افغانستان میں پاکستانی قیدی

روزنامہ ایکسپریس جمعرات 20 دسمبر 2001ء

افغانستان کے مختلف علاقوں سے پاکستانی نوجوانوں سمیت غیر افغان قیدیوں سے انسانیت سوز سلوک اور ہلاک کرنے کی خبریں کئی ہفتوں سے آرہی ہیں لیکن حکومت پاکستان نے ان پر تشویش یا مذمت کا اظہار نہیں کیا۔ روشن خیال حکمراں شاید یہ سمجھہ کر خوش ہورہے ہوں کہ چلو افغانستان میں جہاد کے بہانے پاکستان میں موجود دہشت گرد اور انتہا پسند نوجوان امریکی بمباری کے نتیجے میں یا شمالی اتحاد کی بربریت کا نشانہ بن کرختم ہوگئے یا ان کی قید میں ہلاک کر دیئے جائیں گے اور اس طرح پاکستان کو ان سے نجات ملک جائے گی لیکن یہاں سوال انسانی حقوق کا ہے۔ جینوا کنونشن کسی قیدی کو باقاعدہ مقدمہ چلائے بغیر ہلاک کرنے یا اسے اذیت دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر افغانستان میں درندگی کا نشانہ بنائے جانے والوں میں پاکستانی شامل نہیں ہوتے تب بھی انسانیت کے ناتے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں اور حکومت پاکستان کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ ان ہلاکتوں پر اور قیدیوں کے ساتھہ ناروا سلوک پر صدائے احتجاج بلند کرتا۔ جس طرح جرم کا چھپانا، اعانت جرم کے مترادف ہے، بالکل اسی طرح ظلم و جبر کے خلاف آواز نہ اٹھانا بھی جرم کی تائید سے کم نہیں۔ کوئی بھی باعزت اور غیرت مند ملک اپنے کسی بھی شہری کے ساتھہ ملک کے اندر یا باہر ذلت آمیز سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر کوئی قوم اپنے شہریوں پر کسی ظلم یا ناروا سلوک کو برداشت کرلیتی ہے تو اس کا زمار مہذب اور خود دار قوم میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پچھلے دنوں برطانوی وزیر اعظم نے تھائی لینڈ میں منشیات کے جرم میں گرفتار ایک برطانوی خاتون کو اور امریکی سفیر نے بنگلہ دیش میں اسی جرم کے مرتکب ایک امریکی شہری کو رہائی دلوائی تھی جب کہ یہ دونوں ملک منشیات کے کاروبار میں ملوث کسی بھی شخص کو سخت ترین سزادینے کے سب سے بڑے وکیل ہیں۔

12 دسمبر کو بی بی سی نے جلال آباد میں 108 پاکستانی قیدیوں کی حالت زار اور ان کی رہائی کے سلسلے میں پاکستان کے سیکریٹری داخلہ سے بات کی۔ موصوف نے کہا کہ یہ لوگ ہم سے پوچھہ کر افغانستان نہیں گئے تھے۔ اگر انہوں نے اپیل کی تو ہم ضرور ان کی مدد کریں گے۔ یہ بیان بے حسی کے مترادف ہے۔ جہاں تک پوچھہ کرجان کا سوال ہے تو قومی خزانے سے لاکھوں ، کروڑوں روپے ہتھیا کر بھاگنے والا بھی آپ کی اجازت سے باہر نہیں جاتا، اسے بھی بیرون ملک جانے کے لئے صرف پاسپورٹ اور ویزا لازمی ہوتا ہے۔ لیکن افغانستان جانے والے مجاہدین کا معاملہ تو اس لحاظ سے قطعی مختلف ہے ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ نے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ان مجاہدین کو پہلے ہی خبردار کردیا تھا اورکہا تھا کہ کوئی پاکستانی لڑنے کے لئے افغانستان جانا چاہتا ہے تو وہ اپنی ذمہ داری پر جائے۔ باجوڑ ایجنسی سے تحریک نفاذ شریعت کے ہزاروں مجاہدین بھی اسی سلسلے میں افغانستان گئے تھے اور افغان حکومت نے بھی مجاہدین کو آنے کی اجازت دے رکھی تھی اس لئے یہ کہنا کہ پاکستان سے جانے والے چونکہ اپنی مرضی سے گئے تھے اس لئے حکومت پاکستان کی ذمہ داری نہیں ، صحیح رویہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ نے طالبان حکومت ختم کرنے کے لئے فوج کشی کا اعلان کیا تھا، وہاں طالبان کی جائز اور قانونی حکومت تھی جسے پاکستان نے تسلیم کر رکھا تھا اور امریکہ کی جارحیت کے فیصلے کے باوجود طالبان سے سفارتی تعلقات قائم تھے، اس لئے پاکستان کی نوجوان وہاں دہشت گردی کی حمایت کے لئے نہیں بلکہ جس حکومت کو پاکستان نے قانونی ہونے کی سند دے رکھی تھی اس کی مدد کے لئے گئے تھے جسے جارحیت کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ وہ شمالی اتحاد کے خلاف لڑنے نہیں گئے تھے۔ علمائے کرام اور قبائلی سرداروں نے جب محسوس کیا کہ پاکستان کی حمایت یافتہ قانونی حکومت پر غیر ملکی حملے کا خطرہ ہے تو وہ افغان عوام کے ہمراہ جہاد کے لئے گئے۔ ہمیں امریکہ کی خوشنودی کے لئے غیر انسانی اور ظالمانہ اقدامات سے گریز کرنا چاہئے۔ " سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ لگانے والوں کوسوچنا چاہئے کہ پاکستانیوں کے بغیر پاکستان کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ حکمرانوں کو شاید معلوم ہوگا کہ " کھوٹا پیسہ اور " کھوٹا بیٹا" کبھی نہ کبھی کام آہی جاتا ہے۔

افغانستان میں قید اپنے باشندوں کے بارے میں چین اور سعودی عرب کا اظہار تشویش اور ان کی واپسی کا مطالبہ ہمارے لئے بھی قابل تقلید ہونا چاہئے۔ چین نے کہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں پر خود مقدمہ چلائے گا اور سعودی عرب نے مقدمہ چلانے کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ افغانستان میں قید سعودی باشندے ہمارے بیٹے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اپنے بیٹوں کو قید سے چھڑانے کی فکر کیوں نہیں ہے۔ یہ افسوسناک بھی ہے اور ناقابل فہم بھی۔ ہم اپنے شہریوں کے بارے میں کسی قدر بے حس اور لاتعلق ہیں اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ امریکہ میں 11 ستمبر کے بعد سینکڑوں پاکستانیوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار اور ہزاروں سے توہین آمیز رویہ اختیار کیا گیا لیکن حکومت پاکستان نے اس وقت تک خاموشی اختیار کئے رکھی جب تک اخبارات میں اس پر سخت احتجاج نہیں کیا گیا۔ پھر بھی حکومت نے امریکہ سے اس سلسلے میں کچھہ عرض کرنے کی ہمت نہیں کی۔ اسے ڈر ہے کہ کہیں اس پر " دہشت گردی" کی حمایت کا الزام نہ لگ جائے۔ الزام سے بچنا ہمارے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس لئے کہ افغانستان کے بہانے امریکہ پاکستان اور چین کو دباؤ میں لانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ ہمارے اپنے رویے پر غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے رویے کا انحصار ہے۔ وہ ہمارے لئے کروڑوں ڈالر سالانہ زرمبادلہ کی صورت میں بھیجتے ہیں۔ اگر ایسا نہ بھی کریں تو اصولی طور پر ان کے حقوق کی ضمانت حاصل کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ ہمیں اپنے گرفتار شدگان کے ساتھہ سلوک پر امریکہ ہی سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ امریکہ نے کراچی میں چند امریکیوں کی ہلاکت کے موقع پر ہماری تحقیقاتی ٹیم کو لاشوں کے قریب بھی نہیں جانے دیا تھا اور تمام تر تفتیش امریکی ماہرین نے مکمل کی۔ ہر چند کہ یہ ہماری خودمختاری کے خلاف تھا۔ پچاس کی دہائی کی ابتدا میں مصر کے ایک گاؤں کو تہس نہس کردیا تھا۔ یہ انتہائی سفاکی ہے۔ لیکن بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کا منشور اور دیگر اداروں کے کنونشن کے مطابق کاروائی سے ہمیں ہر گز ہچکچانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہماری قومی عزت و وقار اور بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ افغانستان میں شہید و زخمی سینکڑوں پاکستانی شہریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرکے ان کے علاج معالجے کا انتظام کریں۔ اس لئے کہ افغانستان میں علاج کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پاکستانی قیدیوں کے بارے میں تفصیلات اور اعداد شمار حاصل کئے جائیں۔ ہم عالمی اتحاد کے اہم رکن ہیں۔ اقوام متحدہ، ریڈ کراس اور خود افغان قبائل سے پاکستانی شہریوں کے ساتھہ غیر انسانی سلوک پر احتجاج کریں اور ان کی وطن واپسی کے لئے صحیح معنوں میں کوشش کی جائے۔

عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے

کے مصداق چند لوگوں کا خیال ہے کہ عالمی اتحاد کا رکن ہونے کے سبب امریکی اتحادیوں سے لڑنے کا مطلب پاکستان سے لڑنا ہے لیکن حکومت نے خود اپنے فوجی اتحاد کے ساتھہ لڑنے کے لئے نہیں بھیجے۔ علاوہ ازیں جب پاکستان نے طالبان حکومت سے سفارتی تعلقات منقطع کئے، اس کے بعد پاکستان سے کوئی بھی مجاہد افغانستان نہیں گیا۔ اسلام میں جس جرم کی سزا سنگسار یا قتل ہے اس کے لئے شہادت کی کڑی شرائط بھی ہیں۔

اسامہ کے خلاف " دہشت گردی" کے امریکی الزام کی شہادت بھی پیش نہیں کی گئی۔ امریکی صدر یا برطانوی وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ہم کہہ رہے ہیں اس لئے اسے سچ تسلیم کرلیا جائے، بے معنی ہے۔ حالات و واقعات گواہ ہیں کہ امریکہ ابتدا ہی سے طالبان، اسامہ اور القاعدہ پر من گھڑت الزامات عائد کرتا رہا ہے۔ کبھی اسامہ کے پاس ایٹمی ہتھیار نظر آتے تھے، کبھی جراثیمی مواد سے ڈرایا جاتا تھا۔ اب ایک مشکوک بلکہ خود ساختہ وڈیو ٹیپ کا ڈراما رچا کر کہا جارہا ہے کہ امریکہ پر حملہ اسامہ بن لادن کی ہدایت پر کیا گیا۔ دنیا اب اتنی احمق نہیں کہ قوت کے زعم میں کہی جانے والی ہر امریکی بات کو کوئی بھی ہوش مند قوم من و عن تسلیم کرلے۔ بہرحال عالم اسلام کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ امریکی مفادات کی شکل اختیار کرچکے ہیں، ملت اسلامیہ کو قربان کرنے کی ہمالیاتی غلطی سے باز رہیں۔ اگر ہم نے عقل و فرد اور فکر و تدبر پر محض خوف یا اپنے اقتدار کے تحفظ کو ترجیح دی تو تاریخ ہمیں نشانہ عبرت بنا کر رکھہ دے گی۔

No comments:

Post a Comment