وزیر اعظم شوکت عزیز کی دو ٹوک وضاحت
روزنامہ جنگ اتوار 28 نومبر 2004ء
وزیر اعظم شوکت عزیر نے بھارت میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ بیان دے کر کہ پاکستان لائن آف کنڑول کو مستقل سرحد تسلیم نہیں کرے گا ااس غلط فہمی کی جڑ کاٹ دی ہے جو گزشتہ دنوں صدر مملکت کے بیان کے نتیجے میں پیدا ہو گئی تھی کہ تنازع کشمیر کے حل کی خاطر پاکستان اپنے اس اصولی اور تاریخی موقف سے ہٹ گیا ہے کشمیری عوام کو آٓزاد مرضی کے مطابق مسلئہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم کے ان بیانات سے استصواب رائے کے اس اصول پر کاربند رہنے کے عزم کا اظہار ہونا ہے جو اقوام متحدہ نے کیے تھے اور بھارت اور پاکستان نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔
لیکن اس خطہ کے عوام کی بدقسمتی کہ بھارتی عالمی سطح پر کئے گئے استصواب رائے کے وعدے سے مکر گئے اور اب بھارت کی دلیل یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی مرتبہ انتخابات کرائے جاچکے ہیں اور جو استصواب کا بدل ہیں اس لئے ان کے بقول کشمیر کے مستقبل کے بارے میں وہی فیصلہ حتمی ہوگا جو مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کرے گی۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی نگرانی میں عام انتخابات اور استصواب رائے میں رات دن کا فرق ہے اول الذکر کے موقع پر بھارت کسی غیر جانبدار ادارہ کو اپنے مبصر بھیجنے کی اجازت تک نہیں دیتا تو پھر انہیں کس طرح آزاد اور غیر جانبدار قرار دیا جاسکتان ہے پھر ان انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کا تناسب پانچ سات فیصد سے زیادہ کبھی نہیں رہا جبکہ استصواب رائے کا اقوام متحدہ کی نگرانی میں کروایا جانا ہے اور اس میں تمام کشمیری باشندوں کو جو دنیا کے مختلف علاقوں میں بحیثیت مہاجر مقیم ہیں حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا جبکہ بھارت تو انسانی حقوق کے کسی ادارے کے نمائندوں تک کو بھی مقبوضہ کشمیر آنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسی ہزار سے زیادہ ان قبروں کو اور ان سیکڑوں مسلم خواتین کو جن کی عصمتوں کو بھارتی فوجیوں نے تار تار کردیا ہے دنیا کی نظروں سے چھپایا جائے اگر بھارت سمجھتا ہے کہ اس کے منعقدہ انتخابات استصواب رائے کا بدل ہیں تو پھر اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جانی چاہئے کہ ایک مرتبہ بیک وقت آذاد اور جموں کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کرالیا جائے اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے دوہمسایوں کے درمیان موجود تنازع خوش اسلوبی کے ساتھہ حل ہوجائے گا اور دوسرا یہ کہ اس سے وہ داغ بھی دھل جائے جو اقوام عالم سے کئے گئے اپنے وعدے سے پھر جانے کے سبب بھارت کے چہرے پرلگا ہوا ہے۔
بھارت کو کھلے دل کے ساتھہ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے عوام اور حکومتیں اپنے ہمسایوں کے ساتھہ تمام تنازعات کو ختم کرکے معمول کے تعلقات کی بحالی کے زیادہ خواہاں ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں منقسم خاندانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس دورے کے دوران "دونوں ملکوں کے درمیان دیوار برلن گرانے کا عزم" کے اظہار سے پاکستان کے عوام کو بڑا دھچکا پہنچا ہے اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم شوکت عزیز سے ٹیلیفون پر اپنی گفتگو کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے ایک ایسے عمل کو شروع کرنے پر زور دیا جس کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان حائل دیوار برلن کو گرایا جاسکے۔
بھارت کے دانشور، صحافی، سیاستداں، حکمراں اور عام شہری جب بھی پاکستان آتے ہیں تو ان کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان قائم "نفرت کی دیوار" یا "دیوار برلن" کو ختم کرنے کی بات ضرور کی جاتی ہے۔ قائداعظم نے بھارت کے ساتھہ تعلقات اور دوستی کی بنیاد سے مشروط کیا تھا اور اس اصول سے انحراف کرکے کسی بھی ملک سے دوستانہ تعلقات قائم نہیں کئے جاسکتے اور پاکستان کی ابتدائی حکومتوں نے ہمیشہ اس اصول کو اپنے پیش نظر رکھا حتٰی کہ اس وقت ہمارے پاس نہ منظم فوج تھی نہ ہتھیار تھے لیکن ہم نے کبھی دب کر بات کی نہ کوئی سمجھوتا کیا آج ہم بجا طور پر ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی بھارت کے ساتھہ ایسے معاہدوں کے لئے بے چین نظر آتے ہیں جن سے بھارت کا تشخص علاقہ کے چوہدری کی حیثیت سے ابھرتا ہے بھارتی وزیر اعظم کی ٹیلیفون پر گفتگو میں دیوار برلن کا حوالہ اور دورہ سری نگر کے موقع پر کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینا اور ہماری طرف سے اس پر خاموشی ان کے حوصلہ بلند کرنے کے مترادف ہے نیویارک میں صدر پرویز مشرف سے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھہ کی اچھی باتوں کے بعد پھر اٹوٹ انگ کی رٹ لگانا ویسے بھی ناقابل فہم ہے۔
یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی بے محل نہیں ہوگا اور وہ یہ کہ پچھلے دنوں شوشا بھی چھوڑا گیا تھا کہ قائداعظم کشمیر میں استصواب رائے کے مخالف تھے مگر اس کی تائید میں کوئی مستند اور مصدقہ دستاویز تو منظر عام پر نہیں لائی گئی ہے۔ بھارت کی طرف سے استصواب کے وعدے سے انحراف کے سبب جنوبی ایشیا 57 برسوں سے بدامنی اور بے اعتمادی کا شکار چلا آرہا ہے اگر آج بھی بھارت اپنی عہد شکنی کے ازلے کے لئے تیار ہو جائے تو یہ علاقہ امن و سلامتی کا گہوارا بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے اور نتیجتا بھارت اور پاکستان کے عوام جہالت، غربت، بیماری اور بیروزگاری کی لعنت سے چھٹکارا پا کر شاہرہ ترقی پر گامزن ہوسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment