تحفظ سپاہیوں سے نہیں قانون سے ملتا ہے

روزنامہ جنگ پیر 7 جون 2004 ء

30مئی کی صبح عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی کی شہادت کے 36 گھنٹوں کے اندر اندر مسجد امام علی رضا میں نماز مغربین کے وقت بم دھماکے میں تقریباً دو درجن نمازیوں کی شہادت سے منطقی طور پر یہ ثابت کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ یہ پہلے سانحہ کا ردعمل ہے اور اس طرح امریکا کی خوشنودی کی خاطر اسے اسلام کی شدت پسندی اور فرقہ واریت کا نام دیکر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا جواز مل جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ہر طبقہ فکر کے علمائے کرام اور عوام الناس کو کہ انہوں نے پہلے کی طرح اس بار بھی اپنے قول و فعل سے اس گھناؤنی سازش کو ناکام بنادیا جو دراصل اسلام اور پاکستان دشمنوں نے ملک و قوم کے خلاف تیار کررکھی ہے پھر 4 مئی کی ہڑتال میں بلا امتیازفرقہ و مسلک مثالی یکجہتی کا ثبوت دیکر بھی دنیا کو یہ بتادیا کہ عوام ان واقعات کو نہ مذہبی شدت پسندی سمجھی ہیں نہ فرقہ واریت۔ اگر یہ مسلمانوں میں سے کسی فرقہ کی انتہا پسندی ہوتی تو پہلے واقعہ کے بعد توڑ پھوڑ کے جو افسوسناک واقعات رونما ہوئے ان کا نشانہ دوسرے فرقہ کے لوگ اور ان کی جائداد کو بنایا جاتا۔ پولیس ان کے غصہ کا ہدف نہ بنتی۔ دوسرے دن کے بدقسمت سانحہ کے بعد بھی جسے معلوم نہیں کن مقاصد کے تحت فرقہ واریت اور مذہبی انتہاپسندی قرار دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ متاثرین میں سے کوئی بھی اس سے اتفاق نہیں کرتا ان کا زور رو اس امر پر ہے کہ علمائے کرام اور نمازیوں کی شہادت میں بھی وہی ہاتھہ کارفرما ہیں جو شیخ احمد یاسین، علامہ باقر الحکیم کی شہادت کے علاوہ فلسطین، عراق اور کشمیر میں مسلمانوں کی شہادت کے ذمہ دار ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے اکثر حکمرانوں کی سوچ عوام کی سوچ اور انکے جذبات سے مطابقت نہیں رکھتی۔

دشمنوں کے جس کھیل کو جس بری طرح اہل کراچی اور اہل پاکستان نے ناکام بنایا ہے اس پر امریکا اور برطانیہ ہی نہیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھی تشویش لاحق ہوگئی اور اس کا اظہار انہوں نے کراچی کے واقعات پر بیان دے کردیا ہے لیکن اس کا زیادہ تشویش ناک پہلو ہے کہ حکومت پاکستان کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان قوتوں پر واضح کردے کہ کراچی کے یہ سانحات انتہاپسندی ہے نہ فرقہ واریت البتہ اگر کوئی ملک پاکستان میں جمہوریت کی مکمل بحالی وغیرہ کے سلسلے میں اظہار خیال کردیتا ہے تو اس پر صدائے احتجاج بلند کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا جاتا۔

کراچی کے ان اندوہناک واقعات کو وانا آپریشن کا ردعمل قرار دینا یا کسی ذمہ دار فرد کی طرف سے یہ کہنا کہ لوگوں کی حفاظت کیلئے کراچی کے ڈیڑھ کروڑ لوگوں میں سے ہر ایک کے ساتھہ سپاہی نہیں لگایا جاسکتا شہریوں کے زخموں پر ایک طرف تو نمک پاشی ہے اور دوسری طرف غیر ذمہ دارانہ سوچ کا مظہر اگر ہرکس و ناکس کے ساتھہ پولیس اور رینجرز کی موبائلوں کی قطاریں لگائی جاسکتی ہیں تو ایک مسجد پر کیا دو سپاہی بھی نہیں بھی نہیں لگائے جاسکتے؟ ویسے بھی حقیقت یہ ہے کہ امن و امان کے قیام پر شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا نفری سے نہیں بلکہ پولیس، سرکاری اہکاروں اور حکمرانوں کے رویہ سے تعلق ہے۔ سعودی عرب میں جرائم کا تناسب ساری دنیا سے کم ہے اس کا سبب یہ نہیں کہ وہاں ہر فرد کے ساتھ ایک سپاہی لگایا گیا ہے بلکہ قانون کی حکمرانی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کوئی بھی کرے اسے اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے جبکہ ہمارے یہاں قانون کی عملداری وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سرکاری اہلکاروں، حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی ناک شروع ہوتی ہے ایسے میں آپ ایک فرد کے ساتھ ایک نہیں پانچ سپاہی بھی لگادیں تب بھی اس کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ سرکاری اعلان کے مطابق مفتی شامزئی شہید کی حفاظت پر بھی محافظ تعینات تھے۔ مسجد حیدری پر بھی پولیس لگائی ہوئی تھی، مسجد امام علی رضا پر تعینات سپاہی بھی غائب بتائے جاتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اہلکاروں کی تقرری اور تبدیلی جب تک مقتدر اور بااثر افراد کی مرضی کے تابع ہوتی رہے گی اس وقت تک کوئی بھی شہری کسی بھی جگہ محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا اس لئے ضروری ہے کہ آئین و قانون کو ہم دل سے بالادست تسلیم کریں اس کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں اسی میں ہماری بھلائی ، سلامتی اور ترقی ، خوشحالی کا راز مضمر ہے۔

No comments:

Post a Comment