہی ہے۔ ویسے یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دہشت گردی کے نام پر افغان عوام کے خلاف امریکہ کی جارحیت میں ہر اوّل دستہ کا کام کرنے والے پاکستان سے وہ اس قدر جلد آنکھیں پھیر کر اس کے دشمن بھارت کے ساتھہ دفاعی تعاون کا معاہدہ کرلے گا۔ افغانستان کے سلسلے میں بھارت کا کردار ہمیشہ منافقانہ اور منفی رہا ہے۔ بہرحال اس معاہدے کا باعث اطمینان یا مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمراں بھی اب امریکہ کی طرف سے دوستی اور ہر قسم کی امداد کے دلفریب زبانی وعدوں کے سحر سے نکل آئیں گے اور وہ "بہترین قومی مفاد میں اختیار کردہ اپنی کامیاب افغان حکمت عملی" کی اصلیت کو سمجھتے ہوئے امریکہ یا کسی اور ملک کے مفادات کی تکمیل کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے سے باز آجائیں گے۔ اس معاہدے کی حقیقت میں کوئی زیادہ اہمیت اس لئے نہیں کہ امریکہ ہمیشہ پاکستان سے دوستی کا دم بھرتا رہا ہے لیکن عملاً بھارت کی مدد کرتا رہا۔ اب کم از کم اس سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ امریکہ کے مزید فریب میں نہیں آئیں گے۔
مذکورہ بالا معاہدہ اس لحاظ سے تشویش ناک ہے کہ افغانستان کے سلسلے میں پاکستان دو عشروں سے ہر اوّل دستہ بنا ہوا ہے اور گیارہ ستمبر کے بعد ہمیں پھر امریکہ کا بنیادی اتحادی بننے پر مجبور کردیا گیا۔ امریکہ سے یہ تعاون پاکستان کے لئے اندرونی اور بیرونی خطرات کا باعث بن سکتا ہے اس لئے اس تعاون کا تقاضا تھا کہ امریکہ دفاعی اشتراک کا معاہدہ پاکستان سے کرتا۔ گو ہم پاکستانی امریکہ یا کسی اور ملک کو بیساکھی کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں ہر گز نہیں کہ آزادی ، خود مختاری اور عزت و وقار کا تحفظ قوم کو اپنے ہی بل بوتے پر کرنا چاہئے لیکن یہاں بات اصول کی ہے کہ اگر اس خطے میں کسی کے ساتھہ فوجی میدان میں تعاون کی بات ہی کرنی تھی تو اس لئے بہترین اور واحد انتخاب پاکستان تھا اور ایسا ہونا ممکن نہیں تھا کہ کیوں کہ قرآن حکیم اس بارے میں پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکا ہے کہ" مشرکین تو ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔" بہرحال اگر کسی قوم نے آزاد ، خود دار اور باوقار زندگی گزارنے کا عزم کر رکھا ہو تو ایسے کسی معاہدے کی ضرورت ہی نہیں رہتی لیکن ہم زمینی حقائق سے چشم پوشی بھی نہیں کرسکتے نہ دشمن کے اس رویے کو جو 15 اگست 1947ء سے بھی پہلے سے ہمارے ساتھہ رہا ہے، نظر انداز کرنے کی غلطی کرسکتے ہیں۔
اعلامیے میں " جنوبی ایشیا میں حفاظتی انتظامات اور دہشت گردی کے خلاف باہم کام کرنے" کے جس عزم کا اظہار امریکہ اور بھارت کی طرف سے کیا گیا ہے اس پر فوری اور خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سبب سے پہلا کام جو حکومت کو کرنا چاہئے وہ بھارت اور خاص طور پر امریکہ سے دوستانہ یا معذرت خواہانہ نہیں بلکہ پرزور الفاظ میں سخت احتجاج کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ہماری معمولی سی غفلت بھی ہمیں شدید خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔ ویسے بھارت بھی یہ کام بڑی مستعدی کے ساتھہ کرتا رہا ہے کہ جیسے ہی پاکستان کسی ملک کے ساتھہ دوستی کے معاہدے کی بات کرتا ہے وہ فوراً اس دوستی کو بھارت کے خلاف قرار دے کر دوسروں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیتا ہے تاکہ پاکستان کے دوستوں کا حلقہ وسیع نہ ہونے پائے۔ حتٰی کہ خود امریکہ اس سلسلے میں روڑے اٹکاتا رہا ہے۔ ایٹمی بجلی گھر اور ایٹمی آبدوزوں سے ہماری محرومی امریکہ کی کرم فرمائی ہی کا نتیجہ ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کر رکھی ہے وہ دراصل صلیبی جنگ ہی کا تسلسل ہے؟
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
امریکہ نے یہ بات ڈھکی چھپی بھی نہیں رکھی۔ اس کے صدر نے پہلے ہی دن صلیبی جنگ کا ذکر کرکے مسلم اور غیر مسلم دنیا پر یہ واضح کردیا تھا کہ اب اگر ہماری عقلوں پر ہی پردہ پڑا ہو اور ہم حقیقت کو نہ دیکھہ سکیں تو اس میں کسی اور کا کیا قصور ہے۔ امریکہ نے یہ بھی بتادیا کہ افغانستان سے فارغ ہونے کے بعد وہ " دہشت گردوں کا پیچھا دوسرے ملکوں میں بھی کرے گا اور ان ملکوں میں ایران، عراق، سوڈان، لیبیا سرفہرست ہیں۔ اب صومالیہ کا ذکر بھی آنے لگا ہے۔ امریکہ نے مصلحتاً پاکستان کا نام تو نہیں لیا لیکن محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جس میں 20 جنوری 2001ء سے پہلے کی دنیا کا احوال درج ہے لکھا گیا ہے کہ " دہشت گردی کے سلسلے میں پاکستان سے ملے جلے پیغامات موصول ہوتے ہیں چند افراد کی گرفتاری اور انہیں حوالگی کے سلسلے میں نمایاں تعاون کے باوجود حکومت پاکستان نے اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کی موجودگی اور انکی نقل و حرکت کی آزادی دے رکھی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت ایسے گروہوں کی مدد بھی کرتی ہے جو کشمیر میں جا کر تشدد کی کاروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
بھارت کو یہودی ذرائع ابلاغ کی بھرپور حمایت اور تعاون حاصل ہے۔ پروپیگینڈا مشینری بڑی متحرک اور فعال ہے۔ دنیا کو یہ یقین کرنے میں شاید دیر نہ لگے کہ کشمیر میں پاکستان کی طرف سے دہشت گردی ہورہی ہے۔ وہ اس مقصد کے لئے اپنی ایجنسیوں کے ذریعے اپنے ہی عوام کو قتل کردینے سے بھی باز نیں آتا۔ گذشتہ سال امریکی صدر کے دورہ بھارت اور بعد میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ کی بھارت یاترا کے موقعوں پر درجنوں ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کے قتل عام کے افسوسناک واقعات رونما ہوچکے ہیں تاکہ غیر ملکی مہمانوں کے سامنے پاکستا ن کی دہشت گردی ثابت کی جاسکے۔ چند ہفتوں سے مغربی ذرائع ابلاغ کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات کو نمایاں جگہ دینے میں لگے ہیں جن میں جہادی تنظیموں کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے اور جہاد غالباً واحد لفظ ہے جس سے پوری غیر مسلم دنیا خوفزدہ ہے۔ ویسے بدقسمتی سے احساس کمتری کے شکار کچھہ مسلمان بھی سامنے آنے لگے ہیں جو جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دے کر فخر محسوس کرتے اور خود کو روشن خیال سمجھتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مغرب کے پروپیگینڈے کا شکار ہوں یا ایمان کی کمزوری اس کا سبب ہو۔ جہاد اور جہاد میں شریک تنظیموں کو امریکہ چن چن کر پابندیوں میں جکڑتا اور ان کے اثاثوں کو منجمد کرکے بے دست و پا بنارہا ہے۔ ان میں ایسے فلاحی ادارے بھی شامل ہیں جو محض خدمت خلق سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس لئے کہ ان کی نسبت اسلام سے ہے، ان کو غیر فعال بنانے کی مہم جاری ہے۔ دنیا کو یہ بات سمجھہ لینی چاہئے کہ مجاہد کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ وہ آزادی اور احترام آدمیت کا علمبردار اور حق و صداقت کا سپاہی ہوتا ہے۔ وہ اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے کے لئے تیار رہتا ہے۔ وہ نڈر اور بہادر ہوتا ہے۔ وہ بچوں، عورتوں ضعیفوں کے علاوہ ان نوجوانوں پر بھی ہاتھہ نہیں اٹھاتا جو اس کے مقابلے پر نہ آئیں۔
بھارت ، امریکہ معاہدے کے پس منظر میں جب ہم امریکی انتظامیہ اور بھارے کے حکمرانوں اور افغانستان کی عبوری حکومت کے نامزد وزیر داخلہ کے بیانات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو سنگین خطرات محسوس ہونے لگتے ہیں۔ امریکہ، پاکستان کے ساتھہ اپنے رویہ بدلتا جارہا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی تشکیل پر پاکستان کتنا ہی خوش ہوکر دعویٰ کرے کہ یہ عارضی حکمراں ٹولہ ہمارا دوست ہے، اسے کوئی پاکستانی صحیح نہیں سمجھتا۔ عبوری حکومت میں روس سے ظاہر شاہ کے پیارے ہیں جن سے پاکستان دوستی کی امید رکھنا ہوش مندی کی بات نہیں۔ " امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے غیر ملکی مصنوعات کی نقل تیار کرنے پر پاکستان سے سخت احتجاج" کی خبربھی 8 دسمبر کے اخبارات میں ہے۔ اسی تاریخ کو یہ خبر بھی آئی کہ " پاکستان ٹیکسٹائل ملز کا دورہ کرنے پر امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی نے پاکستان میں متعین امریکی سفیر پر شدید تنقید کی ہے۔ ابھی افغانستان میں امریکہ کے بقول دہشت گردی کے خاتمے کے لئے برسوں درکار ہیں لیکن پاکستان کی اسے اب شاید زیادہ دنوں ضرورت نہیں رہے گی اور اسے کچھہ کرنے کے لئے ابھی سے تیاری کرنی ہوگی۔ امریکہ بھارت سمجھوتہ اور کشمیر میں دہشت گردی کی خبریں شاید اسی کی تیاری کا حصہ ہیں۔ ویسے بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان عالمی اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود بڑی حد تک تنہائی کی طرف تیزی کے ساتھہ بڑھتا جارہا ہے۔ مشرق، مغرب اور شمال میں ہم دوستوں سے محروم ہیں اور جنوب میں امریکی بحری بیڑے ہر اس جہاز کی تلاشی لے رہے ہیں جو پاکستان سے جارہے ہیں۔ ہماری برآمدی تجارت سنگین خطرات سے دوچار ہیں۔ امداد کے اعلانات اور قرضوں کے وعدے ابھی زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں ۔ غیر ملکیوں کے دورے اور وقت بے وقت ٹیلی فون ہماری سلامتی اور تحفظ کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے۔ ہمیں خوش فہمیوں کے حصار سے نکل کر دنیا کے تلخ حقائق کو سمجھنے اور خود کو ان کے مقابلے کے لئے تیار کرنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment