صدر کی وردی کا مسئلہ

روزنامہ جنگ اتوار 3 اکتوبر 2004ء

اپنے حالیہ غیر ملکی دورہ کے دوران صدر جنرل پرویز مشرف نے اس امر کی اہمیت کو اجاگر کرکے دنیا کو باور کرانے کا خصوصی اہتمام کیا کہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے تسلسل کی ضرورت ہے لیکن اس سال کے آخر تک اگر وردی اتارنے کے اپنے وعدوں پر عمل کیا تو شاید یہ تسلسل قائم نہ رہ سکے انہوں نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کو بنیاد پرستی، دہشت گردی اور انتہا پسندی سے مکمل طور پر آزاد کروانے کی جو کوشش کررہے ہیں فوج کی سربراہی کو چھوڑنا پڑا تو ان کی یہ کوشش اپنی طاقت اور توازن کھو سکتی ہے۔ بیانات کے اس انداز سے چند بنیادی باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے ان میں سب سے اہم اور پہلی یہ ہے کہ آئین کا تقاضا ہے کہ صدر مملکت 31 دسمبر2004ء سے پہلے فوجی منصب سے علیحدہ ہوجائیں دوسرا یہ کہ صدر مملکت کو اس سلسلے میں قوم سے کیا گیا وعدہ بھی یاد ہے تیسرا یہ کہ ہمارے ملک کے ماہرین قانون آئین اور دانشوروں کا یہ موقف بھی تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ہمارے یہاں وردی، والا وردی والا ہی ہوتا ہے اور بے وردی والا چاہے وہ صدر مملکت ہی کیوں نہ ہو کمزور بھی ہوتا ہے اور وردی والے کے دباؤ میں بھی رہتا ہے حالانکہ ملک کو صدر بہ لحاظ عہدہ افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ خدشات حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے تو صدر مملکت ہر گز یہ نہ کہتے کہ وردی اتارنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تسلسل قائم رہنا مشکل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی فوج الحمدللہ دنیا کی بہترین ، منظم ترین اور نظم و ضبط کی پابند فوجیوں میں شمار ہوتی ہے اس کی طرف سے یہ خطرہ نہیں ہونا چاہئے کہ صدر کے احکامات کی پابندی نہیں کرے گی لیکن اگر جنرل پرویز مشرف کو اس قسم کا کوئی ڈر ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود فوج کو سیاسی جماعت کا روپ دے دیا ہے اور آج زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک کے ہر شعبہ سے متعلق تمام فیصلے بالواسطہ یا بلاواسطہ جنرل پرویز مشرف خود کرتے ہیں جبکہ پارلیمانی جمہوریت میں وزیر اعظم ، کابینہ اور پارلیمنٹ اس کے مجاز ہیں۔ بیرونی دنیا میں نمائندگی کا اختیار بلکہ حق وزیر اعظم کا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سارک سربراہ کانفرنس ہو یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس ان میں جنرل پرویز مشرف تشریف لے جاتے ہیں جبکہ ہمارے پڑوس سے وزیر اعظم ہی بین الاقوامی فورموں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فوج کے بہت زیادہ عمل دخل کی بناء پر ہی صدر مملکت کو یہ ڈر ہوگا کہ ہوسکتا ہے فوج کی آئندہ قیادت دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی ہماری جنگ کو امریکہ کے مفادات کی جنگ قرار دے کر اپنے نوجوانوں کو بلاوجہ خطرات میں ڈالنا پسند نہ کرے یا جن اہداف کو جنرل پرویز مشرف آج "قومی مفاد" قرار دے رہے ہیں آئندہ کی فوجی قیادت انہیں اس تناظر میں نہ دیکھے یہ بہرحال تمام مفروضات ہیں لیکن ہمیں اس رجحان کو ختم کرنے کی کوشش ضرور کرنی ہوگی اور یہ کارنامہ جنرل پرویز مشرف جس بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں دوسرا نہیں کرسکے گا۔ اگر پاکستان کی فوج کا تشخص اور اس کی صلاحیت کو برقرار رکھنا ہے تو اسے ملکی سیاست سے الگ تھلگ رکھنا ہوگا صدر مملکت کو ان کے تیار کردہ منصوبوں میں رکاوٹ کا ڈر تو ویسے بھی نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ آج دنیا کی سب سے بڑی قوت قاہرہ اور اس کے صدر جارج بش کی حکومت کی طرف سے انہیں مکمل اور غیر مشروط حمایت حاصل ہے حتٰی کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی مکمل بحالی کے اپنے اصولی موقف سے بھی صرف نظر کرنے پر مجبور ہے کہ اسے باوردی صدر کی زیر قیادت پاکستان کی اشد ضرورت ہے اور وردی نہ اتارنے کے سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاول بھی ہمارے وزیر اطلاعات کی اس بات سے اتفاق کرنے پر مجبور ہیں کہ صدر پرویز مشرف کو آئندہ چند دنوں میں اہم فیصلے کرنے ہیں کولن پاول نے بہرحال وردی کے معاملے کو پیچیدہ ضرور قرار دیا ہے۔ اہم فیصلوں کا جہاں تک تعلق ہے تو آزاد اور خودمختار قوموں کو تو ہر وقت اور مسلسل اہم فیصلے کرنے کے لئے تیار رہنا ہوتا ہے ہم کوئی جامد یا غلام قوم نہیں کہ چند اہم فیصلے کرکے بیٹھے رہیں جیسا کہ پہلے فرض کیا گیا جمہوری ملکوں میں فیصلے پارلیمان کو کرنے ہوتے ہیں کسی فرد واحد پر اس کا بوجھہ نہیں ڈالا جاتا صدر کو چاہئے کہ جس کا کام اسی کو ساجے کے مصداق وہ پارلیمنٹ کو فیصلوں کی ذمہ داری پوری کرنے دیں کہ یہ ان کا حق بھی ہے اور وہی عوام کے سامنے براہ راست جوابدہ بھی ہیں۔ صدر نے اب یہ بھی کہا ہے کہ آئین کے تحت وہ فوجی سربراہ کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھہ سکتے ہیں اگر واقعی ایسا ہوتا تو پیپلز پارٹی کے باغی گروپ سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے وزیر داخلہ کو انفرادی اور پھر اجتماعی طور پر یہ درخواست کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ صدر وردی نہ اتاریں اور اس کے بعد تو گویا وزیروں اور وزرائے اعلٰی کے درمیان مقابلہ شروع ہوگیا وردی نہ اتارنے کے مطالبہ کرنے کا۔ پھر پنجاب کے وزیر اعلٰی نے صوبائی مسلم لیگ اور صوبائی اسمبلی سے قراردادوں کی منظوری کا سلسلہ شروع کردیا جو بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ یہ دراصل قوم ہی کو نہیں خود صدر مملکت کو بھی گمراہ کرنے کی سازش نہیں تو غلطی ضرور ہے۔ آئین میں اگر کسی بات کی گنجائش ہے تو اس پر عملدرآمد کرنے کے لئے صدر سے درخواست کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے اس لئے کہ صدر وردی میں ہیں اور 31 دسمبر کی تاریخ بھی اسی وردی میں رہتے ہوئے پارکر جاتے لیکن دال میں کالا ہے اور وہ یہ کہ آئین اس کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا کہ یکم جنوری 2005ء کو پاکستان کا صدر وردی میں ملبوس نظر آئے اور وردی نہ اتارنے کی دہائی اسی بناء پر ہے۔

صدر کی طرف سے وردی اتارنے کا وعدہ آئین سے ماورا نہیں ہے یہ آئین کا تقاضا ہے لیکن اس کو وعدہ قرار دے کر یہ کہنا کہ مجلس عمل نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت نہ کرکے وعدہ خلافی کی ہے اس لئے صدر بھی اپنے وعدے پر عمل کے پابند نہیں رہے یہ انتہائی کمزور بلکہ خطرناک دلیل ہے صدر کا وعدہ پاکستان کے چودہ کروڑ عوام سے تھا فقط مجلس عمل سے نہیں اور مجلس عمل سے بھی اگر تھا تو سلامتی کونسل میں اس کی شرکت سے مشروط نہیں ہوگا پھر بھی صدر مملکت کے وعدے اور کسی فرد ، جماعت یا گروہ کے وعدے میں دن رات کا فرق ہوتا ہے آج ہمارے صدر کے ہر قوم اور عمل پر ساری دنیا کی نگاہ لگی ہوئی ہے ۔ صدر خود کہتے ہیں کہ دنیا میں پاکستان کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرکے اس کا وقار بلند کرنا ہے وہ دنیا بھر میں دعوت دیتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرو انہیں ہر قسم کو قانونی اور آئینی تحفظ حاصل ہوگا لیکن جب دنیا دیکھے گی کہ ہم سے وعدہ کرنے والا شخص اپنی قوم سے کئے گئے وعدے اور آئین کے تقاضے ہی پورے نہیں کرتا تو اس سے ہمارا وقار قائم ہوگا کہ رہا سہا بھی اٹھہ جائے گا۔ ویسے بھی وعدے پورے نہ کرنے والوں کو اللہ بھی پسند نہیں کرتا اور اگر اللہ ہی کسی پسند نہ کرے تو دنیا کے ہزاروں بش اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے اور اگر اللہ کسی کو پسند کرے تو ہزار بش اسے نقصان نہیں پہنچاسکتے بشرطیکہ ہمارا اس بات پر کامل ایمان ہو۔ نیک نامی چاہے وہ فرد کی ہو یا قوم کی نہ تو امریکی امداد کے طور پر مل سکتی ہے نہ بازار سے خریدی جاسکتی ہے اس لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے قوم کی تمنا ہے کہ صدر مملکت جو "پاکستان پہلے" اور قومی مفادات کی بات سب سے زیادہ کرتے ہیں آئین کی پابندی اور اپنے وعدے کا پاس کرکے آئین کو مزید بے وقعت ہونے سے بچالیں اس لئے کہ قوم کی عزت ہی اس کے افراد کی عزت سے وابستہ ہوتی ہے۔

آج جنرل پرویز مشرف امریکی صدر بش اور مغرب کے کتنے ہی چہیتے کیوں نہ ہوں لیکن دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اپنا مقصد حاصل کرلینے کے بعد آنکھیں پھیرنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہیں کرتا اس لئے کہ یہ امریکہ کی عادت سے بڑھ کی اس کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ علاقہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے جب صدام حسین کو استعمال کیا جارہا تھا تب وہ امریکی حکمرانوں کے دل کا سرور اور آنکھوں کا نور تھے لیکن آج اسی صدام حسین کے دانت اسی طرح دکھائے جارہے ہیں جس طرح ہمارے یہاں قربانی کےجانوروں کی خریداری کے وقت دکھائے جاتے ہیں ۔ ہمیں عقل و خرد اور فکر و تدبر سے کام لینا چاہئے۔ پختہ سوچ اور پختہ کردار کا تقاضا ہےکہ مختلف افراد کی طرف سے تعریفی کلمات اور وقت بے وقت ٹیلیفونوں سے متاثر ہوں نہ اپنے مفادات کو قربان کیا جائے۔

No comments:

Post a Comment