امریکی ایوان میں پیش کیا جانے والا مسودہ قانون
روزنامہ جنگ 15 اگست 2004 ء
ماہِ رواں کے پہلے ہفتے کے دوران امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی طرف سے اپنی بین الاقوامی تعلقات کی کمیٹی کو ایک مسودہ قانون غور کے لئے بھیجا گیا ہے جس کا مقصد ایسے ممالک پر پابندیاں لگانا ہے جو جوہری پھیلاؤ کی سرگرمیوں میں ملوث پائے جائیں اس بل کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں خاص طور پر پاکستان کے خلاف پابندیوں عائد کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اگر یہ بل قانون بن گیا تو کسی قسم کی امداد دینے سے پہلے امریکی صدر کو یہ تصدیق کرنی ہوگی کہ جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی میں پاکستان نے دوسرے ملکوں سے تعاون ختم کردیا ہے نیزصدر امریکہ اس امر کی تصدیق بھی کریں گے کہ پاکستان کسی ملک کو ایسا مواد ، آلات یا کسی قسم کی ٹیکنالوجی فراہم نہیں کررہا ہے جو وسیع پیمانے پر مہلک ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہوسکتے ہوں نہ ایسا سامان برآمد کررہا ہے۔ بل کی منظوری کے 30 دن کے اندراندرامریکی صدر کے لئے یہ بتانا لازم ہوگا کہ خان نیٹ ورک سے کس کس ملک نے استفادہ کیا ہے۔ عوام کے لئے تو یہ خبر کسی حیرت کا باعث ہے نہ پریشانی کا سبب اور امید ہے کہ پاکستان کی حکومت کو بھی اس سے کوئی تشویش لاحق نہیں ہوئی ہوگی اس لئے کہ 57 سالہ زندگی کے تقریباً 45 برس ہم نے امریکہ کی دھمکیوں، جھڑکیوں اور پابندیوں ہی میں گزارے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا صد شکر ہے کہ ہم نے ہر آزمائش کے بعد خود کو زیادہ بہترمقام پر پایا ہے۔ کبھی پریسلر ترمیم کی تلوار ہم پر لٹکتی رہی اور اس کے نام پر ہم پر پابندیاں عائد کی گئیں حتیٰ کہ رقم کی ادائیگی کے باوجود ہمارے ایف 16 طیارے بھی امریکہ نے روک لئے اور فاضل پرزے اور مرمت کے لئے دیا گیا سامان بھی ضبط کرلیا یہاں تک کہ ہم سے اس جگہ کا کرایہ بھی مانگ لیا گیا جہاں یہ طیارے کھڑے کئے گئے تھے بہرحال ہمارے خلاف امریکہ کی پابندیوں کی تاریخ طویل بھی ہے اور تلخ بھی لیکن ہم امریکہ پر ایسے فدا ہیں کہ گالیاں سن کر بھی کبھی بے مزہ نہیں ہوئے۔
اس بل کے پیش کئے جانے میں ہمارے لئے ایک سبق اور ایک تنبیہ ضرور مضمر ہے اگر ہم سمجھہ سکیں۔ پاکستان جس نے پہلے بھی امریکہ کی خاطر اپنی سالمیت کو دائو پر لگادیا تھا اور اب تو ہم سب کچھہ محض اس لئے قربان کررہے ہیں کہ امریکہ محفوظ ہو جائے اس حقیقت کا اعتراف خود امریکہ میں اعلیٰ ترین سطح پر بھی کھلم کھلا کیا جارہا ہے لیکن مذکورہ بالا بل کے پیش کئے جانے سے ہماری آنکھیں ضرور کھل جانی چاہئیں اور سمجھہ لینا چاہئے کہ امریکہ اپنے دوستوں بالخصوص پاکستان سے آنکھیں پھیر لینے کا ماہر ہی نہیں بلکہ ایسا کرنا اب اس کی عادتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے امریکہ کا یہ رویہ بحیثیت مجموعی قابل اعتراض تو ہے ہی لیکن یہ اس کے شایان شان بھی نہیں ہے اس لئے کہ دوستی کے عہد و پیمان باندھ کر وقتاً فوقتاً اس میں اپنی طرف سے شرائط پیش کرنا یا دبائو ڈالنا یا پاکستان جیسے بے لوث اور مخلص اتحادی کو بلیک میل کرنا، مہذب قوموں کا شیوہ کبھی نہیں رہا۔ ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں امریکہ کے اتحادی بن کر پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر کیا نقصانات اٹھانے پڑے ہیں اس کی گواہ دنیا ہی نہیں خود امریکہ کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ ہم نے امریکہ سے غلط یا صحیح جو بھی عہد کیا ہے اسے شدید خطرات کے باوجود نبھانے سے راہِ فرار اب بھی اختیار نہیں کررہے بہرحال پاکستان کے حکمرانوں کو اس امر پر غور ضرور کرنا چاہئے کہ امریکہ سے غیر مشروط تعاون کی سزا ہمیں اندرون ملک دہشت گردی کے واقعات کی صورت میں دی جارہی ہے ہمارے اکابرین پر قاتلانہ حملے ، علمائے اکرام کی شہادت اور مساجد ، امام بارگاہوں اور مدارس میں بم دھماکے کی اسی تعاون کا شاخسانہ ہیں ہم بڑے بڑوں کو پکڑ کر امریکہ کی جھولی میں ڈال رہے ہیں اپنے شہریوں پر بمباری کررہے ہیں ان کے گھر مسمار کررہے ہیں محض اس لئے کہ امریکہ کا یہ خوف ختم ہوجائے کہ ہمارے علاقہ میں کوئی دہشت گرد اب بھی چھپا بیٹھا ہے دوسری طرف حالت یہ ہے کہ امریکہ ہمیں ایک عبداللہ شاہ بھی دینے کا روادار نہیں یہ عدم مساوات کی بدترین مثال ہے حکومت پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ ان حقائق پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے ان کی روشنی میں آئندہ کی حکمت عملی مرتب کی جائے۔ صدر مملکت نے یہ صحیح کہا ہے کہ قوم کے مفادات نہیں بدلتے ، پالیسیاں بدلی جاسکتی ہیں ہمیں فی الحقیقت اپنے مفادات کا تعین کرنے کی اشد ضرورت ہے یہ مناسب نہیں کہ ہم اپنے مفادات کو امریکی مفادات سے منسلک یا مشروط کرلیں یا ان کو مشترک قرار دے دیں۔
امریکہ کے مفادات اور پاکستان کے مفادات میں رات دن کا فرق ہے دنیا بھر کے ممالک خاص طور پر دنیائے اسلام کے ساتھہ دوستانہ تعلقات اس طرح قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اپنے اور عالم اسلام کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ اپنے مفادات کو کسی بھی قوم کے مفادات کے تابع کرنا کسی بھی غیرت مند اور آزاد قوم کا شیوہ نہیں ہوتا امریکہ کے ایوان نمائندگان میں پیش کئے جانے والے بل کا واحد مقصد ہمیں ہمیشہ دبائو میں رکھنے کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے یہ بل قانون کی شکل اختیار کرتا ہے یا نہیں یہ بحث غیر متعلق ہے ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اس کے پیش کئے جانے کی وجہ محض یہ ہے کہ ہم پہلے کئی موقع پر امریکہ کے دبائو میں آنے کاغلط تاثر قائم کر چکے ہیں بہرحال جب جنرل پرویز مشرف کھل کر کہتے ہیں کہ وہ کسی سے بھی ڈکٹیشن لینا پسند نہیں کرتے تو اس کا مظاہرہ امریکہ کے مجوزہ قانون کے خلاف آواز آٹھا کر کرنا چاہئے ویسے بھی اقوام متحدہ میں ہمارے سفیر پر قاتلانہ حملہ کے بہانے کسی ملزم کی گرفتاری سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ امریکہ کی اصل حکمت عملی پاکستان کے بارے میں کیا ہے ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ قومی مفادات اور حکمت عملی کے تعین میں فیصلے کا اختیار ایک یا چند افراد تک محدود نہ رکھیں اس کے لئے عوام کے نمائندگان اور پارلیمنٹ سے باہر صاحب فکر یا تدبر اور محبّ وطن افراد سے مشورہ کی روایت قائم کریں۔ قومی مفادات کا تعین کرتے وقت قوم کے جذبات اور احساسات کو اگر اہمیت نہیں دی گئی تو قوم تقسیم ہوکر رہ جائے گی اور اسے اس طرح دشمن کے لئے لقمۂ تربننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ دوستی اور بھائی چارے کی باتیں مشرق سے ہورہی ہوں یا مغرب سے ہمیں یہ سمجھہ لینا چاہئے کہ آج کی دنیا میں دوستی کا معیار محض اپنے مفادات ہیں اور اس کی سب سے نڑی اور روشن مثال خود پاک امریکی دوستی ہے ہم کئی بار ڈسے جاچکے ہیں حکمرانوں کو کافی قریب کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنی چاہئے اس میں ملک و قوم ہی کا نہیں خود ان کا اپنا بھی بھلا ہے۔
No comments:
Post a Comment